wo mera pasandeeda column nigaar bhi tha

وہ میرا” پسندیدہ کالم نگار”بھی تھا

تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔

مئی سوگوار کر جاتا اور اب ستمبر کا مہینہ بھی ڈستا ہے۔۔۔۔۔۔من کے اجلے سید تنویر عباس نقوی کو بچھڑے پندرہ برس ہو گئے۔۔۔۔۔۔یکم مئی دو ہزار نو کی اس غمگین صبح میرا فون بند تھا کہ عزیز از جان حافظ ظہیر اعوان نے غم سے نڈھال ہمارے دروازے پر دستک دی اور ہچکیاں لیتے بتایا کہ نقوی صاحب اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔گویا سر پر آسمان گر پڑا۔۔۔۔۔۔شومئی قسمت کہ نو ستمبر دو ہزار اکیس کی صبح بھی نقوی صاحب کی ناگہانی موت کی طرح کا “وقوعہ”پیش آیا۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دن پہلے سورج ڈھلے حافظ صاحب کا فون آیا کہ ہسپتال جا رہا ہوں دعا کیجیے گا۔۔۔۔۔میں نے رات گیارہ بجے فون کیا تو ان کا موبائل رسپانس نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ میں بھی فون بند کرکے سو گیا ۔۔۔۔۔فجر کی نماز کے لیے اٹھا تو حافظ ظہیر کے بھائی طاہر اور نوشین نقوی کے میسج تھے کہ حافظ صاحب ہم میں نہیں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔گویا پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔۔۔۔۔کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ دو باوفا یار یوں” بے وفائی”جائیں گے۔۔۔۔۔۔بہت مٹی پھرولتا ہوں لیکن کہیں دور سے بابا فرید کے کلام کی گونج سنائی دیتی ہے۔۔۔۔

 مٹی نہ پھرول فریدا

یار گواچے نئیں لبھدے

خلوص کو دوام ہے۔۔۔۔خیر بھی دائم برگ وبار لاتی رہے گی۔۔۔۔۔روشنی بانٹنے والے” دیے” کبھی نہیں بجھتے۔۔۔۔۔تنویر عباس نقوی اور حافظ ظہیر کی” یادیں” بھی وہ “جگنو” ہیں جو ٹمٹماتے اور دل لبھاتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔عالمی یوم صحافت پر  سوچ رہا تھا کہ ہم بھی کتنے بد عہد ” بونے”ہیں کہ کیسے کیسے قد آور قلم کاروں کا تذکرہ کیے بغیر  قلم کی حرمت کا “عہد” کرتے ہیں۔۔۔۔بے شمار خوبیوں سے مزین نقوی صاحب دانشور تھے۔۔۔۔۔ادیب۔۔شاعر اور افسانہ نگار تھے ۔۔۔۔وہ بیک وقت ایڈیٹر تھے۔۔۔۔کالم نگار۔۔۔۔نیوز ایڈیٹر۔۔۔میگزین ایڈیٹر اور رپورٹر بھی تھے۔۔۔۔۔

تنویر عباس نقوی” محاسبہ” کے عنوان سے کالم لکھتے تھے ۔۔۔۔۔۔وہ میرے پسندیدہ کالم نگار بھی تھے۔۔۔۔ایک کالم کی وجہ سے وہ میرے دل میں بس گئے۔۔۔۔۔یہ نوے کی دہائی کے آخری برسوں کی بات یے۔۔۔۔۔ان دنوں پنجاب میں جعلی پولیس مقابلے عروج پر تھے۔۔۔۔۔المیہ یہ تھا کہ گھن کے ساتھ “گیہوں”بھی پس رہے تھے۔۔۔۔۔۔دینی جماعتوں کے کئی بے گناہ کارکن صرف اس” جرم” میں اس “خونیں رسم “کی بھینٹ چڑھ گئے کہ وہ “داڑھی پگڑی والے”تھے ۔۔۔۔۔شاید اس دوران کسی” شدت پسند” نے حکمران نامی کسی شخصیت کو بھی دھمکی دے دی۔۔۔۔۔۔تب ایک بڑے کالم نگار نے “ماں کے آنسو “کے نام سے ایک کالم لکھا کہ دھمکی سے مذکورہ شخصیت کی والدہ کو صدمہ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔تنویر عباس نقوی نے اس پر “کس کی ماں کے آنسو” کے عنوان سے ایک دھواں دار جوابی کالم لکھا  جس میں کہا کہ عالی جاہ! مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔۔۔۔سب مائوں کے آنسو ایک جیسے دردناک ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ان کا یہ “محاسبہ” اچھا لگا کہ” قلمی تول” وہی معیاری ہوتا ہے جس میں “پلڑے” برابر ہوں۔۔۔۔یہ میری ان سے پہلی آشنائی تھی جو آئندہ سالوں میں دوستی میں بدل گئی۔۔۔۔

دو ہزار دو کی بات ہے وہ میرے ساتھ شکرگڑھ پریس کلب کی تقریب حلف برداری میں گئے۔۔۔۔تب مشرقی شہر میں میرے سب سے عزیز دوست ملک یونس پریس کلب کے صدر بنے۔۔۔۔انہوں نے حکم دیا کہ نقوی صاحب تشریف لے آئیں تو تقریب کی رونق دوبالا ہو جائے گی ۔۔۔۔میں نے گذارش کی تو وہ مان گئے۔۔۔۔۔تب وہ شام کے اخبار روزنامہ  مقابلہ کے دبنگ ایڈیٹر اور میں چیف نیوز ایڈیٹر تھا۔۔۔۔۔۔انہوں نے وہاں مختصر سا “خطاب” کیا اور واپسی پر “ہاں میں پیلی سیاہی سے لکھتا ہوں”کے نام سے کالم لکھا۔۔۔۔۔کالم کا پس منظر یہ تھا کہ ان دنوں اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی نے حکومت کو آئینہ دکھانے پر اخبارات کو زرد صحافت کا طعنہ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔وہ”پیلا طعنہ” جو ہر حکمران اپنے “کالے کرتوت” بے نقاب ہونے پر صحافیوں کو دیتا ہے۔۔۔۔۔۔انہوں نے اس کالم میں اعدادوشمار کی روشنی میں حکومت کے بخیے ادھیڑ دیے۔۔۔۔۔۔

تنویر عباس نقوی نے دو ہزار آٹھ میں پاکستان کے منفرد اخبار روزنامہ آج کل میں نا جانے کیوں کچھ کالم نگاروں کے حوالے سے” تلخ کالموں” کی ایک سیریز لکھ ڈالی۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے کالم محاسبہ میں ان کا خوب محاسبہ کیا اور  ایک دو کالم نگاروں کی وہ “چٹکی” لی کہ وہ چیخ اٹھے۔۔۔۔۔ ایک کالم نگار صاحب  تو اتنے آگ بگولہ ہو گئے کہ جوابی کالم میں اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر گئے۔۔۔۔۔ان کا کالم تو چھپ گیا لیکن شاہ جی کی زیرادادت چھپنے والے اس بڑے اخبار کو” اگلے دن “اعتذار” بھی چھاپنا پڑا ۔۔۔۔۔

تنویر عباس نقوی صحافت کے میدان میں میر کارواں تھے۔۔۔۔انہوں نے کتنے ہی اخبار  نکالے اور گھر سے بلا بلا کر دوستوں کو روزگار دیا۔۔۔۔۔۔وہ شام کے اخبار کے ایکسپرٹ تھے ۔۔۔۔۔ایسی کاٹ دار شہ سرخیاں جماتے کہ لوگ جھوم اٹھتے ۔۔۔۔۔۔۔ایسے ہی ایک اخبار کی ادارت کے دوران کسی ایسی ہی سرخی پر جیل بھی گئے۔۔۔۔۔۔۔قیادت فرار ۔۔۔۔کارکن گرفتار۔۔۔۔۔۔ٹرین مارچ چل پڑا۔۔۔۔۔یہ شام کے ایک اخبار کی وہ شہ سرخی تھی جو انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹرین مارچ کے آغاز پر جمائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

یادش بخیر۔۔۔۔تنویر عباس نقوی نے اپنے صحافتی کیرئیر کی آخری ٹیم دو ہزار سات میں تشکیل دی۔۔۔۔۔۔کیا ہی خوب حسن انتخاب تھا۔۔۔۔۔یہ پاکستان کی تاریخ کے منفرد اخبار روزنامہ آج کل کی بہترین ٹیم تھی۔۔۔۔۔۔جناب نجم سیٹھی اور جناب خالد چودھری کی زیرادارت اس اخبار کے خاکے میں سارے رنگ تنویر عباس نقوی نے بھرے۔۔۔وہ اس اخبار کے کوآرڈی نیشن ایڈیٹر تھے ۔۔۔۔اخبار کا ہر شعبہ ہی کمال تھا۔۔۔۔۔لاہور کے نیک نام اخبار نویس جناب طاہر پرویز بٹ ایڈیٹر نیوز اور عامر ندیم چیف نیوز ایڈیٹر تھے ۔۔۔۔۔احسن ظہیر،حنیف عاصم،اسلم زبیر،عارف اقبال،شاہد اسلم،طارق سکندر گوندل،اویس حمید ،رانا غلام سرور

نوید گل خان،اسجد علی،طارق مغل

اعجاز حیدر بٹ،الیاس فریادی،عظیم گوہر،طارق جاوید،فیصل یعقوب،مصور شہزاد

رضا مغل،اعظم خاور،مدثر ملک،زمان خان،رفیع اللہ،ذوالفقار علی،متین سعید،احسان الحق اظہر

شیر افضل بٹ،فواد بشارت،عبدالرئوف،محمود ریاض چودھری،شہر یار خان،حق نواز،

رضوان شمسی،حافظ رضوان الحق اور منیر چودھری بھی اس ٹیم میں تھے۔۔۔۔۔خاکسار سٹی ایڈیٹر اور انچارج فرائیڈے ایڈیشن جبکہ حافظ ظہیر اعوان ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر تھے۔۔۔۔۔۔مانیٹرنگ ڈیسک پر ماہر قانون منیر چودھری،مقصود چودھری،طارق چودھری،مقصود چودھری اور میاں افتخار تھے۔۔۔۔۔لاہور کے معتبر سنئیر صحافی اور جینوئن یونین لیڈر جناب راجہ اورنگزیب چیف رپورٹر تھے جبکہ ان کی ٹیم میں حافظ عبدالودود،اسد کھرل،اجمل اشفاق،مبشر حسن،شوکت ساجد ،قیصر کھوکھر،رانا خالد قمر،شہزاد بٹ،راحیل سید ،سیف اللہ چیمہ،سدھیر چودھری،مدثر خان،اعجاز مرزا،فرحان علی خان،گونیلا حسنین،یاسمین فرخ اور حلیمہ سعدیہ شامل تھیں۔۔ادارتی صفحے پر عمار غالب،زاہد رامے تھے۔۔نوشین نقوی اور فریال میگزین ایڈیٹرز تھیں۔۔ندیم رضا،فائقہ،ثنا ایڈیشن کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔شیراز احمد چیف فوٹو گرافر جبکہ،حامد موسوی،اعجاز سندھواور ملک شفیق اعوان ان کے معاون تھے۔۔

تنویر عباس نقوی اچھے اینکر پرسن بھی تھے۔۔۔۔۔روزنامہ آج کل کے زمانے میں ہی انہوں نے پی ٹی وی پر ایک ٹاک شو بھی شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عبوری حکومت کا زمانہ تھا اور نگران وزیر اطلاعات جناب نثار میمن ان کے دوست تھے۔۔۔۔۔اس پروگرام کا نام۔۔۔۔۔۔ Tea With TAN……یعنی تنویر عباس نقوی کے ساتھ چائے۔۔۔۔۔تھا۔۔۔۔۔یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ موصوف کو “مشروب” میں چائے اتنی پسند نہیں تھی۔۔۔۔۔میں نے بابا نجمی کی طرح انہیں بھی کم ہی چائے پیتا دیکھا۔۔۔۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وہ بابا نجمی کے دوست تھے ۔۔۔۔۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جناب منو بھائی سے لیکر سید عباس اطہر صاحب۔۔۔۔آئی اے رحمان صاحب سے لیکر جناب حسین نقوی تک،وہ بزرگ صحافیوں کے چہیتے بھی تھے۔

روزنامہ آج کل کی ادارت اور پی ٹی وی پروگرام کی میزبانی ان کے صحافتی کیرئیر کی آخری شاندار سرگرمیاں تھیں۔۔۔۔۔۔نقوی صاحب اپنے ہی مزاج کے روشن خیال آدمی تھے۔۔۔۔سند رہے کہ وہ دنیا دار ہرگز نہیں تھے۔۔۔۔چاہتے تو شاہانہ زندگی گزارتے لیکن کرائے کے مکان سے جنازہ اٹھا۔۔۔۔۔اتنے خود دار تھے کہ کہتے میں پیدل بھی ایڈیٹر ہوں۔۔۔۔۔۔۔بتاتے الفاظ  بھوک میں اترتے ہیں۔۔۔۔۔سمجھاتے کہ ادیبوں شاعروں کے انٹرویو نہیں کیا کرتے۔۔۔۔۔ایسے بے مثال جملے کسی دیہاڑی دار نہیں خود دار صحافی کے دماغ سے ہی پھوٹ سکتے ہیں۔۔۔۔۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔۔(امجد عثمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں