aik tabah saath | Imran Junior

’’ یوں۔ٹرن۔۔۔‘‘

’’ یوں۔ٹرن۔۔۔‘‘

علی عمران جونئیر

روزنامہ نئی بات، کراچی

23-Nov-2018

دوستو، ہمارے ایک دوست عرصہ پندرہ سال سے دبئی میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں، لیکن اب تک وہاں کے ماحول میں رچ بس نہ سکے، کوشش کرتے ہیں کہ عربی بولیں لیکن اب تک عربی زبان ان کی ’’رینج‘‘ سے باہر ہی ہے۔۔ کچھ روز قبل جب وزیراعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں سے ملاقات میں یوٹرن کے حق میں بیان دیا اور یہ تک کہہ دیا کہ یوٹرن لئے بغیر کوئی بھی بڑا لیڈر نہیں بن سکتا، نپولین اور ہٹلر اسی لئے تباہ ہوگئے کہ انہوں نے یوٹرن نہیں لیا تھا۔۔ بس دبئی میں مقیم ہمارے دوست کے دل پہ یہ بیان ’’ٹھاہ‘‘ کرکے لگا۔۔انہوں نے فوری طور پر ہمیں واٹس ایپ کیا۔۔’’قبل یوم وزیر رئیس الباکستانیہ عمران نیازی قال۔۔یوترن عمل الافضل،نبولیئن و ہتلر تباہ و برباد البنیادی وجہ،لا اخذ یوترن۔۔ا ل بعد البیان، کثیر شغل فی سوشل میدیا لکن قومِ یوتھ حسبِ معمول مع بیانتہا بیشرمی۔۔گلابی عربی میں لکھا یہ پیغام اتنا صاف و شفاف تھا کہ اردو لکھنے پڑھنے والے کو بھی عربی کی یہ جدید قسم باآسانی سمجھ آسکتی ہے، اس لئے ترجمہ کی فی الحال ضرورت نہیں۔۔
یوٹرن کے بیان کے اگلے ہی روز جب کہ ہماری ٹیم ابوظہبی میں نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں آسانی سے جیت کے قریب تھی، چوتھے دن کے کھیل میں ہماری ٹیم کو صرف 139رنز درکار تھے اور اس کے تمام دس وکٹیں باقی تھے بظاہر آسان ہدف کے تعاقب میں ہمارے کھلاڑیوں نے چوتھے دن کھیل کا آغاز کیا ہی تھا کہ اچانک ٹی وی سکرین پر ہمارے ملک کے موجودہ کپتان اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان نے اعلان کیا کہ دنیا میں بڑا آدمی بننے کے لئے یو ٹرن لینا لازمی ہے اور یہ اعلان سنتے ہی کریز پر موجود ہمارے بیٹسمینوں نے یو ٹرن لینا شروع کر دیا اور یقینی جیت کو شکست میں تبدیل کر لیا۔۔یوٹرن کی ایک اور مثال بھی سن لیں۔۔۔ایک باپ نے اپنے بیٹے کو اچانک ہی بے فضول، خوامخواہ ہی دوتین تھپڑ رسید کردیئے، کچھ دیر بعد ضمیر نے یوٹرن لیا تو پیارسے اپنے بیٹے کو سوری بھی بول دیا۔۔بیٹے نے حیرت سے اپنے اباجان کو دیکھا پھر کہنے لگا۔۔ ابو جان! ایک کاغذ لیں، اسکو اچھی طرح رول کریں، پھر واپس اس کاغذ کو کھولیں کیا وہ پہلے جیسا ہی کڑک اور نیاہوگا۔۔؟۔۔باپ نے مسکرا کر بیٹے کی طرف دیکھا اور دائیں سے بائیں سرہلاتے ہوئے کہا، نہیں۔۔بیٹے نے اباکاجواب سن کر کہا۔۔رشتے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں اباجان،سوری یا معذرت سے کام نہیں چلتا۔۔باپ نے بیٹے کی بات سنی تو مسکرا کر کہا۔۔اچھا بیٹا ایک کام کرو باہر میرا سکوٹر کھڑا ہے! جاؤ اور اس پر ایک کک مارو۔۔بیٹا باہرگیا،کک ماری، باپ نے آواز لگائی، بتاؤ کیا اسٹارٹ ہوا؟؟ بیٹے نے کہا، جی نہیں۔۔باپ نے کہا، اب اسے تین، چار کک لگاتار مارو۔۔بیٹے نے ایسا ہی کیا اور آوا زلگائی۔اباجان اسٹارٹ ہوگیا۔۔ باپ نے اسے اندر آنے کوکہا۔۔اور بیٹے کے کان مروڑتے ہوئے کہا۔۔ تُو بھی وہی سکوٹر ہے کوئی کاغذ نہیں ،اٹھ بغیرتا ایڈا توں اشفاق احمد ۔
عشق، زلفیں، جوانی، محبوب، ہوا، اسی طرح اگر ماضی میں لفظ یوٹرن بھی اتنا ہی پاپولر ہوتا تو شاعر حضرات اسے بھی اپنی شاعری میں بخوبی استعمال کرتے۔۔جیساکہ۔۔دیوارکیا گری میرے کچے مکان کی،لوگوں نے میرے صحن میں یوٹرن بنالئے۔۔۔ انہیں پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ ،میرے گھر کے راستے میں کوئی یوٹرن نہیں ہے۔۔اپنی باتوں پہ وہ قائم نہیں رہتا تابش،اْس کی ہر بات کو یوٹرن ہی سمجھا جائے۔۔ ۔ یوٹرن لینا پھریوٹرن لینا ، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔۔۔ کرسی کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے،یْوٹرن وہ مارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔۔۔ ایک اور یوٹرن کا سامنا تھا منیر مجھ کو،میں ایک یوٹرن سے جونہی پلٹا تو میں نے دیکھا۔۔ ان یوٹرن سے دوستی اچھی نہیں فراز،نئی نئی حکومت ہے کچھ تو خیال کر۔۔یقیناً راہبرِ منزل نے پھریْوٹرن مارا ہے،وگرنہ قافلے کے قافلے گم ہو نہیں سکتے۔۔اور پروین شاکر نے بھی یوٹرن کے حوالے سے ایک شعر برسوں پہلے کہا تھا کہ۔۔ وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا، بس یہی بات تو اچھی ہے میرے ہرجائی کی۔۔علامہ اقبال کا مشہور زمانہ شعر،پلٹ کر جھپٹنا،جھپٹ کر پلٹنا۔۔اس شعر میں شاعر مشرق واضح طور پر یوٹرن کی آسان اردو میں تشریح کرتے نظر آتے ہیں۔۔
کہتے ہیں کہ مرنے کے ساتھ ہی سارے رشتے ناطے ختم ہوجاتے ہیں،ہماری ایک عادت بہت بری ہے، سینکڑوں لوگوں کے نمبر ہمارے موبائل میں محفوظ ہوتے ہیں، اگر کسی دوست کی فوتگی کی اطلاع مل جاتی ہے تو اس کانمبر ڈیلیٹ نہیں کیا جاتا، یا یوں کہہ لیں یوٹرن نہیں ماراجاتا، ایک دو بار کراچی میں موبائل فون چھن گیا، ایک آدھ بار موبائل گرگیا، لیکن جب بھی دوبارہ نمبر انباکس میں محفوظ کئے تو دوبارہ اپنے مرحوم دوستوں کے نام بھی ڈال لیتے ہیں۔۔کسی کا نمبر ڈھونڈتے ہوئے جب مرحوم دوست کا نام سامنے آجاتا ہے تو فوری طور پر دوست کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے، اللہ مرحوم کو اپنے جوارحمت میں جگہ عطا کرے۔۔آپ بھی ایسا کیجئے، شاید آپ کی دعاؤں کے طفیل کسی کی بخشش ہوجائے۔۔ہمیں پچھلے دنوں کسی نے جگت لگائی، عمران خان کی حکومت میں تو صحافی بھی پکوڑے بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔۔ہم نے تسلی سے اس کی جگت سنی، پھر اسے بڑے پیار سے سمجھایا، ایسا نہیں ہے بھائی ، اصل میں پکوڑے بیچنے والے نوازشریف کی دور میں صحافت کررہے تھے۔۔جوابی جگت نے دوست کے چہرے پر مزید مسکراہٹ بکھیر دی کیونکہ اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ صحافیوں کی تذلیل ہو۔۔
ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔جب شراب سے شہد بنتا ہو،پروٹوکول سے سیکورٹی بنتی ہو،بھیک سے پیکج بنتا ہوتو پھر یوٹرن سے لیڈر ہی بنتا ہوگا۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔اگر شیطان بھی یوٹرن لے لیتا تو آج ہم اس دنیا کی بدی سے بچے ہوتے۔ بشر میں شر نہ ہوتا اور ہم جنت کے باسی ہوتے۔ اس کار جہاں دراز میں خوار نہ ہو رہے ہوتے۔ شیطان ایک کامیاب لیڈر ہوتا۔۔اچھا یہ بات بھی سوفیصد درست اور سچی ہے کہ آئین میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ یوٹرن نہیں لے سکتے۔۔کسی نے کہا تھا کہ یو ٹرن لینے میں حرج ہی کیا ہے، وہ تو بنتے ہی لینے کے لیے ہیں۔ یو ٹرن بے وقت نہیں بروقت لینے میں کامیابی ہوتی ہے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے پاس ریاست کے وسیع اور ہمہ گیروسائل ہوتے ہیں۔ وہ انہیں بروئے کار لاکر کسی منصوبے کے ممکنہ فوائد و نقصانات پرخوب سوچ بچار کے بعد اس کا اعلان کریں تو اسے ایک صائب، دانشمندانہ اور بصیرت افروز فیصلہ کہا جائے گا۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ کسی دانا بزرگ نے کیا خوب کہا ہے۔۔میں نے قرآن میں نوے جگہوں پر پڑھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کی تقدیر میں رزق لکھ دیا ہے اور اْسے اس بات کی ضمانت دیدی ہے۔ اور میں نے قرآن شریف میں صرف ایک مقام پر پڑھا کہ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے۔ ۔ ہم نے سچے رب کا نوے مقامات پر کئے ہوئے وعدے پر تو شک کیا مگر جھوٹے شیطان کی صرف ایک مقام پر کہی ہوئی بات کو سچ جانا۔۔۔اب بھی وقت ہے اپنے رب کی جانب یوٹرن لے لیجئے۔۔ اس سے پہلے کہ واپسی کے سارے ہی راستے بند ہوجائیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں