imran khan ki giraftaari anchors ka radd e amal

عمران خان کی گرفتاری، اینکرز کا ردعمل۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔
معروف اینکر پرسن محمد مالک نے کہا ہے کہ عمران خان کو آج ملنے والی سزا کو قانونی پیش رفت کے طور پر نہیں بلکہ سیاسی پاور شو کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو آج نہیں تو کل تک قلیل مدتی عدالتی ریلیف مل جائے گا ۔اینکر پرسن نے کہا کہ اس سزا سے عمران خان کے فالورز اور سپورٹرکو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان ایسا شخص نہیں ہے کہ جس کو ہاتھ نہیں لگا یا جا سکتا ، اگر اس کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو سوچئے کہ آپ کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے! اقتدار کی سیاست زوروں پر ہے۔سینئر صحافی حامد میر نے سیشن عدالت کی جانب سے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا پر اپنا تجزیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ جج صاحب نے زبردستی ایک فیصلہ لکھ کر رکھا ہوا تھا جو صبح صبح سنا دیا گیا ۔ جیونیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ یہ فیصلہ یہ غیر متوقع فیصلہ نہیں ہے ، پورے پاکستان کو پتا تھا کہ یہ فیصلہ آئے گا ، اس لیے تحریک انصاف کے وکیل بار بار درخواست دے رہے تھے کہ کسی اور عدالت کو کیس دیا جائے ، ایسا لگتاہے کہ جج صاحب نے زبردستی ایک فیصلہ لکھ کر رکھا ہوا تھا وہ صبح سنا دیا ہے ، تحریک انصاف پر جو الزامات ہیں وہ کافی عرصہ سے میڈیا پر زیر بحث ہیں ان میں وزن بھی ہے لیکن جس طرح سے عدالت نے فیصلہ دیا، جس طریقے سے جج صاحب پر جو تحریک انصاف کے اعتراضات تھے ان کو نظر انداز کیا گیا ، جس طرح سے انہوں نے اس کیس کو خود ہینڈل کیاہے ، اس سے جج کے کنڈٹ پر کافی سوالات اٹھا سکتے ہیں، اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا اور ہو سکتاہے کہ تحریک انصاف کو وقتی طور پر ریلیف بھی مل جائے ، اہم پہلو یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر سابق وزیراعظم اور سیاستدان کو سزا دی ہے ، پاکستان میں اب یہ روایت ہے کہ کبھی نوازشریف ، بینظیر بھٹو ، ذوالفقار ، اس سے پہلے حسین سہر وردی کو سزا ملی ، سزا صرف وزیراعظم کو ملتی ہے ، ان لوگوں کو نہیں ملتی جو لوگ پاکستان کا ا ٓئین اپنے بوٹوں تلے روندتے ہیں ۔سینئر اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس حالیہ گرفتاری کے بعد موقع ہے کہ وہ سیشن کورٹ سے بڑی عدالت میں جاسکتے ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ موقع اس سے پہلے جب سابق وزرائے اعظم میاں نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی کو حاصل نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ماضی میں جو باتیں کی ان کا خمیازہ تو انہیں بھگتنا پڑے گا۔ مردم شماری کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف یا الیکشن کمیشن کو کہیں اور سے ڈکٹیشن ملی ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں آج سیشن کورٹ اسلام آباد نے تین سال کی سزا سنائی ہے ، پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کردیا گیا ہے۔سینئر صحافی سلیم صافی نے نجی ٹی وی جیونیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں ایک معاملے میں کلیئر ہوں اور ہاتھ صاف ہیں تو میں کہوں گا کہ کل انکوائری کر لو فیصلہ کر لو ،ا گر میرے دل میں چور ہو تو میں تاخیری حربے استعمال کروں گا، تین مرتبہ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے آج ایک ہی کیس میں تیسری مرتبہ رجوع کیاہے ، ان کی دلیل یہی ہوتی ہے کہ یہ قابل سماعت نہیں ہے ، یہ فیصلہ صرف الیکشن کمیشن کے پاس جومینڈیٹ تھا ، وہ فیصلہ تھا جو الیکشن کمیشن نے ماتحت عدالت سے کہا تھا کہ اس کو دیکھیں اور نمٹائیں، لیکن توشہ خانہ میں جو اور غیر قانونی کام ہوئے ہیں ، وہ اس عدالت کو ریفر نہیں کیا گیا وہ فیصلہ نیب میں ہونا ہے ، اصل غیر قانونی کام یہ ہواہے کہ تحفوں کی قیمت جو کمیٹی لگاتی ہے اس کمیٹی نے درست اندازہ نہیں لگایا ، دوسرا غیر قانونی کام یہ ہواہے ،پیمنٹ سرکاری خزانے میں وزیراعظم کے اکاﺅنٹ سے نہیں ہوئی ہے، جو پیسہ آیاہے وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے اکاﺅنٹ میں گیاہے ،تیسری خلاف ورزی یہ ہے کہ یہ چیز باہر کیسے گئے ، اس میں کسٹم رولز کی خلاف ورزی ہوئی ہے ، اس کی ایک اور خلاف ورزی یہ ہے کہ اس کی جو قیمت آئی ہے ، وہ ان کے اکاﺅنٹ میں جمع ہوئی جو الیکشن کمیشن میں ڈکلیئر نہیں ہوا۔ قانون میں ہے کہ آپ اسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں نہ کہ بیچ سکتے ہیں، انہوں نے اسے بیچ دیاہے ، نوازشریف نے گاڑیاں لی ہیں تو انہوں نے اسے اپنے پاس ہی رکھاہے ۔سلیم صافی نے کہا کہ یہ بڑ ی بدقسمتی ہے جس کی طرف حامد میر نے اشارہ کیا ، کہ ہمیشہ سیاستدانوں کو سزا ملتی رہی ، ان کے سہولت کار اور جو بنانے والے ہوتے ہیں، مثلاءعمران خان کا پراجیکٹ 2010 سے شروع ہوا ، ان کیلئے جرنیل صاحبان نے میڈیا کو بھی استعمال کیا ،عدلیہ کو بھی استعمال کیا، سیاسی لوگوں کے ہاتھ بھی مروڑے گئے ، ان کیلئے آرٹی ایس بھی بٹھایا گیا ، ٹھپے بھی لگوائے گئے ، ان لوگوں سے نہیں پوچھا جا تا، ایک انفرادیت اس حوالے سے ہے کہ سہر وردی ہو یا بھٹو ہو ، ماضی کے سیاستدانوں کو آوٹ کیا گیا ، ان کو اس طرح کرپشن کے طریقے سے آوٹ نہیں کیا گیا ، نوازشریف کے کیس میں انصاف کے تقاضوں کو زیادہ پامال کیا گیا ۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں