shoaib jutt ne ghair ikhlaqi harkat ki

اے آر وائی نیوز کے نام کھلا خط۔۔

السلام علیکم سر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ تین اگست 2016 کو میرا جواں بیٹا سرکاری ہسپتالوں میں تڑپ تڑپ کر مر گیا اسکے بعد میری بیوی کی پیٹ میں بہت زیادہ درد محسوس ہونے لگی ہسپتال جاکر معائنہ کیا تو پٹہ چلا کہ اس کی پیٹ میں رسولی ہے سرکاری ہسپتال میں بیٹے کے مرنے کے بعد اعتماد اٹھ چکا تھا تو حمزہ سرجیکل نجی ہسپتال گئے جہاں چترال گا ایک ڈاکٹر اکبر شاہ جاننے والا تھا چونکہ میری فیملی جوبلی انشورنس کمپنی کے ساتھ انشور ہے اور مجھ سے باقاعدہ ماہوار کٹوتی ہوتی ہے تو وہ بل ادارے کو بھیجا اس کی ادایگی ہوگئی ۔

پچھلے سال میری بیوی کی پیشانی اور ہاتھ میں اضافی ہڈی نکلنے لگا مگر جب زیادہ درد کرنے لگا تو پھر سرکاری اسپتال کےٹی ایچ پشاور گئے،آپریشن کا بولا مگر ایک مہینے کے باری آتا تھا اور مریض کو تکلیف زیادہ تھی تو ایک بار پھر اس نجی اسپتال میں آپریشن کرایا اور وہ مواد شوکت خانم اسپتال کے لیبارٹری کو بھیجا۔ اس کا رزلٹ آیا کہ کینسر کا کوئی خطرہ نہیں ہے میں نے ایچ آر سیکشن میں نوید صاحب سے بات کرکے بتایا ان کا کہنا تھا آپریشن کے ایک ماہ بعد تک علاج جاری رکھو اور اس کے بعد میڈیکل بل بھیجو ، میں نے ایساہی کیا۔۔

اسکے بعد پشاور بیورو سے جوبلی کا فارم لیا اسے ہسپتال کے متعلقہ ڈاکٹر سے بھر واکر دستحط کروایا اور اوریجنل بل بھیجا اس کے دو ماہ بعد جوبلی انشورنس کا ایک لیٹر مجھے بھیج دیا گیا کہ اس میں اوریجنل دستاویزات نہیں ہے میں نے واٹس آپ پر اس کی اسکین شدہ کاپیاں دوبارہ بھیج کر گذارش کی کہ میں پہلے ہی سے اصلی کاغذات، دستاویزات بھیجے ہیں پھر 8  ماہ بعد مجھے رشید صاحب نے واٹس اپ پر شو کاز نوٹس بھیج کر کہا کہ اس کا جواب 24 گھنٹوں کے اندر دیں میں نے اسی طرح کرکے جواب دیا کہ میں قسم اٹھانے کو بھی تیار ہوں کہ میرا بل جعلی نہیں ہےاور اسے کسی بھی فورم پر چیلنج کرنے کو تیار ہوں ۔ نوید صاحب سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اسپتال والوں نے اسے غیرمصدقہ کہا ہے، میں نے جب  ہسپتال میں متعلقہ ڈاکٹر سے بات کہ تو وہ حیران رہ گیا اور بتایا کہ اگر مجھے عدالت بھی بلاکر پوچھے تو میں عدالت میں اس بل کی تصدیق کرنے کو تیار ہوں ۔میں یہ بات پھر نوید صاحب کو بتائی تو اس نےاس ڈاکٹر کا نمبر مانگا میں نے نمبر بھی دیا۔

  پھر مجھے فون آیا کہ کیمرہ واپس کرو میں نے ہفتے کے روز کیمرہ بھی واپس کیا اور اتوار کے روز مجھے پشاور بیورو سے فون آئی کہ آپ کا ٹرمینیشن

لیٹر آیا ہے میں حیران رہ گیا کہ گیا کہ مجھے ناکردہ گناہ کی اتنی بڑی سزا دی گئی کہ میرے بچوں کی منہ سے نوازا چھینا گیا۔

سر میں ایک دہائی سے زیادہ اے آر وائی نیوز کا بے لوث خدمت کرتا رہاہوں،کئی خبریں بریک کیں، چار سال بغیر تنخواہ کے بھی کام کیا، جس کا مجھے یہ صلہ ملا ہے کہ مجھے نہ تو سناگیا نہ مجھے صفائی کا موقع دیاگیا اور بغیر پیشگی اطلاع مجھے ڈس مس کردیاگیا جو سراسر ناانصافی اور زیادتی ہے۔۔

 میں نے درخواست بھی کیا کہ میرا اوریجنل میڈیکل بل مجھے واپس کرے تاکہ میں سرکاری محکمہ سے وہ لے لوں جہاں سے میں نے پینشن لیا ہے مگر ابھی مجھے وہ بل واپس نہیں کیا گیا آپ سے درخواست ہے کہ میرے درخواست پر ہمدردانہ غور کرکے مجھے دوبارہ بحال کرے تاکہ میں صرف پندرہ ہزار روپے ماہوار میں عوام کی خدمت کر سکوں ۔ اس عنایت کیلئے دعا گو رہوں گا باقی میری کارکردگی کے بارے میں ضیاعالحق صاحب بیورو چیف پشاور    سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔۔خیراندیش (گل حماد فاروقی سابق نمائندہ اے آر وائی چترال)۔۔ ایک گذارش کرنا چاہوں گا کہ میں چترال میں واحد صحافی ہوں جس نے اسلامیات، پشتو اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر ڈگری لی ہے۔۔

(مذکورہ کھلا خط ہم تک جس انداز میں پہنچا ہم نے بغیر کچھ ایڈٹ کئے شیئر کیا ہے جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، اگر اے آر وائی انتظامیہ کی جانب سے کوئی اپنا موقف دینا چاہیں تو ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے، علی عمران جونیئر)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں