Mazadoor | Imran Junior

موبائل کا زمانہ

علی عمران جونیئر

دوستو،عینک صاف کرتے ہوئے رشید صاحب نے اپنی بیوی سے کہا۔۔ ہمارے زمانے میں موبائل نہیں تھے۔ ۔بیوی نے کہا۔۔ جی بالکل، ٹھیک 5 بج کر 55 منٹ پر میں پانی کا گلاس لے کر دروازے پرآجاتی اور آپ آ پہنچتے۔۔رشید صاحب نے کہا۔۔ ہاں میں نے 30 سال کام کیا لیکن آج تک سمجھ نہیں سکا کہ میں اس لیے آتا تھا کہ تم پانی لاتی تھی یا تم پانی اس لیے لاتی تھی کہ میں آتا تھا۔۔بیوی بولی،ہاں، اور یاد ہے۔۔آپ کے ریٹائر ہونے سے پہلے جب آپ کو شوگر کی بیماری نہیں تھی اور میں آپ کی پسندیدہ کھیر بناتی، تب آپ کہتے کہ آج دوپہر میں ہی خیال آیا کہ اگر کھیر کھانے کو مل جائے تو مزہ آ جائے۔۔رشید صاحب نے آنکھیں بند کیں اور ماضی کے دریچوں میںجھانکتے ہوئے کہا۔۔ہاں،واقعی۔۔دفتر سے نکلتے وقت جو سوچتا، گھر آ کر دیکھتا کہ تم نے وہی بنایا ہے.۔۔بیوی بولی۔۔اور تمہیں یاد ہے جب میں پہلی ڈیلیوری کے وقت میکے گئی تھی اور جب درد شروع ہوا تو مجھے لگا کاش! تم میرے پاس ہوتے۔اور ایک گھنٹے کے اندر تم وہاں کسی خواب کی طرح آ گئے؟رشید صاحب مسکرائے اور کہنے لگے۔ہاں، اس دن یونہی سوچا تم سے مل لوں!!۔بیوی نے کہا۔۔ اور جب تم میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غزل کے دو شعر پڑھتے ۔۔رشید صاحب مسکراکربولے۔۔ ہاں اور تم شرما کے اپنی پلکیں جھکا لیتی میں سمجھ لیتا مجھے میری غزل کی داد مل گئی!!بیوی نے پھر کہا۔۔اور ہاں ایک مرتبہ چائے بناتے ہوئے میرا ہاتھ ہلکا سا جل گیا تھا اور اسی شام آپ نے جیب سے برنول کی ٹیوب نکالی اور کہا اسے الماری میں رکھ دو۔۔رشید صاحب نے حیرت سے اپنی زوجہ کو دیکھا اور بولے۔۔ ہاں، گزشتہ روز ہی میں نے دیکھا تھا کہ ٹیوب ختم ہو گئی ہے، پتہ نہیں کب اس کی ضرورت پڑ جائے، یہ سوچ کر میں ٹیوب لے آیا تھا!!بیوی کہنے لگی۔ تم کہتے آج آفس کے بعد وہیں آجانا ساتھ فلم دیکھیں گے اور باہر کھانا بھی کھائیں گے۔۔رشید صاحب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔۔ اور جب تم آتی تو اسی رنگ کا جوڑا پہن کر آتی جیسا میں نے سوچا ہوتا تھا۔پھر قریب جا کر بیوی کا ہاتھ تھاما اور کہا۔۔ ہاں ہمارے زمانے میں موبائل نہیں تھے لیکن۔۔ہم دونوں تھے!!۔۔

بیوی نے کہا۔۔ آج بیٹا اور بہو اکٹھے ہیں لیکن۔۔باتیں نہیں واٹس ایپ ہوتا ہے۔۔لگاؤ نہیں ٹیگ ہوتا ہے۔۔کیمسٹری نہیں کمنٹ ہوتا ہے۔۔پیار نہیں لائیک ہوتا ہے۔۔میٹھی نوک جھونک نہیں ان فرینڈ ہوتا ہے۔۔ کوئی اٹیچمنٹ نہیں۔۔کوئی تبصرہ نہیں۔۔اُنہیں بچے نہیں چاہیے، اُنہیں پب جی،کینڈی کرش ساگا، ٹیمپل رن اور سب وے سرفرز چاہیے۔۔رشید صاحب نے کہا۔۔ چھوڑو ان سب باتوں کو،اب ہم وائبریٹ موڈ پر ہیں، ہماری بیٹری کی بھی 1 ہی ڈنڈی بچی ہیں۔۔ہائے!! کہاں چلی؟؟ بیوی نے مڑ کر جواب دیا۔۔ چائے بنانے۔۔ رشید صاحب نے ہنستے ہوئے بولے۔۔ ارے میں کہنے ہی والا تھا کہ چائے بنا لو۔۔بیوی نے مسکرا کو جواب دیا۔۔ پتا ہے میں ابھی بھی کوریج میں ہوں اور میسجز بھی آتے ہیں۔۔ دونوں ہنس دیے۔۔رشید صاحب پھر بولے۔۔ ہاں ہمارے زمانے میں موبائل نہیں تھے۔۔ہاں دوستو شاید یہی سچی محبت ہے۔ جو آج کل کے نوجوان کبھی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔۔

ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ کیا۔۔کل رات اڑھائی سے تین بجے کا وقت ہوگا میں تکیے پہ سر ٹکائے سو رہا تھا جب اچانک فون کی وائبریشن سے مجھے اٹھنا پڑا ۔۔تکیے کے نیچے سے موبائل نکال کر دیکھا تو اسکرین پہ اُس کا نمبر نام سمیت جگمگا رہا تھا۔۔بے شک وہ زندگی سے چلی گئی تھی مگر اس کا نمبر آج بھی سیو تھا بالکل اس کی یادوں کی طرح۔۔اتنی رات کو اس کی کال دیکھ کر ایک دم سے نیند چھو منتر ہو گئی اور دل کی دھڑکن بھی نجانے کیوں بڑھ سی گئی۔بڑی مشکل سے خود کو سنبھال کر کال ریسیو کی اور بھرم رکھنے کو بہت غصے سے ۔۔ہیلوکیا۔۔دوسری طرف سے اُس کی سسکی ابھری اور رونے کی آواز آنے لگی اور میرے وجود کو پگھلانے لگی۔۔ وہ جو غصے اور بیزاری کی تہہ چڑھائی تھی ایک منٹ میں کافور ہو گئی اور میں تقریباً ٹوٹے ہوئے لہجے میں بس اس ِکے نام سے اسے پکار ہی پایا اور میری منہ سے بس ۔۔نام نکلا اس کا اور میں بھی اس کے ساتھ مل کر رونے لگا۔۔چند لمحے یونہی گزر گئے پھر وہ روتے ہوئے بولی کہ۔۔ آج سے چند سال پہلے ایک وعدہ تم نے لیا تھا مجھ سے اور میں نے دوبارہ کبھی تم کو مڑ کے نا دیکھا۔۔مگر آج ایک وعدہ مجھے چاہیے تم سے اس لیے میں نے رابطہ کیا ۔۔تم سے ورنہ کبھی تمہاری زندگی میں واپس نا آتی ایک لمحے کو بھی۔۔میرے دل سے ایک آہ سی نکلی اور بیتے ہوئے سالوں کا ہر ہر لمحے کا پیا ہوے سب آنسو سارے بند توڑ کر بہہ نکلے اور اُسکی تمام محبت اور دیوانگی کو اپنی قسم دے کر ایک وعدے کا پابند کر کے خود سے دور کر دیااس وعدے کی پابند ہو گئی اور دوبارہ کبھی لوٹ کر نا آئی۔۔اور آج اچانک پتہ نہیں کس جذبے کے تحت کس وعدے کا پابند کرنے لوٹ آئی تھی۔میں نے لہجے کو مضبوط کیااور پورے دل سے کہا کہ تم جو کہو گی مجھے ہر بات منظور ہے ۔۔جو وعدہ لینا چاہتی ہو میں نبھانے کو تیار ہوں۔۔اک آزمائش تم نے کاٹی اب اپنی محبت کو میں آزماؤ گا۔بولو کیا وعدہ چاہیے تمہیں؟؟وہ دو لمحے تو چپ رہی ،پھر بولی وعدہ کرو کہ۔۔اس رمضان میں سحری میں لازمی جگایا کروگے؟؟اور ساتھ ہی لائن خاموش ہو گئی۔۔

ایک ہسپتال میں ہر پیر کی صبح گیارہ بجے کے بعد بیڈ نمبر پندرہ پر جو بھی مریض ہوتا تھا اس کی موت ہوجاتی۔جب مستقل ایسا ہونے لگا تو اس بیڈ کو آسیب زدہ قرار دے دیا گیا۔ نئے آنے والے ایم ایس نے ان اموات کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔پیر کی صبح گیارہ بجے سے پہلے ایک مریض کو بیڈ نمبر پندرہ پرلٹایا گیا۔اور اسکے چاروں طرف کئی خفیہ کیمرے لگا دیے گئے مانیٹرنگ روم میں ہاسپٹل کے ڈاکٹرز کے علاوہ ماہر نفسیات۔ مولانا حضرات۔ مخفی علوم کے ماہر اور ایک سائنس دان بھی موجود تھے۔ ان سب لوگوں کو وہاں جمع کرنے کا مقصد یہی تھا کہ وہ اس بیڈ پر مرنے والے مریض کی موت کی اصل وجہ جان سکیں آخر کار گیارہ بجے کے بعد وارڈ کا دروازہ کھلا اور۔۔۔ صفائی کرنے والا اندر آیا اور آتے ہی بیڈ نمبر پندرہ کی آکسیجن مشین کا پلگ نکال کر اپنا موبائل چارجنگ پر لگا دیا۔ اور صفائی کرنے لگا۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔وزیراعظم کی ”کرسی” کے اتنے دعوے دار سامنے آرہے ہیں کہ اب کرسی ہٹا کر ”دری” بچھا دی جائے تاکہ سب اس پر بیٹھ جائیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں