Mazadoor | Imran Junior

بدلہ نہیں بدلاؤ

علی عمران جونیئر

دوستو،گزشتہ روز ”اوٹی ٹی” پر ایک بھارتی ویب سیریز دیکھ رہے تھے۔ یہ ویب سیریز کرائم بیسڈ تھی، جس کے اب تک دو سیزن آچکے ہیں۔ بھارتی ریاست یوپی کے ایک علاقے مظفر نگر کے متعلق کہاجاتا تھا کہ اگر نئی دہلی میں قانون بنایا جاتا ہے تو مظفرنگر میں قانون توڑا جاتا ہے، یہاں شوقین اور ڈیڈھا نامی دو الگ الگ کرمنل گروپس تھے جن کا پورے علاقے پر راج تھا، جن کی سرکوبی کے لیے ایک آئی پی ایس افسر کو بطور سزا اس علاقے میں بھیجا جاتا ہے۔ پہلے سیزن میں وہ شوقین گروپ کے سرغنہ کو مار کر اس کے پورے گروپ کا خاتمہ کردیتا ہے۔ اب اس کا دوسرا سیزن دیکھنے میں بزی ہیں، پہلے سیزن کی دس قسطیں ہیں، ایک قسط میں آئی پی ایس افسر اپنے ماتحتوں کو ایک ڈائیلاگ سمجھانے کے انداز میں کہتا ہے۔۔وہ بولتا ہے۔۔ ہمیں یہ وردی بدلے کے لیے نہیں بدلاؤ کے لیے دی گئی ہے۔ ۔یہ ایک جملہ پورے سیزن کا حاصل تھا، اس ایک چھوٹے سے جملے نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کو عریاں کردیا۔

بات ہورہی ہے بدلاؤ کی۔۔ایک تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کووڈ کے بعد سے امریکی مردوں کی زندگی خواتین کے مقابلے میں 6 سال تک کم ہو گئی ہے۔طبی ماہرین کی ایک نئی تحقیق میں پتا چلا ہے کہ کووڈ 19 کے بعد سے امریکا میں مردوں اور خواتین کے درمیان متوقع زندگی میں فرق گزشتہ 30 سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ بڑھا ہے۔جریدے JAMA انٹرنل میڈیسن میں شائع تحقیقی نتائج کے مطابق 1996 کے بعد سے مردوں اور خواتین کے درمیان متوقع عمر کا فرق سب سے زیادہ بڑھ گیا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں کووڈ 19 اور منشیات کی زیادتی سب سے زیادہ اہم بتائی گئی ہے۔قبل ازیں 2021ء میں حکومتی اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ اس وقت کیے گئے مطالعے کے مطابق خواتین کی متوقع عمر 79.3 برس جب کہ مردوں کی 73.5 برس تھی۔ ماہرین نے اپنے تحقیقی نتائج میں بتایا تھا کہ امریکیوں کی متوقع زندگی 2019ء سے مسلسل کم ہو رہی ہے، جو کہ2020ء میں 78.8 سال سے77.0 اور 2021ء میں مزید کم ہوکر 76.1 سال ہو گئی ہے۔اس مطالعے کے مصنف ڈاکٹر برینڈن یان (یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سان فرانسسکو) نے نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں تحقیق کے نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ متوقع عمر میں مسلسل کمی کا رجحان پریشان کن ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں اس چیز پر گہری نظر رکھنی ہوگی کہ کس ایج گروپ کے لوگوں کی متوقع عمر کم ہو رہی ہے، تاکہ اس فرق کو کم کیا جا سکے۔ڈاکٹر یان نے مردوں اور خواتین کی متوقع عمر میں بڑھتے فرق کی وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس پورے معاملے میں خاص طور پر مردوں کی بگڑتی ہوئی دماغی صحت کو مرکوز کرنا ہوگا۔تحقیق کرنے والے ماہرین نے خواتین اور مردوں کی متوقع عمر میں بڑھتے فرق کی وجوہات میں ذیابیطس، امراض قلب، مایوسی، خودکشی اور شراب نوشی کو بھی اہم وجوہات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

جب کسی بھی گھر میں بہو آجاتی ہے توپھر اس گھر میں ایک بدلاؤ سا محسوس ہوتا ہے۔ اگر ساس یا نند کی بہو سے نہیں بنی تو پھر یہ بدلاؤ اکثر گھروں میں تقسیم کا باعث بھی بنتا ہے، نئی نویلی دلہن اپنے شوہر کو لے کر الگ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ایسا آپ کے آس پاس اکثر ہوتا ہے، جسے شاید آپ محسوس تو کرتے ہوں گے لیکن نظرانداز بھی کردیتے ہوں گے کیوں کہ یہ ابھی آپ کے ساتھ نہیں ہورہا۔۔ایک نئی نویلی دلہن کو دلہے راجا فرمائش کر کے گئے، آج میں آفس سے واپس آؤں گا تو کریلے قیمہ بھر کے پکانا۔۔ دلہن مسکرا کر بولی، مجھے سب کچھ بنانا آتا ہے ،آپ کو آج شام کو ایسے کریلے کھانے کو ملیں گے، جو آپ نے کبھی نہ کھائے ہوں۔۔دلہا مسکرا کر بیسٹ آف لک بولا اور آفس روانہ ہو گئے۔دلہن نے سب سے پہلے موبائل پکڑا، یوٹیوب کھولا تو انٹرنیٹ کی ایم بی ختم تھے یعنی پیکیج نہیں تھا، تو کمرے سے باہر نکل کر ساسو ماں کے پاس گئی اور کہنے لگی۔۔ ماں جی مجھے سب کچھ بنانا آتا ہے، آپ کے گھر میں کیساپکتا ہے؟ مجھے تھوڑی سی گائیڈ لائن دیں۔۔ ساس مسکرا کر بولی، کوئی بات نہیں بیٹی تمہیں سب بتاتی ہوں۔۔۔۔ساس نے کہا، سب سے پہلے قیمہ فرائی کرو۔۔بہو بولی، یہ تو مجھے پتہ تھا۔۔ساس نے کہا۔۔ کریلے چھیل لو۔۔۔بہو نے دوبارہ کہا۔۔ یہ تو مجھے پتا تھا۔۔ساس نے پھر کہا۔۔ کریلے چاک کر کہ بیج نکالو۔۔بہو نے پھر نشرمکرر کہا۔۔ یہ تو مجھے پتا تھا۔۔ساس بولی۔۔ اب کریلوں کو اچھے سے دھو لو۔۔بہو نے ایک بار پھر یہ تومجھے پتہ ہے کی گردان کی۔۔ ساس سن سن کر پک چکی تھی یہ تو مجھے پتا تھا، یہ تو مجھے پتا تھا۔۔ساس نے کہا۔۔ اب کریلوں میں مٹی بھر کر اوپر سے دھاگا لپیٹ دو۔۔ بہو نے پھر تڑکہ لگایا۔۔یہ تو مجھے پتہ تھا۔۔ساس نے کہا ،قیمے میں مٹی والے کریلے رکھ کر کچھ دیر کے لیے پکنے دو۔۔بہو پھر سے بولی۔۔ یہ تو مجھے پتا تھا۔۔دلہا صاحب دفتر سے گھر لنچ کرنے پہنچے تو کریلوں کی خوشبو سونگھ کر رہا نہ گیا اور دلہے نے کہا کھانا لگا دو۔۔۔کریلے دیکھنے میں بہت بہترین اور خوشبودار تھے۔۔شوہر نے جیسے ہی لقمہ لیا تو منہ سارا مٹی سے بھر گیا۔ شوہر نے پوچھا یہ کھانا کس نے بنایا۔۔بیوی بولی، میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔۔شوہر نے غصے میں بیوی کو زور دار تھپڑ گال پر رسید کر دیا۔۔اس بار ساس کے بولنے کی باری تھی۔۔ یہ تو مجھے پتہ تھا۔۔ مورل آف دی سٹوری۔۔ایویں نہیں پک دے قیمہ تے کریلے۔۔

ہم جب چھوٹے سے تھے، اسکول جانے کے لیے صبح صبح اٹھنا ہمارے لیے کسی پھانسی کی سزا سے کم نہیں تھا۔ سردی ہوگرمی یا بارش، ہر حال میں صبح اٹھنا پڑتا تھا۔۔دل چاہتا تھا کہ بس کچھ دیر اور سولیں، لیکن جس دن چھٹی ہوتی تھی اس دن آٹومیٹک صبح سویرے آنکھ کھل جاتی تھی۔۔ہم بچپن میں اکثر صدق دل سے یہ دعا کرتے تھے کہ ۔۔یااللہ جب بڑے ہوجائیں تو کوئی ایسا کام نہ دینا جس میں صبح اٹھ کر جانا پڑے۔۔ پھر ہم بڑے ہوئے اور میدان عمل میں اترے تو صحافی بن گئے۔۔ سقراط کہتا ہے کہ میں جب چھوٹا تھا تو صبح کو بہت دیر سے اٹھتا تھا، والدہ کو میری اس روش سے سخت نفرت تھی، کیوں کہ وہ مجھے ایک بہت بڑا تاجر دیکھنا چاہتی تھی۔ ایک دن مجھے ایک استاد صاحب کے پاس لے گئی تاکہ وہ مجھے سویرے اٹھنے کی فوائد بتائیں۔ اس استاد نے ایک کہانی کے ذریعے مجھے موٹیویٹ کرتے ہوئے کہا۔۔دو پرندے تھے، ایک سویرے اٹھ کر کیڑے مکوڑے تلاش کر کے پیٹ بھرتا تھا اور دوسرا دیر سے اٹھتا، جس کے لیے کوئی کیڑا مکوڑا زمین پر رینگتا ہوا نہ ہوتا کہ وہ کھا سکے۔۔یہ کہانی سنا کر، استاد نے سقراط سے فیڈ بیک لیتے ہوئے پوچھا۔ اس کہانی سے آپ نے کیا سمجھا؟ سقراط نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔”جو کیڑے جلدی اٹھتے ہیں، ان کو پرندے کھا جاتے ہیں”۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہم پاکستانی جتنی مرضی ترقی کر لیں لیکن اُڑتے ہوئے جہازکو دیکھنے کی عادت نہیں جائے گی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں