mohsin naqvi ke naam dikhari maaon ka khat

شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

(یہ تحریر ایک دوست کے سوشل میڈیا سے لی گئی ہے۔ غالب امکان ہے کہ تحریر بھی انہی کی ہے لیکن چونکہ انہوں نے اپنا نام اس تحریر میں نہیں دیا تھا اس لئے ہم بھی نام نہیں لگارہے۔ اس تحریر سے اگر کسی کو اختلاف ہوتو ہمیں لکھ کر بھیج سکتا ہے، ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔ علی عمران جونیئر)۔۔۔

محترم فہد شہباز، میاں عمران اور علی حمزہ بھائی ، گزراش اتنی سی ہے کہ آپ اپنے گھر کی خواتین کیساتھ باہر نکلیں تو سامنے کسی بڑے مدرسے کہ مولوی صاحب  کھڑے ہوں، مائیک اور کیمرے مین انکے ساتھ ہو اور آپکو  چھ کلمے سنانے کو بول دیں یا آپکے اہل خانہ کو پردے کی تلقین شروع کردیں تو اس پر آپکا مولانا کو یقینی طور پر یہ ہی جواب ہوگا کہ تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے۔۔۔؟ یقین کریں جیسے کسی مولوی کو چوک میں کھڑے ہوکر کسی کی مسلمانی چیک کرنے کا کوئی حق نہیں ویسے ہی صحافتی اور اخلاقی طور پر آپُکو بھی کوئی حق نہیں کہ آپ ایک عام شہری کو انکی فیملی کیساتھ روکے، انکی بغیر اجازت کے ویڈیو بنائے اور سوال کریں کہ آپکے پاس لائسنس، ہیلمٹ نہیں، گاڑی کے ٹوکن پورے نہیں یا ون وے کیوں آرہے ہیں؟؟؟ مہذب معاشرے میں تو ایک مجرم کے اہل خانہ کی عزت اور حرمت کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن آپ تو ہیلمٹ نہ پہننے پر لوگوں کی تذلیل شروع کردیتےہیں۔۔ !

میں ذاتی طور پر خود ایک ایسے نوجوان کو جانتاہوں جو کئی دن مارے شرمندگی کہ اس لیے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا کہ اسکو باپ کو آپ میں سے ہی کسی ایک کے پروگرام میں کہا گیا تھا کہ دو سو روپے کا ابھی چالان بھر دو ۔۔ تو اس کے باپ نے جواب دیا میرے پاس پیسے نہیں ، کورونا کے دنوں میں ایک نوجوان نے چوک میں کھڑے دو پولیس اہلکاروں کو اس لیے گولیاں ماردیں کہ ماسک نہ پہننے پر پولیس نے باپ بیٹے کو چوک میں کان پکڑوا دئیے  تھے اور کسی نے انکی ویڈیو وائرل کردی تھی۔

آپکی خدمت میں اتنی سی گزراش ہے کہ جب آپ کسی سرکاری ادارے پر ، حکومتی رہنماؤں پر جائز تنقید کرتے ہیں سوال کرتے ہیں یا ادارے کی نااہلی بے نقاب کرتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن اگر پورا ملک بھی بغیر لائسنس کے گاڑی چلانا شروع کردے تو تب بھی آپکو کوئی حق نہیں لوگوں سے پوچھنے کا ، آپ متعلقہ سرکاری محکمے پر تنقید کرسکتے ہیں، اس محکمے کے نمائندؤں سے سوال کرتے ہیں لیکن عام  شہری سے نہیں چاہے وہ قانون شکن ہی کیوں نہ ہو۔

آخر میں رضوان جرال صاحب سے گزراش ہے کہ سر آپکا شمار پاکستان کے چند ایسے پروگرامنگ ہیڈ میں ہوتا ہے جنہیں مجھ سمیت بڑی تعداد میں بہت سے نوجوان آئیڈیلائز کرتے ہیں،  آپ کی زیرنگرانی کئی ایسے پروگرام ہو جو حقیقی طور پر ناگزیر تھے ، درجنوں نوجوانوں کی گورمنگ میں آ پکی محنت شامل ہے، کرنٹ افئیر کی پروگرامنگ میں جو ملکہ آپُکو حاصل ہے وہ باقی اداروں میں بہت کم دکھائی دیتا ہے ۔۔لیکن سر اب آپکی ناک کے نیچے ایسے دو  تین پروگرام ہورہے ہیں جو انسانیت کی تذلیل کا باعث بن رہے ہیں۔ خدا کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ حوالات میں قید ملزم جس کا ابھی کیس چلا رہا ہے ، ابھی عدالت نے فیصلہ سنانا ہے لیکن آپکے اینکرز جو اسکے ساتھ کرتے ہیں  وہ سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں۔۔(خصوصی رپورٹ)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں