seena ba seena EP 107

سینہ بہ سینہ قسط نمبر: 107

تحریر: علی عمران جونیئر

دوستو، میڈیا انڈسٹری کے سب سے مقبول عام اس سلسلے کی پچھلی قسط دو جون دوہزار بائیس کو شائع ہوئی تھی جس کے بعد سے اب تک جس تقریب میں جانا ہوا، سب کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ نئی قسط کب آرہی ہے؟ مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ بالکل ٹائم نہیں مل رہا۔آج کوشش کرکے آپ کی خدمت میں حاضری دی ہے۔ پرانے ریڈرز سینہ بہ سینہ کی اس قسط میں شاید تشنگی محسوس کریں اور بولیں کہ اتنے گیپ کے بعد حاضری دی وہ بھی اتنی مختصر۔۔ لیکن ہمارا شروع سے ایک اصول رہا ہے کہ مخبریاں تگڑی ہوں تو سینہ بہ سینہ لکھا جائے ورنہ ٹیبل اسٹوریز سے کبھی کریڈیبلٹی نہیں بنتی۔ تمہید زیادہ لمبی ہونے سے قبل۔۔ آئیے سینہ بہ سینہ “ساشے” میں ملاحظہ کیجئے۔۔ انشااللہ، اگلی قسط لمبی اور روایتی ہوگی۔

نیوز ون میں حالات مسلسل ابتری کا شکار ہیں، کیمرہ مینوں نے غیر اعلانیہ ہڑتال کی ہوئی ہے، سیلری نہ ملنے کی وجہ سے جہاں غریب کیمرہ مینوں کے گھر کے حالات بدترین نوعیت کے ہوچکے ہیں وہیں یہ حال ہوچکا ہے کہ دفتر آنے کےلئے بائیک میں پٹرول ڈلوانے تک کے پیسے نہیں رہے۔ بدھ اور جمعرات کو اکادکا کیمرہ مین ہی دفتر میں نظر آئے، جب کہ چینل انتظامیہ نے وارننگ جاری کی ہوئی ہے کہ جو چھٹی کرے گا اسے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ پپو کےمطابق چینل انتظامیہ نے ہر قسم کی چھٹی پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔چینل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چھٹیاں بالکل بند ہیں کسی وجہ سے بھی کوئی چھٹی نہیں کرے گا،جب تک تنخواہ نہ آئے سالانہ اور میڈیکل کی چھٹیاں بھی بند ہیں۔پپو کے مطابق جب چینل کے تیارکردہ ڈرامے کی شوٹنگ رکنے لگی تو فوری طور پر اپنی ٹیم کوپانچ، پانچ ہزار روپے دے کر شوٹنگ کیلئے راضی کیا جب کہ باقی پورا اسٹاف منہ دیکھتا رہ گیا۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ ایک کیمرہ مین نے اپنے ضعیف باپ اور بیوی کے ساتھ خالی آٹے کا پیالہ دکھا کر وڈیو بنا کر بھیجی کہ میں گھر سے کیسے نکلوں بغیر پیٹرول کے، میرے پاس تو آٹا خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں،جب ڈائریکٹر ٹیکینکل تک یہ وڈیو پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ، میرے بھی ایسے ہی حالات ہیں مگر میں تو آرہا ہوں۔ پپو کے مطابق رپورٹرز کو بھی کہاگیا ہے کہ گاڑیوں کے لئے فیول نہیں ہے، اس لئے اسائنمنٹ جو بہت ہی زیادہ ضروری ہووہاں جائیں، ورنہ اپنی گاڑی استعمال کریں۔دفتر کی گاڑی کہیں نہیں جائے گی، لیکن چہلم کے موقع پر کراچی میں گاڑیوں میں فیول ڈلوایا گیا اور اسائنمنٹ  کور کرائے گئے۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ کیمرہ مینوں کے ساتھ ہونے والے اس رویہ کا ایسوسی ایشن آف کیمرہ مین جرنلٹس نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں اے سی جے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے جہاں عوام پریشان ہے وہی صحافی برادری بھی بے حد پریشان نظر اتی ہیں خاص طور پر کیمرامین نیوز کیمرامین پریشان ہیں۔نیوز ون چینل کی تین مہینے  سے سیلری نہ انے کی وجہ سے سب سے کم سیلری والا طبقہ کیمرا مین پریشان حال نظر اتا ہے سردی ہو یا دھوپ ہو اندھی ائے یا طوفان ائے یہی طبقہ چینل کی آنکھ بنا رہتا ہے کیمرے کے پیچھے ایک کیمرا مین کس طریقے سے اپنا کردار ادا کرتا ہے نہ تو وہ اپنی جان کی پرواہ کرتا ہے نہ ہی کسی اور چیزوں کی اس کو فکر صرف یہ ہوتی ہے کہ ایک اچھا فریم بن جائے تاکہ میرے چینل کی اسکرین پہ چھا جائے۔اے سی جے اپنے کیمرا مین بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے،نیوز ون چینل کے مالکان کو سوچنا چاہیے کہ چینل کے ملازمین تین ماہ سے بغیر تنخواہ کے  کیسے گزارا کر رہے ہیں،اے سی جے امید کرتی ہے چینل انتظامیہ اپنےملازمین کے درد کو سمجھیں گے اور ان کے واجبات جلد ادا کریں گے۔

بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔ اور بھی غم ہیں نیوزون میں سیلری کے سوا ۔۔۔پپو کےمطابق نیوز ون کے اسٹوڈیوز کے اے سی کام نہیں کرتے۔ اینکرز کو پسینے میں شرابور ہوکر نیوز پڑھنا پڑھتی ہے، پپو کا کہنا ہےکہ اسٹوڈیوز میں پراپر لائٹیں بھی نہیں ہیں، اینکرز پر جتنا بھی میک اپ کردیا جائے، آن ائر ہوتے وقت منہ پر بارہ بجتے ہی نظر آتے ہیں۔ چینل میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں، ملازمین کو ڈیٹا استعمال کرنا پڑتا ہے۔پپو کا کہنا ہے کہ نیوز ون میں اینکرز کی شدید قلت ہے، ٹوٹل پانچ اینکرز رہ گئے ہیں۔ ایک اینکر کے لئے دس گھنٹے کی سولو ڈیوٹی تونارمل سی بات بن کر رہ گئی ہے۔ 4 اینکرز پر پورا چینل چلایاجارہا ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ مالکان ڈرامے بنارہے ہیں، مہنگے مہنگے سیٹس لگتے ہیں، فنکاروں کی خوب خاطرمدارات ہوتی ہے، مارننگ شو والوں کے بھی الگ ہی قسم کے ششکے ہیں۔

پپو کا کہنا ہے کہ تنخواہ اور واجبات کے حوالے سے چینل انتظامیہ نے دو رخی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ عام ملازمین کو تو سیلری کے لئے رلایا جاتا ہے لیکن طبقہ اشرافیہ یعنی اینکرز کو سیلری وقت پر دی جارہی ہے۔ پپو کے مطابق اینکرز کو مئی کی سیلری جون میں ہی ملی تھی، چار جون کو ادائیگی کی گئی۔ لیکن باقی ملازمین کو جولائی کے آخر میں مئی کی سیلری دی گئی ۔ پپو کے مطابق مئی کی سیلری جب اینکرز کو چار جون کو دی گئی تو جون کی سیلری اکتیس جولائی کو دی گئی۔ جب اینکرز کو ابھی جولائی کی سیلری نہیں ملی۔ پپو کے مطابق نیوزون میں پانچ اینکرز ہیں۔ جن میں سے ایک، ایک دن سب کا ویکلی آف ہوتا ہے۔ایک نائٹ میں ہوتا ہے، یعنی ایک نائٹ میں اور ایک کا آف، جب نائٹ شفٹ والے اینکر کا آف ہوتا ہے تو ریگولر شفٹ والے کو نائٹ میں جانا پڑتا ہے، اس دن وہ نائٹ کی وجہ سے دن میں ڈیوٹی نہیں کرتا، تو دن میں صرف تین اینکرز رہ جاتے ہیں۔جو اینکر نائٹ میں جاتا ہے تو اگلے دن چینج اوور کرتا ہے اورڈیوٹی پر نہیں آتا، اس سے اگلا دن اس کا ویکلی آف ہوتا ہے، اس طرح دیکھا جائے تو ہر شفٹ میں صرف ایک، ایک ہی اینکر ہوتا ہے یعنی صبح میں ایک، ایوننگ میں ایک اور نائٹ میں ایک اینکر۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ اسٹوڈیو میں تین اے سی ہیں لیکن ان میں سے دو مکمل بند ہیں، صرف ایک ہی چلایا جاتا ہے وہ بھی کبھی کبھار۔۔پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینل کے مالک کے لئے کچھ عرصہ پہلے ایک  شاندار قسم کا دفتر تیار کیاگیا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، بیسمنٹ سے فرسٹ فلور تک پھیلے ہوئے اس دفتر میں کچھ روز قبل چھ اے سی لگائے گئے ہیں۔

پپو کا کہنا ہے کہ جب متحدہ عرب امارات کے کراچی میں قونصل جنرل نے دو ستمبر کو نیوز ون کا دورہ کیا تو چینل انتظامیہ نے ایک رات پہلے ریسپشن اور باہر رنگ و روغن کرایا، ریشپشن پر نئے صوفے ڈلوادیئے، نیوز روم میں جو ٹوٹی پھوٹی کرسیاں ایک عرصے سے موجود تھیں انہیں ہٹوا کر نئی کرسیاں لگوائیں، یعنی منا بھائی ایم بی بی ایس کی طرح راتوں رات ماموں بنانے کے لئے نیا اسپتال بنادیا۔۔

نیوز ون کی انتظامیہ  کی مالی مشکلات  کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پپو کے مطابق  بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر اسلام آباد بیورو آفس کی بجلی منقطع کردی گئی ہے جس کے باعث آفس میں گھپ اندھیرے کا راج ہے اعلی انتظامیہ کے افسران نے فوری طور پر بجلی کا بل ادا کرنے کی بجائے ہدایت کی ہے کہ اسلام آباد آفس سے ہونیوالے دو پروگرام کی ریکارڈنگ کیلئے جنریٹر چلایا جائے گا ،پپو کے مطابق تنخواہیں نہ ملنے کے باعث  نامور نیوز اینکر اور دیگر اسٹاف کی جانب سے دیگر اداروں میں ملازمت کی تلاش کی جارہی ہے مگر مالکان اور انتظامی افسران اس مشکلات سے نکلنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں مرتب کررہے ہیں۔

پپو کا مزید کہنا ہے کہ نیوز ون میں سب کچھ ہی برا نہیں ہے، کچھ اچھی باتیں بھی ہیں، لوئر اسٹاف کو سیلری دے دی گئی ہے جیسا کہ پیون، آفس بوائے، ڈرائیورز، ڈیلی ویجز والے۔ پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ورکرکی ماں کے کینسر کے علاج کا خرچ ڈائریکٹر نیوز شہاب محمود اور کنٹرولر نیوز عارف محمود نے ذاتی جیب سے بنا کسی کو بتائے اٹھایا۔۔ پپو کے مطابق ڈائریکٹر نیوز بھی تین مہینے سے تنخواہ سے محروم ہیں، ان کے قریبی حلقے کا کہنا ہے کہ انہیں اگر تنخواہ دی بھی جائے تو وہ لینے سے انکار کرتے ہیں اور چینل انتظامیہ کو کہتے ہیں کہ پہلے باقی اسٹاف کو کلیئر کریں۔

اب بول کا رخ کرتے ہیں۔جہاں نئی انتظامیہ آگئی ہے، پپو کا کہنا ہے کہ نئی انتظامیہ عمران جونیئر ڈاٹ کام کی خبریں بھی دیکھتی ہے اور بول کے حوالے سے شیئر ہونے والی خبروں خاص طور سے دیکھی جاتی ہے۔ نئے سی ای او کے حوالے سے خبریں توبہت سی ہیں، اور ایسی خبریں کہ کھلے چیلنج کے ساتھ اسے جھٹلا کر دکھائیں، لیکن ہمارے سینہ بہ سینہ میں ذاتیات کو ٹارگٹ نہیں کیا جاتا، صرف میڈیا سے متعلق خبریں ہی ہمارا فوکس ہوتی ہیں۔چنانچہ آج بھی بول نیوز پر ہی فوکس کرتے ہیں۔۔بول نیوزکے حوالے سے پپو نے جو مخبریاں دی ہیں۔۔وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔۔

بول نیوزکی کینیٹن میں چائے بند کردی گئی، پپو کا کہنا ہے کہ کینیٹن والوں کو ادائیگی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سےان کے پاس دودھ کے پیسے نہیں ہوتے اور وہ چائے پلانے سے قاصر ہیں۔۔بول والاز کا کہنا ہے کہ ادارے میں جو چائے دن میں دوبار مفت دی جاتی ہے وہ پینے کے قابل نہیں ہوتی، جب کہ ادارہ خود ٹی بیگ والی چائے اور کافی بھی اپنے ورکرز کو فروخت کرتا ہے، جسے جب ٹی بیگ والی چائے یا کافی کی طلب ہو وہ آرڈر کرے جس کے پیسے سیلری میں سے کاٹ لئے جاتے ہیں۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ بول ہیڈآفس میں پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے، ڈسپنسر ہر فلور پر موجود ہے لیکن اس میں کسی کمپنی کا منرل یا فلٹر پانی کے بجائے عام نل کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ بول والاز کی اکثریت گھروں سے اپنا پانی خود بوتل میں بھر کر لے جاتی ہے۔ پپو کے مطابق کچھ روز قبل کینیٹن میں گیس نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر پورٹل پر کھانا بھی بند ہوگیا تھا جس سے بول والاز میں بے چینی پھیل گئی مگر جلد ہی کینیٹن پورٹل کھول دیا گیا۔۔ پک اینڈ ڈراپ کی گاڑیوں میں اے سی کی سہولت بند ۔۔ سخت گرمی میں پسینے سے شرابور ہو کر  بول اسٹاف آفس پہنچ رہا ہے ۔۔ پپو نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بول ہیڈآفس کے اطراف گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ نہیں ہے، بول والاز اپنی گاڑیاں مین روڈ پر کھڑی کرتے ہیں، جس کے باعث اکثر اوقات ان کی گاڑیوں کو کوئی نہ کوئی گاڑی والا  ہٹ کرجاتا ہے جس کے بعد وہ بے چارہ اپنی تنخواہ کا بھاری حصہ گاڑی کی مرمت پر خرچ کرتا ہے۔ بول ہیڈآفس کی جو آفیشل پارکنگ ہے وہ صرف طبقہ اشرافیہ کے لئے ہے، وہاں عام بول والاز کی گاڑی کھڑی کرنا سختی سے ممنوع ہے۔ ملازمین نے معاملات کی بہتری کے لیے امید اور خواہش کا اظہار کیا ہے۔۔

نوٹ:  یہ بلاگ عرصہ آٹھ سال سے پڑھا جارہا ہے، میڈیا انڈسٹری کے سب سے مقبول اس سلسلے میں دی گئی مخبریاں کافی چھان پھٹک  کے بعد دی جاتی ہیں، پھر بھی اگر کوئی متاثرہ فریق یہ سمجھتا ہے کہ اس بلاگ میں اس کے خلاف لکھ کر زیادتی کی گئی ہے تو وہ  ہم سے رابطہ کرکے اپنا موقف دے سکتا ہے، ہم اگلے سینہ بہ سینہ میں اس کا موقف لازمی دیں گے۔۔ ہم دانستہ یا ناداستہ کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ ہماری تحریر سے کسی کو تکلیف پہنچے، ہمارا مقصد صرف اور صرف  میڈیا  ورکرز اور صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی،ظلم اور ناانصافی کو سامنے لانا ہے جب کہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں اور کرپٹ و نااہل عناصر کو بے نقاب کرنا  بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے،واضح رہے کہ یہ میڈیا انسائٹس کے حوالے سے ایک بلاگ ہے،جسے “خبریانیوز” نہ سمجھا جائے،  (علی عمران جونیئر۔۔)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں