khuddara bhatti badlein

ڈاکٹر،پی ٹی وی اور لائیونشریہ

تحریر: کے ایم خالد

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ”ڈاکٹر“ کو میڈیا کا لائیو ٹچ مافق نہیں ان کا ”کیسا دیا“ کے ”ٹچ“ ہو ں ”جیو“ کے ”آم کھائے گا آم“ہوں یا ”بول“ کے لائیو ”کپورے“انہوں نے اپنی ان ہر دل عزیز حرکات و سکنات سے ”عزت“ ہی کمائی ہے۔”ڈاکٹر“ میڈیا کے اندر ہو یا باہر پھر بھی میڈیا ان کی حرکات کی وجہ سے انہیں ”ہاٹ کیک“ سمجھتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رمضان المبارک کو میڈیا پر موجودہ رنگ دینے کے وہ سرخیل ہیں۔اس مرتبہ سو فیصد امید تھی کہ کوئی بھی چینل ”ڈاکٹر کی ٹیم بشمول شیر۔ای“ سمیت کوئی بھی ان کی ”خدمات“ سے استفادہ نہیں کرئے گا مگر پھر ان کی اپنی حکومت کام آگئی اور وہ پی ٹی وی کی اسکرین میں گھستے چلے گئے۔آج تک انہوں نے حالیہ پی ٹی وی کی لائیو رمضان نشریات میں سینکڑوں ”پھل جھڑیاں“ چھوڑی ہیں جو کہ اب سوشل میڈیا کا حصہ بن چکی ہیں۔”ڈاکٹر“ نے تو پطرس بخاری کی ایک ادبی تحریر ”ختنے“ کو ایسی بے ادبی سے پیش کیا کہ اس تحریر کا ادبی حسن ہی گہنا گیا۔

لائیو نشریات ایک مشکل ٹاسک ہے جس سے کماحقہ نمٹنا بہت مشکل ہے۔ لائیو نشریات کو کنٹرول کرنے کا ایک خوبصورت فارمولہ ”صرف پندرہ منٹ کا لائیو وقفہ“ جر نیلی صدر پرویز مشرف نے عدلیہ تحریک کے دوران پیش کیا تھا۔اس فارمولے کو اگر میڈیا کے تمام شعبہ جات پر لاگو کر دیا جاتا تو میڈیا کے بہت سے حساس شعبوں کی وائرل ویڈیوز میں کمی واقع ہو سکتی تھی۔

پی ٹی وی کی اسکرین سے کل کی نشریات میں ”ڈاکٹر“ نے بالکل ”گھریلو ماحول“ بنانے کی کوشش کی ہے جو کہ ان کی وائرل ویڈیو دیکھنے سے بخوبی سمجھ آتا ہے۔دوسری شادی کے بعد ”ڈاکٹر“ عجیب وغریب جذبات میں گھرا ہو اہے جس کو ”شیر۔ای“ کی کانوں میں ”رس“گھولنے والی ”مدھ بھری“ آواز مزید بڑھا دیتی ہے۔”ڈاکٹر“ شاید ان دنوں اس قدر الجھا ہوا ہے کہ اسے پی ٹی وی کی اسکرین اور گھر کے ڈرائنگ روم میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں ہوتا۔رہ گیا پی ٹی وی کی لائیو نشریات کا ونگ وہ لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتے ”ڈاکٹر“ کی حرکات کو کیسے سنسر کر کے لائیو جانے سے روکیں کیونکہ پی ٹی وی تو وہ ادارہ ہے جہاں نوے کی دہائی میں اردو فلم سنسر پالیسی سے ڈھائی گھنٹے سے پنتالیس منٹ کی رہ جاتی تھی وہیں ایک سنسر شدہ انگلش فلم میں پی ٹی وی کے ”کہنہ مشق“ اسٹاف کی بدولت ”بوس و کنار“ کے سین ناظرین کے ٹی وی سیٹ تک جا پہنچے تھے۔(کے ایم خالد)۔۔

عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا مصنف کے خیالات اور ان کی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں