aik tabah saath | Imran Junior

سنڈے، فنڈے۔۔۔

سنڈے، فنڈے۔۔۔

علی عمران جونئیر

روزنامہ نئی بات، کراچی

16-sep-2018

دوستو، آج سن ڈے ہے یعنی فن ڈے ہے، اتوار کو چونکہ ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے، اس لئے طلبا سے لے کر شادی شدہ حضرات سب اس دن کواپنے اپنے طریقے سے مناتے ہیں، اتوار ہونے کی وجہ سے ہماری بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس دن آپ کو ہلکی پھلکی تفریح کرائی جائے، کسی ثقیل اور’’بھاری بھرکم‘‘ کالم جو آپ سے ہضم نہ ہوسکے، اس کی بجائے، کچھ ایسی باتیں کی جائیں جس سے آپ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جائے۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ۔۔ سیاست دان بندروں کی طرح ہوتے ہیں، آپس میں اختلاف ہوجائے تو لڑلڑ کر باغ تباہ کردیتے ہیں اور اگر آپس میں اتفاق ہوجائے تو مل جل کر باغ ہی کھاجاتے ہیں۔۔اب آپ کو ہمارے پیارے دوست کوئی ’’ دانشور‘‘ لگ رہے ہوں گے جوبہت ہی گہری بات بہت ہی ہلکے پھلکے انداز میں کہہ جاتا ہے؟؟؟
ہمارے پیارے دوست جسے آپ دانشور سمجھ رہے ہیں، ان کی ’’ دانش وڑی‘‘ کا ایک قصہ بھی سن لیجئے۔۔ انہیں بیگم صاحبہ نے کہا۔۔سنیئے جی، دکان سے دودھ کا ایک ڈبہ لادیں اور ہاں، اگر اگر اس کے پاس انڈے ہوں تو چھ لے آئیے گا۔۔ ہمارے پیارے دوست نے چپلیں پہنیں اور محلے کی دکان کی جانب چل پڑے، تھوڑی دیر بعد واپسی ہوئی تو ان کے ہاتھ میں دودھ کے چھ ڈبے تھے، بیگم نے جب دودھ کے چھ ڈبے دیکھے تو غصے سے چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا، گویاہوئیں۔۔یہ دودھ کے چھ ڈبے کیوں خریدے؟؟ ۔۔یہاں کہانی میں ٹوئسٹ آتا ہے، ہمارے پیارے دوست نے فوری طور پر اپنی ’’ دانش وری‘‘ جھاڑی اور فرمانے لگے، کیونکہ دکاندار کے پاس انڈے تھے۔۔سمجھ آئی آپ کو کچھ؟ اس سارے واقعہ میں دانشوری کہاں تھی ؟؟ اسے سمجھنے کیلئے اس واقعہ کو ایک بار پھر غور سے پڑھیئے، سمجھ نہ آئے تو پھر پڑھیئے، اس وقت تک پڑھتے رہیئے جب تک سمجھ نہ آجائے، کیوں کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ جب آپ کو ’’ دانشوری‘‘ سمجھ آگئی تو آپ کی ساری سنجیدگی لمحوں میں ختم ہوجائے گی۔۔چلیں اب ایک دفعہ پھر پڑھ لیجئے۔۔
کہتے ہیں کہ پاکستان میں چھینک آنے کا ایک فائدہ ہے،دل کو تسلی ہو جاتی ہے کہ کوئی یاد کر رہا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ سارے سیاست دانوں کا صرف ایک ’’ دورہ‘‘ پاکستان کی تقدیر کو بدل سکتا ہے؟ جب ان سے پوچھا کہ ، کیسا اور کون سا دورہ؟؟ تو وہ مسکراکر کہنے لگے۔۔دل کا دورہ۔۔ ہمارے ایک اور دوست خان صاحب ہیں ، جو کبھی کسی کے بھرم میں نہیں آتے، ایک روز اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے، کسی پولیس افسر نے ان سے کچھ شاپنگ کی اور قیمت کم کرانے کی کوشش کی۔۔ خان صاحب قطعی مرعوب نہیں ہوئے، پولیس افسر نے کہا، تم مجھے جانتے نہیں میں یہاں کا ڈی ایس پی ہوں۔۔خان صاحب نے بھی برجستہ جواب دیا۔۔ تم ڈی ایس پی ہو تو میں بھی ڈی ایس پی ہوں۔۔پولیس افسر حیران رہ گیا، کہنے لگا، اچھا چلو، ڈی ایس پی کا مطلب بتاؤ۔۔خان صاحب کہنے لگے، دماغ سے پاگل۔۔
دیر رات کو شوہر ڈاکٹر سے مل کر گھر واپس آیا تو بہت پریشان اور اْداس تھا، کمرے کی لائٹ آن کی تو دیکھا بیوی سو رہی تھی، لائٹ کی روشنی آنکھوں پہ پڑی تو بیوی آدھ کھلی آنکھوں سے شوہر کو دیکھتے ہوئے بولی، کیا کہا ڈاکٹر نے؟۔۔شوہراداسی سے بولا۔۔ڈاکٹر نے کہا ہے، تم بس چند گھنٹوں کے مہمان ہو۔۔ بیوی نے گھڑی کی طرف گردن گھمائی، ٹائم دیکھا اور دوسری طرف کروٹ لے کر تکیہ منہ کے اْوپر کر لیا۔شوہر نے بیوی کا کاندھا ہلاتے ہوئے کہا، بیگم! یہ کیا تم سونے لگی ہو؟۔۔بیوی تکئے کے پیچھے سے بولی۔۔دیکھو، صبح مجھے بہت کام ہونگے، تمہارے غسل، کفن کا انتظام کرنا ہے، قبر کھدوانی ہے، ٹینٹ اور دریاں منگوانی ہیں، نمازِ جنازہ کیلئے مولوی صاحب کو کہنا ہے، مسجد میں اعلان کرانے ہیں، تمہارے گھر والوں کو فون کرنا ہے، اپنے گھر والوں کو بلانا ہے، منے کے اسکول میں چھٹی کی درخواست بھیجنی ہے اْس کے رکشے والے کوبھی منع کرنا ہے، دیگ کا آرڈر کرنا ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ، خود تو تم نے صبح اْٹھنا نہیں ہے، لہٰذا لائٹ آف کر دو اور مجھے ڈسٹرب نہ کرو۔۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں، شادی شدہ مرد کی کوئی زندگی نہیں ہوتی،وہ بیچارہ پہلے ہی مسائل کے بوجھ تلے ادھ مرا ہوتا ہے۔۔ وہ مزید کہتے ہیں۔۔شادی وہ خوب صورت جنگل ہے جہاں بہادرشیروں کا شکارچالاک لومڑیاں اور خوب صورت ہرنیاں کرتی ہیں۔۔شادی کو وہ ، اجی سنتے ہوسے لے کر، بہرے ہوگئے ہوکیا تک کا سفر کہتے ہیں۔۔ آپ رہنے دیجئے سے لے کر، آپ تو رہنے ہی دیجئے تک کا سفر کہتے ہیں۔۔ کہاں رہ گئی تھی جان سے لے کر، کہاں مرگئی تھی تک کا سفر کہتے ہیں۔۔
تیرے جیسا کوئی نہیں سے لے کر ،تیرے جیسے بہت دیکھے ہیں تک کا سفر کہتے ہیں۔۔ آپ مجھے نصیب سے ملے ہو سے لے کر، میرا تو نصیب ہی پھوٹ گیا ،تک کا سفر کہتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست مزید فرماتے ہیں کہ شادی شدہ زندگی کشمیر کی طرح جنت نظیر تو ہے لیکن اس زندگی میں ہرطرف ’’آتنک‘‘ ہی پھیلا ہوا ہے۔۔
چلیں اب چلتے چلتے ایک اور واقعہ سن لیجئے پھر ہمیں اجازت دیں۔۔کیونکہ اس واقعہ کے آخر میں ہم آپ کے لئے ایک سوال چھوڑے جائیں گے ،اور سوال کے بعد مزید کوئی بات کرنا،اس سارے واقعہ کی ’’مت‘‘ مار کررکھ دے گا۔۔پرانے زمانے میں فوج میں بھرتی کے لئے گاؤں میں کیمپ لگتا تھا۔اسی طرح ایک گاؤں میں کیمپ لگا۔اسی گاؤں میں ایک دوست نے دوسرے سے کہا ،یار فوج میں بھرتی آئی ہے چلیں۔تو دوست کہنے لگا ،نہیں یار مجھے شرم آتی ہے۔۔پہلا دوست حیران ہوکربولا ، شرم والی کیا بات ہے؟؟۔۔دوسرادوست کہنے لگا، یار ہم اگر بھرتی ہو گئے تو دو باتیں ہوں گی یا تو ہم دوڑ لگائیں گے یا پھرٹریننگ کریں گے۔ اگر ہم نے دوڑ لگائی توٹھیک ہے ۔۔ اور اگر ٹریننگ کی تو پھردو باتیں ہوں گی،یا تو ہمیں یونٹ میں رکھیں گے یا پھر بارڈر پر بھیجیں گے۔ایونٹ میں بھیجیں پھر تو ٹھیک ہے اور اگر بارڈر پر بھیجا تو پھردو باتیں ہوں۔۔۔یا تو امن رہے گا یا جنگ ہوگی۔۔اگر امن رہا تو ٹھیک ہے اور اگر جنگ ہوئی تو پھر دو باتیں ہوں گی۔۔یا ہم انھیں ماریں گے یا وہ ہمیں ماریں گے۔۔ہم انھیں ماریں پھر ٹھیک ہے اور اگر انہوں نے ہمیں مارا تو پھردو باتیں ہونگی۔یا تو ہماری لاش ہماری فوج اٹھائے گی یا پھر دشمن لے جائیں گے۔۔اگر ہماری فوج لے آئی پھر تو ٹھیک ہے اور اگر دشمن لے گئے تو پھر دو باتیں ہوں گی۔۔یا تو وہ اسے دفنائیں گے یا جنگل میں پھینک دیں گے۔اگر دفنا دیں گے تو ٹھیک ہے اور اگر جنگل میں پھینک دی تو پھر دو باتیں ہونگی۔۔یا تو اسے جنگلی درندے کھائیں گے ،یا پھر پرندے کھائیں گے۔۔اگر در ندے کھائیں تو ٹھیک اور اگر پرندے کھائیں گے تو پھر دو باتیں ہونگی۔یا ہماری ہڈیاں زمین میں دب جائیں گی یا پھر صابن بنانے والے لے جائیں گے۔اگر زمین میں دب گئیں تو ٹھیک اور اگر صابن والے لے گے تو پھر دو باتیں ہونگی۔۔یا تو وہ کپڑے دھونے والے صابن بنائیں گے یا نہانے والے صابن۔۔اگر تو کپڑے دھونے کے لئے بنائیں تو ٹھیک اور اگر نہانے کے لئے بنائیں تو پھر دو باتیں ہونگی۔۔یا تو اس کے ساتھ لڑکے نہائیں گے یا لڑکیاں۔۔۔اگر لڑکے نہائیں تو ٹھیک ہے۔اور اگگگگر۔۔اسی لئے مجھے اس سے بہت شرم آتی ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں