shaheed sahafat majeed nizami ki le palak beti ke naam

شہید صحافت مجید نظامی کی لے پالک بیٹی  کے نام

خصوصی رپورٹ۔۔

یوم عالمی آزادی صحافت“ ہر سال 3 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن پوری دنیا میں میڈیا یعنی صحافت کی خدمات کو یاد کرنے کے لیے وقف ہے۔ یہ دن ہمیں میڈیا کی آزادی کی اہمیت کے بارے میں باور کراتا ہے اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے کی امنگ اور جذبہ دیتا ہے۔ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا ریاستی وجود اور معاشرتی ساخت کے لیے کتنا اہم ہے۔ لیکن صحافت عام طور پر دنیا میں اور خاص طور پر پاکستان میں ایک بہت ہی پرخطر پیشہ ہے۔ دنیا بھر میں آئے روز صحافیوں پر جان لیوا حملے ہوتے ہیں اور ان کا معاشی قتل عام بھی کیا جاتا ہے۔ میڈیا کی اہمیت اور اس پیشے کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد آزادی صحافت کے اصولوں کو منانا، میڈیا کی حالت زارکا جائزہ لینا، اسے حملوں سے بچانا اور فرائض کی ادائیگی میں اپنی جانیں نذرانہ پیش کرنے والے صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ آزادی صحافت کا عالمی دن 1993ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1991ء میں یونیسکو جنرل کانفرنس کی سفارش کے بعد منایا۔ یہ پہلی بار 1994ء میں منایا گیا تھا۔ اس دن کے منانے کا مقصد آزادی صحافت کی اہمیت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور شہید صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ ان صحافیوں کی کی قربانیوں کو سلام پیش کرنا ہے جو فرض کی ادائیگی میں اپنی جان کی بازی ہار بیٹھے۔ گیلرمو کینو (Cano Guillermo ) ایک مشہورکولمبین صحافی، مصنف اور ایڈیٹر تھے، وہ 1952ء سے1986ء تک ایک اخبار ”El Espectador“ کے مدیر رہے۔ انہوں نے میڈیا کی آزادی اور صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ گیلرمو کینو نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بہت سی متنازعہ سچائیوں کو عام لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے بہت بڑا خطرہ مول لیا اور ایک روز انہیں ”بوگوٹا“ میں شہید کردیا گیا۔ ان کی صحافتی قربانیوں کے اعتراف میں ”گیلرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم ایوارڈ“ متعارف کرایا گیا۔

                آزادی صحافت کے عالمی دن کا موضوع اور مرکزی خیال ہر سال بدلتا رہتا ہے۔ اس بار ” ورلڈ پریس فریڈم ڈے 2024ء“ کا مرکزی خیال یہ ہے:

“A Press for the Planet: Journalism in the face of the Environmental Crisis”

                لیکن پاکستان کے ایک تاریخی اخبار نوائے وقت سے وابستہ بد قسمت صحافیوں کی تنظیم ”متاثرین نوائے وقت“ نے اس سال ”یوم عالمی آزادی صحافت“ کا موضوع اور مرکزی خیال ”شہید صحافت مجید نظامی کی لے پالک بیٹی رمیزہ بٹ کے نام“ کیا ہے۔ رمیزہ نظامی کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 26 جولائی 2014ء کو ” نوائے وقت“ کے مدیر اعلیٰ اور چیئرمین ”مجید نظامی ٹرسٹ“ مجید نظامی کی پراسرار موت کے بعد نوائے وقت گروپ کو آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور ایک کامیاب اخبار سے ہزاروں کارکنوں کو بیک جنبش قلم گھروں کو بھیج دیا، ان کی نا صرف تنخواہیں روکی گئیں بلکہ سیکڑوں کارکنوں کے واجبات بھی ہڑپ کر لیے۔ ” نوائے وقت “ کے جن متاثرین کو ادائیگیاں کی گئی ہیں وہ بھی کوڑیوں کی شکل میں دے کر ان سے جبری تحریریں لکھوا لی گئی ہیں۔ درجنوں سابق ملازمین نوائے وقت ہیں جو ابھی تک اپنے جائز واجبات سے محروم ہیں۔ نوائے وقت کے زوال اور محدود اسٹاف کے باوجود ہر ماہ کروڑوں روپے کے اشتہارات مل رہے ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ”مجید نظامی ٹرسٹ“ کے زیرانتظام چلنے والے اس اخباری گروپ کی آمدنی کہاں جا رہی ہے اور کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ اس ادارے کے پہلے سے موجود اربوں روپے کے اثاثے ملک سے کیسے غائب کیے گئے، یہ رقوم ہنڈی حوالہ کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہوئیں یا منی لانڈرنگ کی گئی۔ متاثرین نوائے وقت ”یوم عالمی آزادی صحافت “2024ء کے موقع پر چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس قاضی فائز عیسی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ایک نظریاتی اور تاریخی اخبار کے معاملات کی چھان بین کرائیں اور ہزاروں ملازمین کے معاشی قتل عام میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کر کے انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔(متاثرین نوائے وقت“ پاکستان)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں