aik tabah saath | Imran Junior

اردو تباہ نہ کریں پلیز (پارٹ ٹو)

دوستو، گزشتہ کالم میں ہم نے اردو کی املا اور صحت کے حوالے سے آپ سے کچھ باتیں شیئر کی تھیں، اس سلسلے کی اگلی قسط پیش خدمت ہے۔۔ ہماری کوشش ہوگی کہ گاہے بگاہے ہم اردو کی بہتری کے حوالے سے جو کچھ بھی ہمارے علم میں ہو،آپ سے شیئر کرتے رہیں۔۔ اور آپ لوگوں سے بھی گزارش ہے کہ ہم کوئی عقل کُل نہیں،ہم بھی انسان ہیں غلطی پر ہم بھی ہوسکتے ہیں، اس لئے جہاں آپ کو لگے کہ ہم غلطی پر ہیں یا کچھ غلط بیان کررہے ہیں تو ہمیں اپنے فیڈ بیک سے نوازسکتے ہیں۔۔

ایک رائے یہ ہے کہ ججوں کے بجائے ججز وغیرہ جیسی غلطیاں، غلطیاں نہیں بلکہ زبان کے فطری ارتقائی عمل کا حصہ ہیں اور اس عمل میں کوئی رخنہ اندازی مناسب نہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ زبان کی صحت کاکوئی خاص اہتمام نظر نہیں آتا بلکہ اب تو یہ بات عام ہے کہ جہاں آسانی سے ڈاکٹروں اور انجینئروں وغیرہ لکھا جاسکتا ہے وہاں خواہ مخواہ ڈاکٹرز اور انجینئرز لکھا جاتا ہے۔ سرکاری ٹی وی پر بھی شروع میں زبان کی صحت کا بڑااہتمام ہوتا تھا۔ضیاء محی الدین، افتخار عارف، عبید اللہ بیگ، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسے لوگ پروگراموں کے میزبان ہوتے تھے جبکہ اداکاروں میں قربان جیلانی، سبحانی بایونس، قاضی واجد ، عرش منیر اور عظمیٰ گیلانی وغیرہ جیسی درست زبان بولنے والی شخصیات شامل ہوا کرتی تھیں۔یوں ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام اپنے سامعین اور ناظرین کے لئے معلومات میں اضافے اور تفریح طبع کے ساتھ ساتھ زبان کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنتے تھے مگر اب سرکاری ٹی وی میں یہ اہتمام باقی نہیں رہا جبکہ نئے نئے چینلوں کی بہار میں تو زبان کے حوالے سے معاملات بالکل ہی بے لگام ہوچکے ہیں۔معروف اردو تاریخ دان ڈاکٹر سلیم اختر نے لفظ کی قدروقیمت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی کتاب ‘اردوادب کی مختصرترین تاریخ’ میں لکھا ہے کہ ‘لفظ کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے، لہٰذا آدمی کی مانند اس کا احترام بھی لازم ہے۔ لیکن خود غرضی کی جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کے باعث انصاف، اداروں اور قدروں کے ساتھ ساتھ لفظ بھی بے اعتبار ہوا، پہلے سیاستدانوں کے ہاتھوں، پھر مْلاؤں کے ہاتھوں، پھر صحافیوں اور ادیبوں کے ہاتھوں۔

دراصل اردو صحافت میں غیر معیاری زبان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوجوان اردو صحافیوں کی بیشتر تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے، جن کی اردو تعلیم ناقص ہے اور وہ اعلیٰ معیاری و بامحاورہ اردو زبان لکھنے سے قاصر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندی و پنجابی کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے بھی اردو صحافیوں کا لب ولہجہ خراب ہوچکا ہے اور ہزار کوشش کے باوجود وہ ہندی الفاظ کے استعمال سے پرہیز نہیںکرپاتے، مثلاً مدّعا کو مدّا لکھتے ہیں۔ ’مجھے اردو بازار جانا ہے‘ کو ’ میں نے اردو بازار جاناہے لکھنا عام ہوگیا ہے۔ اسی طرح آئندہ کی تاریخ کے لیے مورخہ کا لفظ استعمال ہونے لگا ہے۔۔آج کل اردو تحریر میں املا کی غلطیاں بہت عام ہیںکچھ لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ وہ کہاں غلطی کررہے ہیں ۔ حالانکہ املا کی صحت نہایت ضروری ہے اس لئے کہ املا کی غلطی سے بعض اوقات عبارت کا مطلب کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’’خاصا‘‘ جس کے معنی ہیں ’’امراء و سلاطین کا کھانا‘‘ اگر الف کی بجائے ’’ہ‘‘ سے لکھا جائے تو خاصہ پڑھا جائے گا جو خاصیت کے معنی میں آتا ہے۔چودھری کو بعض لوگ چوہدری لکھتے ہیں یہ غلط ہے، صحیح املا چودھری ہے۔ معمّا کو تقریباً سب ہی لوگ معمّہ ہی لکھتے ہیں جو غلط ہے۔۔ دھوکا، بھروسا، چکما وغیرہ جتنے ہندی الفاظ ہیں ان سب کے آخر میں الف ہے ’’ہ‘‘ نہیں اس لئے انہیں دھوکہ، بھروسہ، چکمہ وغیرہ لکھنا غلط ہے۔ اصل لفظ ’’پروا‘‘ ہے پرواہ نہیں، اس کے آخر میں ’’ہ‘‘ نہیں لکھنی چاہئے۔

مشکل الفاظ کا بگڑنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جب آسان الفاظ بھی بگاڑ کر غلط طریقے سے لکھے جائیں تو پھر کیا کہا جائے۔ ایک اخبار میں پانی کی نکاسی کے لیے سڑک کے کنارے لگائی جانے والی ’’جالی‘‘ کو ’’جعلی‘‘ لکھا گیا۔ گویا اس قاعدہ کے مطابق ’’جعلی ڈاکٹر‘‘ کو ’’جالی ڈاکٹر‘‘ کہا جائے گا۔ لفظ صحیح کو بھی بعض اوقات غلط کر کے ’’سہی‘‘ لکھا جاتا ہے۔ ایک اخبار میں لفظ غلط ط کے بجائے ت سے لکھا ہوا دیکھا گیا۔ یعنی غلط کو اور بھی غلط کر دیا گیا۔ اسی طرح آڈیٹوریم کے معنی والے ’’ہال‘‘ کو ’’حال‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ گویا ہال میں بیٹھے ہوئے تمام شرکا کو حال آگیا ہے۔’دِن بدن‘ کا استعمال بھی تحریر میں بہت عام ہے، حالانکہ کسی ہندی یا سنسکرت لفظ کو عربی یا فارسی ترکیب سے لکھنا غلط ہے۔ ’دِن‘ ہندی زبان کا لفظ ہے، اس کے ساتھ ’ب‘ لگانا ٹھیک نہیں، لہٰذا ’دِن بدِن‘ کے بجائے ’روزبروز‘ لکھنا درست ہے۔۔ اردوکے ایک معروف پروفیسرصاحب ،جنہوں نے ماسٹرلیول کی کتاب کے پہلے صفحے پر ایک جگہ یہ ترکیب لکھی تھی۔ برس ہا برس۔ حالانکہ برس ہندی لفظ ہے اور’’ہا ‘‘کی ترکیب فارسی ہے۔ لہذادرست ترکیب ’’ سال ہا سال‘‘ بنتی ہے کیونکہ سال فارسی زبان کا لفظ ہے۔ لفظ’’ مشکور‘‘کے بارے میں بہت زیادہ بحث ہوتی ہے اور ہنوزکوئی حتمی نتیجہ برآمدنہیں ہواہے ، تاہم اکثراساتذہ کہتے ہیں کہ لفظ مشکور کے معنی ہے،جسکاشکریہ اداکیاجائے جبکہ شکریہ اداکرنے والا شاکرہوتاہے۔اسکی جگہ لفظ ممنون درست یعنی کسی کااحسان مندہونا۔بعض تحریروں میں نکتہ چینی کی جگہ نقطہ چینی لکھاجاتاہے۔لفظ تابعدار غلط ہے ، درست الفاظ تابع یافرمان بردارہے،کیونکہ تابع کامعنی ہے حکم ماننے والا ۔ بعض الفاظ جیسے موقع ، مرقع، مزرع،موضع،مصرع اوربرقع وغیرہ کے آخرمیں ہ لگانے سے یہ الفاظ موقعہ،مزرعہ،موضعہ، مصرعہ اوربرقعہ بن جاتے ہیں جوکہ غلط ہیں۔ ایک اورلفظ ’’مکتب فکر‘‘ ہے، جسکو اکثرغلطی سے مکتبہ فکربولا اورلکھاجاتاہے۔ جامع مسجد درست لفظ ہے، جامعہ مسجد لکھنا اوربولناغلط ہے۔

اکثر کرائم رپورٹر اپنی خبر میں جب کسی ملزم یا مقتول کی عمرلکھتے ہیں تو ’’سالا‘‘ لکھ دیتے ہیں جب کہ سالا بیوی کے بھائی یا برادرنسبتی کوکہتے ہیں، ٹھیک تلفظ سالہ ہوگا۔۔ اسی طرح آسیہ کو آسیا لکھ دیاجاتا ہے، آسیہ فرعون کی بیوی کا نام تھا اور اس کے معنی ستون کے ہیں، جب کہ آسیا پن چکی کوکہتے ہیں۔۔ اسی طرح ایڈریس کو اردو میں’’پتا‘‘ لکھا جاتا ہے لیکن ہمارے کچھ نوجوان صحافی ’’پتہ‘‘ لکھتے ہیں، جب کہ یہ درخت والا پتہ ہوتا ہے۔۔اسی طرح وتیرہ اور وطیرہ میں فرق نہیں رکھا ،وتیرہ کا مطلب عادت یا روش ہوتا ہے وطیرہ کا مطلب خواہش پوری کرنا۔۔اسی طرح فوتگی بالکل غلط ہے، ٹھیک لفظ فوتی یا فوتیدگی ہوتا ہے۔۔ڈپلومہ کی جگہ ڈپلوما لکھا جائے۔۔ ناطہ توڑ کر اب ناتا برقرار رکھیں۔۔غبارہ بچپن سے اب تک غلط ہی لکھا، درست غبارا ہوتا ہے۔۔اسی طرح کمرہ بھی ٹھیک کرکے کمرا کرلیں۔۔۔دلاسہ بھی دلاسا کردیں۔۔رکشہ کبھی نہیں روکیں بلکہ رکشا روکیں۔۔ہمشیرہ بھی غلط ہے ٹھیک تلفظ ہمشیر ہے۔۔ایک صاحب نے لکھا کہ میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ اسی طرح اکثر کہا جاتا ہے آپ یہ تحریر لکھ دیجیے۔ فرہنگِ تلفظ، نوراللغات، فرہنگِ آصفیہ سمیت تمام لغات میں تحریر کا مطلب ہی لکھنا، لکھی ہوئی چیز درج ہے۔ تو تحریر کرنا درست ہوا نہ کہ تحریر لکھنا۔ تحریر کر رہا ہوں، لکھ رہا ہوں، آپ تحریر کردیجیے وغیرہ درست ہیں۔ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کسی پر اظہار برہمی کرتے ہیں تو سختی سے کہتے ہیںِ، ’فضول بکواس نہ کرو۔‘ عرض ہے کہ ’’بکواس‘‘ کارآمد ہوتی ہی نہیں، فضول بھی لگایا جائے تو وہ فضول ہی رہے گی۔ مؤلف فرہنگ آصفیہ سید احمد دہلوی کے مطابق بکواس کا مطلب ہی ہرزہ گوئی یا بسیار گوئی ہے، اور ظاہر ہے کہ ہرزہ گوئی اور بسیار گوئی کو ہر کوئی ناپسند کرتا ہے۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں