bakhabar sahafio ka post martam zaroori

صحافیوں ڈوب مرو، تم سے زنانیاں اچھی

تحریر:خرم شہزاد

داستان گوئی کا زمانہ کب کا لد چکا لیکن دنیا سے داستانیں کہاں ختم ہوتی ہیں۔ اب داستانوں کی جگہ کہانیوں نے لے لی ہے اور صحافی نجی محفلوں کا    نیا  داستان گو ہے۔ ایسی ایسی کہانیاں صحافیوں کے پاس ہوتی ہیں کہ اگر باہر آ جائیں تو دھمال پڑ جائے لیکن یہ کہانیاں کبھی تو صحافیوں کے اپنے تعلقات کی وجہ سے باہر نہیں آتیں تو کبھی ان کے متعلقہ چینل یا اخبار کے مفادات کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے(یہاں مفادات کو مفاد کی جمع کے طور پر ہی پڑھا جائے)، لیکن یہ کہانیاں کہیں دفن نہیں ہوتیں بلکہ کبھی تو نجی محفلوں میں سنائے جانے والے لطیفوں میں ڈھل جاتی ہیں تو کبھی انہی محفلوں کی سرگوشیوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ کبھی کہیں سودے بازی کے کام بھی آتی ہیں تو کبھی سینہ بہ سینہ چلتی آنے والے زمانے کی کسی کتاب کا حصہ بن جاتی ہیں۔ صحافیوں اور زنانیوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ اپنے پاس آئی خبر زیادہ دیر اپنے پاس رکھ نہیں سکتے اور جب تک کہیں آگے پہنچا نہ دیں انہیں سکون نہیں آتا۔ زنانیوں کا ذکر آ ہی گیا ہے تو گذشتہ الیکشن کی بہت سی سینہ بہ سینہ کہانیوں میں زنانیوں نے ہیرو کا لاجواب کردار ادا کیا تھا اور ولن کے ساتھ ساز باز کر کے کہانی کے اکلوتے باقی بچے کردار کا مکو ٹھپ دیا۔ اگرچہ یہاں بوریا بستر لپیٹنا بھی کہنے کو بہتر لگے گا لیکن جو مزہ اور مطلب کی گہرائی مکو ٹھپ دینے میں ہے وہ بوریا بستر لپیٹنے میں کہاں۔ دروغ بر گردن راوی یعنی کہ جھوٹ سچ کا سارا ثواب ایسی کہانیاں سنانے والے کے سر ہو، ہمیں تو صرف اتنا بتایا گیا کہ گذشتہ الیکشن میں کئی نامی گرامی سیاست دان یونہی تو نا اہل نہیں ہو گئے بلکہ ان کے پیچھے ایک عظیم کردار ان کی بیگمات کا تھا۔ عوام فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو کوستی رہی لیکن موقع کا محل دیکھ کر جو فائدہ ان خواتین نے اٹھایا وہ ان کے متعلقہ خاندانوں میں برسوں یاد رکھا جائے گا۔ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کران لوگوں نے بہت سی بے نامی جائیدادیں بنائیں تو وہیں چھپ چھپا کر دوسری ، تیسری شادیاں بھی رچا لیں۔ سورج چڑھا ہوا تھا اس لیے اکثریت سجدہ ریز تھی لیکن خواتین تو خواتین ہوتی ہیں، سب کچھ برداشت کر لیتی ہیں لیکن نظر انداز ہونا اور سوکن کہاں برداشت ہوتی ہے۔ اس الیکشن میں جب نااہل ہونے کی ہوا چلی تو ان خواتین نے بھی سوکنوں کی تفصیلات بمعہ بے نامی جائیداوں کی فہرستیں مخالفین کے ہاتھ اس وعدے پر تھمائیں کہ اگر ان کا درست استعمال نہ ہوا تو پھر تیری خیر نہیں۔اب محترم سیاست دان بے چارے پریشان بیٹھے سوچتے ہیں کہ الیکشن کمیشن میں یہ بیویوں اور جائیدادوں کی تفصیلات کیسے پہنچ گئیں ، لیکن نا اہل ہونے کے بعد اب فرصت ہی فرصت ہے بیگمات کے ساتھ بیٹھے سوچتے رہیں کہ کون گھر کا بھیدی تھا جو اس کی لنکا ڈھا گیااور بیگمات کی روح تک اترا ہوا سکون ان کے چہرے کی خوبصورتیوں میں مزید اضافہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

                ان کہانیوں سے پرے ایک اور دنیا بھی ہے جس کے باسی یہی صحافی ہیں جو ایسی مزے مزے کی کہانیاں مزید نمک مرچ اور مصالحے کے ساتھ سناتے ہیں کہ سننے والے اش اش کر اٹھتے ہیں لیکن انہی صحافیوں کی اپنی دنیا کی سچائیاں نہایت تلخ ہیں۔ صحافتی اداروں میں زوال اور بحران کی صورت حال ہے لیکن یہ زوال اور بحران صرف اور صرف چھوٹے صحافیوں بلکہ چھوٹے اخباری کارکنوں اور چینل کے معمولی کارکنوں کے لیے ہے۔ بڑے ہاتھی، مگر مچھ، گینڈے اور بھینسے ابھی بھی مزے میں ہیں کہ ان کی ماوں کی دی ہوئی دعاوں کے سبب انہیں گرم ہوا بھی نہیں لگتی بس غریب کی ماں کی دعا کہیں ادھر ادھر بھٹک جاتی ہے یا شائد کسی بڑے صحافی کو ہی جا لگتی ہے۔ کئی چینل بند ہو چکے ہیں اور باقی بچے چینل دھڑا دھڑ کارکنوں کو نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اخبارات نے اپنے صفحات ہی کم نہیں کئے بلکہ کارکنوں کی تعداد بھی خاصی کم کر دی ہے کہ اب تو پریس کارڈ کے بدلے مفت کے صحافی بھی تو دستیاب ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چینل کھولنے اور اخبار نکالنے والے صرف حکومتی اشتہاروں کے آسرے میں ہی گھر سے نکلے تھے ؟ کیا ان اداروں کے پاس اور کوئی ذریعہ آمدنی نہیں؟ کیا کنگال ہوتے ان اداروں کے مالکان بھی کنگال ہو رہے ہیں یا پھر وہ ان مرتے ہاتھیوں کو بھی سوا لاکھ میں بیچ رہے ہیں؟ پندرہ سے بیس ہزار والے کارکنوں کو نکالنے والے ادارے کیسے کچھ لوگوں کو چالیس چالیس لاکھ کے پیکج آفر کر سکتے ہیں؟ سارا دن چلنے والے اشتہارات اور پیڈپروگرامز کی آمدنی بھلا کہاں جاتی ہے؟ اور ہزار سوالوں کا ایک سوال کہ کسی بھی ادارے سے نکالے جانے والے کارکنوں کے ساتھ زبانی ہمدردی کرنے کو تو کئی لوگ پہنچ جاتے ہیں لیکن کیا انہی اداروں میں رہنے والے یہ لوگ زنانیوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کے لیے زرا سا بھی نان پروفیشنل نہیں ہو سکتے؟ویسے ان سے اچھے تو وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے حصہ نہ ملنے پر سینما کا سارا سین ہی پبلک کر دیا۔آپ مجھے اخلاقیات کا درس دے سکتے ہیں لیکن اخلاق کے سالن کے ساتھ خلوص کی روٹی کھانے سے اگر ایک وقت کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے تو بتائیں؟ پتہ ہے لوگ نان پروفیشنل کیوں نہیں ہوتے؟ کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان کی سیٹیں پکی ہیں اور ان کی نوکریوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ جس دن انہیں کوئی خطرہ ہوگا یا ان لوگوں کی وجہ سے اداروں کو کسی نقصان کا خطرہ ہو گا اس دن سوشل میڈیا پر دیکھنے والی دھمال ہو گی۔ یادداشت کے لیے عامر لیاقت کے عالم آن لائن چھوڑنے کو یاد کریں کہ کیسی کیسی وڈیو باہر نہ آئی تھی۔ملک ریاض اور مبشر لقمان کی وڈیو بھی تو اکثر کو یاد ہو گی۔ اگر چینلز کے پاس اتنا کچھ ہو سکتا ہے تو کام کرنے والے بھی ذرا سی کوشش سے انکم ٹیکس چوری، بجلی چوری، پیڈ پروگرامز کی ٹوٹے سمیت جانے کیا کچھ باہر لا سکتے ہیں لیکن نہیں لاتے کیونکہ ان کی اپنی نوکریوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔۔ اور جب اپنی نوکری کو خطرہ نہ ہوتو باقی سارے جائیں بھاڑ میں۔۔باقی تو سیاست رہ جاتی ہے جو غریب کارکنوں کے نام پر کی جاتی ہے اور ان مرتے ہوئے کارکنوں کے نام کو بھی کئی لوگ مالکان سے کیش کرواتے ہوئے اپنی سیٹیں اور پکی کروانے میں لگے ہوئے ہیں۔

ہزار باتوں کی بس ایک ہی بات کہ آج کے صحافی سے مجھے ان سیاست دانوں کی بیگمات زیادہ بہادرلگیں جنہوں نے نہ صرف جرات کا اظہار کیا بلکہ اپنی زندگیوں میں زہر گھولنے والوں کے مکو ٹھپ دئیے۔ آج سینکڑوں صحافتی کارکن بے روزگار ہو چکے ہیں ، ہزاروں کے سر پر کسی بھی لمحے بے روزگاری کی تلوار لٹک رہ ہے لیکن اداروں کے خلاف کچھ بھی عوام کے سامنے نہیں آ رہا تو سمجھ آتی ہے کہ جرات اظہار کا چورن بیچنے والے یہ صحافی اپنوں سے کبھی مخلص ہی نہیں تھے اور ۔۔ آج کے صحافی زنانیوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔(خرم شہزاد)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں