Media Fitna By Muhammad Saleem

میڈیائی فتنہ

تحریر : محمّد سلیم

حقیقی خبر : حادثے میں ایک شخص دوسرے شخص کی گاڑی کے نیچے آ کر ہلاک ۔

میڈیائی فتنہ : ایک سنی مسلمان نے ایک شیعہ مسلمان کو مذہبی تنازعے پر اپنی گاڑی کے نیچے بہیمانہ انداز میں کچل کر ہلاک کر دیا ۔ ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں علامہ فلاں نقوی صاحب اور علامہ فلاں قادری صاحب ۔
خاتون اینکر : جی علامہ نقوی صاحب ! بڑی افسوسناک خبر ہے ۔ آپ کا ایک بندہ شہید کر دیا گیا۔ اب آپ کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا ؟
علامہ نقوی : جی ہم نے شیعہ علماء کانفرنس بٹھا دی ہے ۔ آج شام تک ہم اپنے لائحہ عمل کا اعلان کر دیں گے ۔
خاتون اینکر : جی علامہ قادری صاحب ! آپ کی طرف آتی ہوں ۔ کیا آپ اس قتل پہ اظہار افسوس کرنا چاہیں گے ؟
علامہ قادری : جی بالکل ! ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے ۔ مگر میری معلومات کے مطابق یہ ایک معمولی حادثہ ہے جسے قتل نہیں کہا جا سکتا ۔
خاتون اینکر : کیا آپ ایک شیعہ کی جان کو معمولی قرار دے رہے ہیں ۔ آپ کے نزدیک ایک انسانی جان اور ایک شیعہ کی جان میں فرق ہوتا ہے ؟
علامہ قادری : میں نے قطعاً یہ نہیں کہا بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ابھی تفتیش ہونے دیں ۔ یہ محض ایک حادثہ ہے جس کا شیعہ سنی تنازعے سے کوئی تعلق نہیں ۔
خاتون اینکر : مگر جناب ! ہماری تحقیق کے مطابق جس گاڑی سے حادثہ ہوا اس کے آئینے پر نعلین مبارک کی شبیہ لٹک رہی تھی اور جس شخص کو بہیمانہ انداز میں کچلا گیا اس نے کالے کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ ایک مجلس سے آرہا تھا ۔
علامہ قادری : اصل میں یہ حادثہ رات کے وقت پیش آیا ۔ عین ممکن ہے کہ رات کے اندھیرے میں کالے لباس میں ملبوس شخص ڈرائیور کو نظر ہی نہ آیا ہو ۔
خاتون اینکر : یعنی آپ کے نزدیک حادثے کی وجہ کالا لباس ہے ۔ ٹھیک ہے آپ کا موقف آگیا ۔ جی علامہ نقوی صاحب ۔ کالے کپڑے پہننا جرم بن گیا ۔ کیا کہیں گے ؟ کیا یہ آپ کی محافل کے تقدس پہ حملہ نہیں ؟ ہم تو بچپن سے یہی دیکھتے آئے ہیں کہ مجالس میں شریک شیعہ حضرات کالے کپڑے ہی پہنتے چلے آئے ہیں اور یہ ان کا حق ہے ۔ کیا آپ سنیوں کے شر سے بچنے کے لیئے کالے لباس سے دستبردار ہو سکتے ہیں ؟
علامہ نقوی : محترمہ پھاپھے کٹنی صاحبہ ! جیسا کہ آپ نے خود ہی بتا دیا کہ یہ شیعہ حضرات کی بڑی پرانی رسم ہے کہ ماتم کے لئے کالا لباس ہی استعمال ہوتا آیا ہے ۔ اس پر کسی سنی عالم کی طرف سے اعتراض انتہائی قابل افسوس ہے ۔ ہمیں ان سے قطعاً یہ امید نہیں تھی ۔ ہم نے ہمیشہ کالے کپڑے پہنے ہیں اور کالے کپڑے ہی پہنیں گے ۔ چاہے ہمیں کالے کپڑے پہننے کے جرم میں شہید کر دیا جائے ۔
خاتون اینکر : جی قادری صاحب ! نقوی صاحب کا موقف ہے کہ جان دے دیں گے مگر کالے کپڑے پہننا نہیں چھوڑیں گے ۔ اب کالے کپڑوں کے خلاف آپ کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا ؟
(ٹونٹ ٹونٹ ٹونٹ)
قادری صاحب ؟
ارے او قادری صاحب ؟
لگتا ہے قادری صاحب نے غصے میں آکر فون ہی بند کر دیا ہے ؟
ہم نقوی صاحب کی طرف واپس چلتے ہیں ۔ جی نقوی صاحب ! قادری صاحب تو کالے کپڑوں کے سوال پر غصے میں آکر فون ہی بند کر گئے ۔ اب آپ اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں ۔
علامہ نقوی : جی بالکل ! ہماری علماء کونسل نے تین روزہ سوگ اور احتجاج کا اعلان کیا ہے ۔
خاتون اینکر : ٹھیک ہے نقوی صاحب ! بہت شکریہ آپ کا کہ آپ نے ہمیں وقت دیا ۔
جی ناظرین جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔

قارئین!
ہم اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ آج کا میڈیا کس طرح ہمارا استحصال کر رہا ہے، کس طرح دین و شریعت کے نام پر ہمارے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے،
بچوں کو یہ بھی بتائیں کہ اخبارات میں اور سوشل نیٹ ورک پر صرف خبروں کو سرسری طور پر پڑھ کر نہیں گزرنا چاہیے، بلکہ اس خبر کا صحیح تجزیہ کرنا چاہیے، بین السطور پیغام کو از خود سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔۔۔ایک نتیجہ تو رپوٹر نکالتا ہے، (جو صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی) اور ایک نتیجہ تک آپ پہنچوگے، تب آپ کی ذمہ داری ہے کہ خوب غور و فکر اور حالات کے گہرے مشاہدے کے بعد کوئی صحیح نتیجہ نکالو! پھر اپنی بات پر اصرار بھی مت کرو۔ اوپر کی مثال میں دیکھا آپ نے! کس طرح ایک اتفاقی حادثہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر دو مسلک والوں کے درمیان نفرت بھڑکا کر لڑائی کرانے کی کوشش کی گئی۔(محمدسلیم)۔۔
(بلاگر کی تحریرسے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونئیر)۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں