Seena Ba Seena

سینہ بہ سینہ قسط 80

سینہ بہ سینہ قسط 80

دوستو، حسب وعدہ ایک ہفتے بعد پھر حاضر ہوں، اب پوری کوشش ہوگی کہ آپ سے ہرجمعرات کو سینہ بہ سینہ کے ذریعے ملاقات ہوتی رہے۔۔وقت کم ہے اس لئے جلدی جلدی اپنے فیورٹ پپو کی مخبریاں دیکھیں۔۔ اس بار وہ کس کس کی خبریں نکال کر لائے ہیں۔۔

کپتان گزشتہ روز (بدھ کو) میڈیا کے کچھ حصوں پر خوب گرجے برسے، میرشکیل الرحمان کو برابھلا کہا تو ایک اینکر سے متعلق کہا کہ اس کے نام کے آخر میں خان آتا ہے پہلے کیا آتا ہے میں نہیں بتاؤنگا، پھر اس کے بعد اس اینکر کی جانبدارانہ رپورٹنگ کا شکوہ بھی کیا۔۔اس پر کامران خان بھڑک اٹھے اور کہا کہ ہم تو صحافی ہیں ہم بس الزامات کا جائزہ لیتے ہیں فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کرنا ہے اور یہ ہمار ا کام کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔میری دعا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں وزیر اعظم پاکستان اور عمران خان دونوں کو صادق و امین قرار دے کیوں کہ ان دونوں کی نا اہلی سے میں دکھی ہوں گا اور میرا دل ڈوب جائے گا ۔۔عمران خان  کی جانب سے لگائے الزامات کے جواب میں کامران خان کا کہنا تھا کہ  عمران خان جس سے محبت کرتے ہیں تو اسے ٹوٹ کر چاہتے ہیں جبکہ جس سے نفرت کرتے ہیں تو وہ بھی غضب کی کرتے ہیں ۔ میرے صحافتی کیرئر میں خان صاحب سے اچھے تعلقات رہے ہیں جبکہ ہمارے تعلقات کشیدہ بھی رہے ہیں۔

ایکسپریس کی خاتون اینکر غریدہ فاروقی سوشل میڈیا کی زد میں ہیں، لاہور کی عدالت نے ان کےگھر سے بازیاب کرائی جانے والی پندرہ سالہ گھریلو ملازمہ سونیا کو اس کے والد منیر کے حوالے کردیا۔۔عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ اگر سونیا کے والدین غریدہ فاروقی کے خلاف کارروائی کرانا چاہیں تو کراسکتے ہیں ورنہ مقدمے کی فائل بند کردی جائے گی۔۔پپو نے جب یہ بریکنگ دی کہ غریدہ فاروقی اسکینڈل کے پیچھے اے آروائی کی ذاتی انا ملوث ہے کیونکہ خاتون اینکر نے متعدد بار ان کی آفر مسترد کردی تھی اور اے آر وائی آنے سے انکار کردیا تھا، پپو کا کہنا ہے کہ یہ ایک قدرتی امر ہےاور انسانی فطرت ہے کہ ہر کامیاب انسان کے مخالفین اور حاسدین بھی ہوتے ہیں، پپو نے ہنستے ہوئے فون پر کہا کہ جس طرح لوگ مجھ سے جلتے ہیں، میری مخبریوں کی وجہ سے مجھے کوستے ہیں، کسی خبر کی فوری تصدیق نہ ہونے پر میرا مذاق اڑاتے ہیں اس سے مجھے کچھ کچھ ایسا لگتا ہے کہ میرے بھی مخالفین اور حاسدین پیدا ہوچکے ہیں،اس لئے میں بھی اب خود کو کامیاب انسان سمجھنے لگا ہوں، پپو کی بات کاٹ کرہم نے غریدہ سے متعلق مزید خبروں کا کہا تو پپو کہنے لگا۔۔ سوشل میڈیا پر غریدہ کے خلاف ایسے لوگ بھی سرگرم رہے جو شاید کبھی ایکسپریس کا حصہ تھا، انہوں نے ایکسپریس کے سابق اینکر اور 92 کے موجود اینکر اسداللہ کے فیس بک کی پوسٹ کی نشاندہی بھی کی جس کے مطابق ،کسی کی نوکری جانے کا مجھے ہمیشہ بہت دکھ ہوتا ہے غریدہ کی نوکری ختم ہونے کے پیچھے اس کے بیسیوں ٹیم ممبرز کی بددعائیں شامل ہیں جن کے گھر کا چولہا یہ کھڑے کھڑے بندکرادیاکرتی تھی، معمولی غلطیوں پر جن کی تنخواہیں کاٹنے کی سفارش کرتی تھی، کچھ ایسے دوستوں کو میں ذاتی طور جانتاہوں جنہیں بغیر نوٹس کے کھڑے کھڑے فارغ کیاگیا۔۔اسداللہ صاحب بھی جذباتی ہوگئے ان کے علم میں شاید یہ نہیں کہ غریدہ کو ابھی ایکسپریس سے نکالا نہیں گیا بلکہ آف ائر کیاگیا ہے،پپو یہ بریکنگ بھی دے چکا تھا۔۔پپو کے مطابق لاہور پولیس کے ریکارڈ میں موجود ہے کہ موجودہ اسکینڈل سے پہلے بھی عدالتی حکم پر غریدہ کے گھر سے دو گھریلو ملازماؤں کو بازیاب کرایاجاچکا ہے۔۔ ایڈیشنل سیشن جج سہیل شفیق کی عدالت میں قصور کی ماریہ دختر عبدالستار اور سرگودھا کی امبرین دختر سرفراز کی بازیابی کا کیس اب بھی چل رہا ہے،جنہیں پولیس نے 16 فروری 2016 کو بازیاب کراکے والدین کے حوالے کیا تھا۔۔لاہور پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ غریدہ جو بھی گھریلو ملازمہ رکھتی ہے اکثر اوقات ایڈوانس یا وقت پر تنخوانہ دینے کی وجہ سے ان کو مختلف طریقوں سے پریشان کرتی ہے ملازمین کو اپنے گھروالوں سے ملاقات نہیں کرنے دیتی اور نہ موبائل پر گھروالوں سے بات کرنے دیتی ہے، اکثر اوقات ملازموں سے جھگڑا بھی رہتا ہے۔۔لاہور پولیس کی رپورٹ کے مطابق غریدہ فاروقی کا رویہ مقامی پولیس کے ساتھ بھی کافی جارحانہ ہوتا ہے اور جن ملازمین کو بغیر درخواست حوالہ پولیس کرتی ہے ان کی تفتیش بھی مرضی سے کرانا چاہتی ہے اور افسران بالا کو شکایتیں لگانے کی دھمکیاں بھی دیتی ہے۔۔غریدہ اس سے قبل اپنے ملازموں جمیلہ ، نجمہ، ڈرائیور جاوید، فوزیہ اور دلاور کے خلاف تھانہ سندر میں گزشتہ سال ایف آئی آر بھی درج کراچکی ہے۔۔

پپو نے جب یہ خبر بریک کی کہ اے آر وائی نے غریدہ کو ” نولفٹ ” کی وجہ سے بریکنگ کا نشانہ بنایا،تو پپو چونکہ براہ راست آپ لوگوں سے رابطے میں نہیں ہوتا، اس لئے مخالفین کا نشانہ مجھے(عمران جونیئر)بننا پڑا، لوگوں نے طعنے دیئے کہ آپ کیوں اس کی سائیڈ لے رہے ہیں، بات سائیڈ لینے کی نہیں، صرف یہ بتانا مقصد تھا جس میں مجھے کامیابی بھی رہی کہ ہر خبر کا دوسرا رخ بھی دیکھا جائے، بریکنگ میں غریدہ فاروقی کی غلط باتوں کی نشاندہی کی گئی لیکن اس کے خلاف ہونے والی سازش کا پردہ بھی چاک کیاگیا تھا،اس حوالے سے غریدہ فاروقی نے اپنا موقف بھی دیا ہے، غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ ” موقف میں تاخیر اس لئے ہوئی کہ ان کی ہمشیرہ شدید بیمار تھیں اور آئی سی یو میں ایڈمٹ تھیں، سچ کیا ہے بتانا میری ذمہ داری ہے، غریدہ کے مطابق جو الزامات مجھ پر لگائے گئے سراسر فسق اور جھوٹ پر مبنی ہیں، غلط الزامات کی بنیاد پر کچھ عناصر نے یک طرفہ طور پر میرے خلاف ذاتی اور اجتماعی بغض و عناد پر مبنی فاسق و فاسد مہم کا آغاز کردیا، لڑکی کی عمر بالغ بتاکر میرے گھر کام کیلئے بھجوائی گئی،لڑکی ہرگزہرگز کسی قید میں نہیں تھی والدین سے مسلسل ملاقات ہوتی تھی، اس بات کی سچائی غیرقانونی ریکارڈ شدہ فون کالز میں بھی موجود ہے، لڑکی کی اپنی والدین سے مسلسل ملاقات ہوتی تھی اس بات کی سچائی غیرقانونی ریکارڈ شدہ کالز میں بھی موجود ہے، لڑکی میرے ہاں قرآن پاک اور دنیاوی تعلیم بھی حاصل کررہی تھی، لڑکی کے والد مسلسل تنخواہ وصول کرتے تھے اور ان کی طرف سے وصولی کوتاہی پر انہیں یاددہانیاں بھی کراتی تھی، لڑکی کو انتہائی عزت  اور پیار سے رکھا گیا جس کے ثبوت اور گواہ بھی موجود ہیں،فون کالز پر جو خاتون بات کررہی تھی وہ ہرگز لڑکی کی والدہ نہیں تھی بلکہ بلیک میلر خاتون تھی،میرے خلاف بلیک میلنگ کچھ عرصے سے چل رہی تھی اور انہی دھمکیوں پر مبنی تھی جنہیں عملی جامہ پہنایاگیا، فون کالز ریکارڈ کرنے کا مقصد ہی بلیک میل کرنا ہوتا ہے اور کالز مخصوص نیت، مائنڈ سیٹ کے ساتھ کی گئیں جن میں جھوٹے الزامات کے ساتھ مجھے اکسایا گیا، میں نے آج تک کسی کو نازیبا کلمات  ادا نہیں کئے اور ذاتی طور پر اس چیز کی مخالف ہوں، جو الفاظ ادا ہوئے محض بلیک میلنگ،ناجائز پریشر کے تحت ہوئے، ہم سب انسان خطا سے عاری نہیں اور اگر کوئی مسلسل بلیک میل کرے تو غصے میں ایسے الفاظ فطری ہیں،لیکن ان سب کے باوجود، مکمل خلوس سے کہنا چاہتی ہوں ، غصے اور الجھن میں بولے گئے میرے ایک دو الفاظ آپ لوگوں کو ناگوار گزرے یا دل آزاری ہوئی تو تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں، میرے موقف کے بعد غیرقانونی کال کے حقائق و مقاصد آپ پہ واضح ہوجائیں گے اور یک طرفہ کردارکشی پر بند بھی لگے گا، میں اللہ کو جواب دہ ہوں،میرا دل صاف اور ضمیر مطمئن ہے، مزید سچائی بھی جلد آپ سب کے سامنے آئے گی، آپ سب سے گزارش ہے کہ کسی بھی فاسق و فاسد کمپین کا حصہ بننے سے گریز کریں۔ ۔غریدہ فاروقی۔۔” یہ تو تھا خاتون اینکر کا موقف جو مجھے بھیجا گیا،اس لئے مجھ پر فرض تھا کہ متاثرہ فریق کا موقف بھی آپ تک پہنچایا جائے۔۔اب آگے کی سنیں۔۔

پپو کا کہنا ہے کہ غریدہ کا تعلق  ملتان کے ایک غریب اور متوسط گھرانےسے ہے، آپ اب بھی اس کے آبائی گھر کا رخ کریں تو انتہائی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوے ایک چھوٹا سا گھر آتا ہے ،ان گلیوں سے گزرتے ہوئے آپ کو لاہور کے شاہی محلے کی گلیوں کا گمان ہو گا، آج بھی اس کے بھائی کانوں میں بالیاں ڈالے،لمبے بال اور منہ میں پان دبائے ملیں گے، غریدہ فاروقی کچھ عرصہ ملتان کے ایک اسکول میں بچوں کوپڑھاتی بھی رہی مگر بعدازاں معروف سوشل میڈیااسٹار قندیل بلوچ کی طرح ملتان سے آنکھوں میں حسین خواب سجائے ہر قیمت پر پردہ سکرین پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے کا عزم لیے لاہور کا سفر کیا، لاہور پہنچ کر اس نے 2008 میں سٹی 42 چینل میں آڈیشن دیا لیکن ناکام رہی، بہرحال بپھراے پلس سے کیرئر کا آغاز کیا، جس کے بعد دنیا نیوز جوائن کیا۔۔ پھر جیو کا حصہ بنیں وہاں سے سما  گئیں، جس کے بعد اب ایکسپریس کا حصہ ہیں۔۔ 2014 کے دھرنے میں رپوٹنگ کے دوران عحیب و غریب ا حرکات کی وجہ سے میڈیا کی توجہ حاصل کی اور پھر پروگرام لینے میں کامیاب ہو گئی ، 2015 میں خصوصی سفارش پر اس نے ایکسپریس نیوز جوائن کیا اورلاہور سے “جی فار غریدہ” کے نام سے پروگرام شروع کیا ،لاہور میں رہنے کے لیے اس کے پاس گھر تھا اور نہ ہی وسائل، عارضی طور پر ادارے کی جانب سے رہائش کے لیے ادارے کا گیسٹ ہاؤس دیا گیا جو صرف کراچی یا اسلام آباد سے آنے والے مہمانوں کے لیے مختص تھا ۔بڑا چینل، پرائم ٹائم کا شو،سونے پہ سہاگہ تنخواہ بھی بھرپور۔۔ اچانک اتنی شہرت ،دولت،اور پروٹوکول دیکھ کے دماغ بالکل ہی کام کرنا چھوڑ گیا ۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ غریدہ نے  گزشتہ ڈھائی سالوں میں اس نے 26 پروڈیوسرز کو ذلیل خوار کر کےنکالا ۔ایکسپریس انتظامیہ نےحیلے بہانوں سے چینل کا گیسٹ ہاؤس خالی کرایا تو گیسٹ ہاؤس کےملازمین نے خدا کا شکر ادا کیا اور موصوفہ بحریہ ٹاون میں پہلے 5 مرلے اور بعدازاں ایک کنال کے گھر میں منتقل ہو گئیں۔۔غریدہ فاروقی جس گھر میں منتقل ہوئیں اس کی بھی ایک کہانی ہے،پپو نے اس بارے میں بھی بتایا ہے کہ موصوفہ کا مہربان کون ہے اور اتنی نوازشات کیوں ہورہی تھیں،کیسے پوری گلی کو “کارڈن آف” کیا جاتا تھا۔۔ چونکہ دیگر خبریں بھی دینی ہیں اس لئے اس موضوع پر اگلی بار بات کرینگے۔۔

یہ ساری تفصیل آپ کے سامنے رکھنے کے بعد اب دوبارہ آتے ہیں غریدہ فاروقی کیس کی طرف، آڈیو آپ نے بھی سنی ہوگی، لڑکیاں مہیا کرنے والی کس لہجے میں بات کر رہی ہے اور غریدہ کس لہجے میں۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ اگر آپ سے کوئی بندہ کوئی ڈیل کرتا ہے اور اس کے بعد پے در پے جھوٹ بولتاہے، فون نہیں اٹھاتا، دھوکہ دہی کرتا ہے اور پھر فون پر آپ سے بدتمیزی سے بات بھی کرتا ہے، تو کتنے لوگ ہیں جو گالیاں نہیں دیں گے؟ جو لوگ اپنے گھروں میں ملازمین رکھتے ہیں ان سے پوچھ کر دیکھیے ۔۔ میرے تجربے کے مطابق بات صرف اتنی سی تھی کہ جس ایجنٹ عورت نے غریدہ کو متبادل ملازمہ دینے کا وعدہ کیا اس نے وہ نہیں مہیا کی، اور ٹال مٹول کرتی رہی، اور غریدہ کے فون کرنے کے باوجود بھی ملازمہ کا باپ پیسے لینے اس لیے نہیں آیا کہ کیس مضبوط کیا جاسکے۔ آخری کام فون ریکارڈ کرکے کیا گیا جس میں غریدہ نے اس عورت کی ہر بات کو جھوٹ قرار دیا۔ ہم سب غریدہ سے تو یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ اس نے چالیس ہزار کی بات کیوں کی، کوئی اس “غریب ایجنٹ عورت” سے بھی پوچھے گا اس نے غریدہ پر تشدد کا جھوٹا الزام کیوں لگایا؟ غریدہ کا کیس عدالت میں ہے، قانونی پہلو وہ جانیں۔۔ میرے لیے یہ اہم نہیں کہ غریدہ کس چینل پر کام کرتی ہے؟ یا کتنے پیسے کماتی ہے؟ یا یہ کہ اس کے شیشہ پیتی ہوئی تصویر سے مجھے اس کے اخلاق کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگانا،صرف تصویر کا دوسرا رخ دکھانا ہے۔۔کہانی کا ایک رخ یہ بھی ہے۔۔

پاکستان جیسے روایتی اور قدامت پسند معاشرے میں بھی کبھی کبھار ایسی باتیں سامنے آ جاتی ہیں کہ جنہیں ہم عام طور پر صرف مغربی معاشرے کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ شاید یہ بدلتی ہوئی سماجی اقدار کا نتیجہ ہے یا اہل مغرب کے ہمارے معاشرے پر بڑھتے ہوئے اثرات کا شاخسانہ، مگر یہ معاملات جابجا سامنے آنے لگے ہیں۔ اور ان مغربی اثرات کو ہمارے یہاں کے انگریزی اخبارات فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔۔سگریٹ فروش سیٹھ کے انگریزی اخبار ایکپریس ٹربیون کے سماجی و نفسیاتی مشیر اسد شفیع  سے ایک لڑکی نے کچھ ایسا سوال کیا،  ”مجھے ایک لڑکے سے محبت تھی جسے میں دل سے چاہتی تھی اور ہمارا تعلق پانچ سال تک قائم رہا۔ بدقسمتی سے بالآخر ہمارا یہ تعلق ختم ہوگیا۔ گہری محبت کا تعلق ختم ہونے کا میرے دل پر گہرا اثرا ہوا اور اسے بھلانے کے لئے میں نے بار بار مردوں کے ساتھ تعلق قائم کرنا شروع کر دیا۔ میں نے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی مردوں کے ساتھ تعلق قائم کیا ہے۔ میں ہر ممکن کوشش کرکے انہیں ا پنی محبت میں مبتلا کرتی ہوں اور جب وہ میرے عشق میں پاگل ہوجاتے ہیں تو میں اچانک انہیں چھوڑدیتی ہوں۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ میں ایسا جان بوجھ کر کرتی ہوں۔ مجھے اپنے اس رویے پر افسوس بھی ہوتا ہے اور میں اسے تبدیل کرنا چاہتی ہوں لیکن یہ میرے لئے ممکن نہیں ہورہا۔ براہ کرم میری مدد کیجئے۔ اسد شفیع اس خاتون کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دل ٹوٹنے کے تجربے سے گزرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور اکثر ایسی صورت میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ اتنے بے حس ہوجائیں تاکہ کبھی دوبارہ ہمیں دل ٹوٹنے کا درد سہنا ہی نہ پڑے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم جذبات سے عاری ہوجاتے ہیں اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ آپ کا رویہ بھی آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا نتیجہ ہے، لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اپنے صدمے کو بھلانے اور اس غم سے باہر آنے کیلئے یہ درست طرز عمل نہیں ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ خود کو صدمے سے نکالنے کیلئے ہمت سے کام لیں اور حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے اسے تسلیم کریں۔۔

پپو نے اب کراچی میں حبیب بینک پلازہ کے قریب ٹیکنوسٹی میں واقع سما کے دفتر کا رخ کیا ہے، جہاں کے ڈائریکٹر نیوز ان دنوں لندن یاترا پر ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ہرچند ماہ بعد فرحان ملک صاحب لازمی لندن یاترا کرتے ہیں،جس کی وجہ یہ ہے انہوں نے اپنا کاروبار سیٹ کرنا ہے۔۔چیئرمین صاحب کے ایڈوائزر بھی سما میں ہوتے ہوئے مختلف جوس اور دودھ کمپنیوں کے ڈسٹری بیوٹر بنے ہوئے ہیں۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پپو کی مخبریوں کے اس فیوریٹ سلسلے کو اب چیئرمین صاحب نے بھی پڑھنا شروع کردیا ہے، ان تک ہر تازہ قسط پہنچائی جاتی ہے،تیل چوری، سینہ زوری، لندن کاروبار اور لندن یاترا، دودھ دہی کے کام، ان سب کا علم چیئرمین صاحب کو بھی ہے،اسی لئے تو اب چیک اینڈبیلنس کا سلسلہ بھی شروع کردیاگیا ہے۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ چیئرمین صاحب ڈھیل دیتے رہتے ہیں دیتے رہتے ہیں پھر ایک دم “بوکاٹا” ہوجاتا ہے۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ۔۔ سما کی گرتی ہوئی ریٹنگ کا بھی چیئرمین صاحب نے نوٹس لے لیا ہے ،جلد ریٹنگ کا مسئلہ “اوورٹیکنگ” کے ذریعے حل کئے جانےکاامکان ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ سما کی مارکیٹنگ تیم نے ساری برائی نیوز اور ان کے “کانٹینٹ” پر ڈال دی ہے۔۔ مارکیٹنگ والوں کا کہنا ہے کہ نیوز کا معیار اچھا ہوگا تو ریٹنگ بھی اوپر جائے گی، خبروں میں سنسنی، من گھڑت اسٹوریز، سوشل میڈیا کا مواد بھرا ہوتا ہے۔۔دوسری طرف اچھے رپورٹرز بھی سما سے کترانے لگے ہیں،بیوروچیف کراچی کسی بھی تقریب میں دوست رپورٹرز کو سما میں آنے کی آفر کرتی ہیں تو لگتا ہے سب”سیانے” ہوگئے۔۔سما کے حوالے پپو نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ دنوں وہاں دو خواتین اینکرز میں لڑائی ہوگئی۔۔یہ لڑائی اتنی شدید تھی کہ بس مارکٹائی کی کمی رہ گئی تھی، ایک نے کہا تم ڈائن ہو، تودوسری کیسے خاموش رہ سکتی تھی، اس نے لاہوری اینکر کو کراچی کی زبان میں “روند ” ڈالا۔۔دونوں اینکرز کی لڑائی کو دیگر اسٹاف نے انجوائے بھی کیا۔۔دونوں اینکرز ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو بھی تیار نہیں،دونوں کا ہی پلڑا بھاری ہے، ایک ڈائریکٹر نیوز کی چہیتی ہے تو دوسری  سی او او کی لاڈلی۔۔دونوں اینکر ز میں پھڈے کی وجہ  بنے سنگراینکر،انہوں نے والدہ کی بیماری کی وجہ سے شفٹ کی ٹائمنگ پر اعتراض کیا تو ، کراچی کی اینکر نے کہا موصوف جھوٹ بول رہے ہیں ان کی والدہ کی کوئی طبیعت خراب نہیں،یہ بات بس لاہور کی اینکر نے “محسوس” کرلی اور لڑائی شروع ہوگئی۔۔سما سے پپو اب نکل رہا ہے، اسے دیگر چینلز کا بھی رخ کرنا ہے، پپو اگلی بار سما کے نیوزروم اور این ایل ای شعبے کی کچھ کہانیاں بیان کرے گا۔۔۔

پپو کا کہنا ہے کہ بول انتظامیہ اب رئیل بول والاز کی گاڑیاں بہت انوکھے طریقے سے واپس لے رہی ہے، پپو کے مطابق کراچی میں متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ پہلے بول والا کی گاڑی ٹریکر سے بند کی گئی پھر اسے اٹھالیاگیا، اس سلسلے میں کوئی اطلاع دینا تک گوارہ نہیں کیاگیا جس پر کچھ بول والاز نے تھانوں میں رپورٹ درج کرادی ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ 2015 میں بول نے اپنے کچھ ملازمین کو جو گاڑیاں دی تھیں، بحران کے باعث ادارہ ہولڈ پہ چلا گیا تو جنہیں گاڑیاں ملی تھیں وہ بول والاز ان گاڑیوں کو کسے واپس کرتے؟، انتظامیہ کا کوئی فرد بول میں بیٹھ نہیں رہا تھا ، اس لئے انہوں نے گاڑیاں اپنے رکھ لیں، گاڑی رکھنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ جب واجبات ملیں گے تو گاڑی واپس کردی جائے گی، لیکن اب واجبات تو ایک طرف بول انتظامیہ نے پراسرار طریقے سے گاڑی کی وصولیاں شروع کردی ہیں۔۔ پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ بول والاز کو واجبات کو فی الحال بھول جانے چاہیئے کہ کیونکہ بول انتظامیہ کسی بھی لیول پر اس بارے میں سوچنےکی زحمت بھی گوارہ نہیں کررہی۔۔ پپو نے مشورہ دیا ہے کہ اب جسے واجبات چاہیئے وہ عدالت سے رجوع کرے، کیونکہ بول کی بحالی کو دس ماہ ہوگئے لیکن اب تک سینکڑوں بول والاز اپنے جائز حق سے محروم ہیں۔۔

24 میں  ایک سینیئر اینکر کا مستبقل “تاریک” نظر آرہا ہے، پپو کا کہنا ہے کہ موصوف کے سر پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے، انتظامیہ اس کے ساتھ بدسلوکیاں شروع کردی ہیں، پرائم ٹائم کے اس سینیئر ترین اینکر کو صبح کی شفٹ میں “پھینک” دیا ہے۔۔ پپو کے مطابق یہ اس ادارے کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ جسے “فارغ” کرنا ہو تو اس کے مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کرنا شروع کردیتے ہیں، رمضان المبارک سے پہلے ایک خاتون اینکر کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا تھا جس کی خبر پپو نے بریک کی تھی، بعد ازاں اس خاتون اینکر نے استعفے کے باوجود فیصل آباد جاکر 41 چینل کیلئے رمضان ٹرانسمیشن کی بلکہ عید کے تین دن بھی بھرپور اسپرٹ کے ساتھ حصہ لیا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس خاتون اینکر کو اب تک ڈیڑھ ماہ کی تنخواہ نہیں دی گئی۔ ۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کو فائر بھی کیا گیا ہے، جس کی تفصیل اگلے ہفتے۔۔

پپو کا کہنا ہے کہ  92 نیوز کو خیرباد کہنے والے “ممتاز” اینکر ان دنوں 24 میں دیکھے جارہے ہیں، غالب امکان ہے کہ جلد یہ اطلاع بھی آجائے کہ انہوں نے سٹی نیوزنیٹ ورک جوائن کرلیا ہے۔۔

پپو نے بتایا ہے کہ گزشتہ سینہ بہ سینہ میں  دن نیوز سے متعلق کچھ خبریں دی تھیں، جن کا نوٹس لیا گیا ہے، پانی پینے پر اب پیسے نہیں کٹیں گے کیونکہ انتظامیہ نے پانی کا کولر نیوزروم کے قریب ہی لگادیا ہے۔

پپو کا کہنا ہے کہ ندیم رضا صاحب نے “فارغ” وقت میں خود کو وارم اپ رکھنے کیلئے کالم نگاری شروع کردی ہے، ستائیس جولائی کو ان کا کالم نئی بات اخبار میں شائع ہوا ہے۔۔

آج کیلئے فی الحال اتنا ہی، باقی باتیں اگلے جمعرات تک کیلئے ملتوی کرتے ہیں۔۔ جب تک اپنا خیال رکھئے گا۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں