nazariyati ikhtelaf | Imran Junior

اک واری فیر

علی عمران جونیئر

دوستو،روزانہ عجیب خبریں سننے کو مل رہی ہیں، عوام کی کسی کو فکر نہیں، حکومت کا یہ حال ہے کہ چاچا وزیراعظم، سمدھی نائب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب صاحبزادی ہیں۔ باباجی سے جب ہم نے پوچھا، آپ نے زندگی کی ستر سے زائد بہاریں دیکھ لیں، اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، آپ کے خیال میں سب سے اچھی حکومت کس نے کی؟ باباجی نے مسکرا کر ہمیں دیکھا، جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی، اسے اسٹائلش انداز سے جلائی اور لمبا سا کش لے کر دھواں اپنے پھیپھڑوں میں بھرلیا، پھر آہستہ آہستہ اپنے نتھنوں اور منہ سے دھواں چھوڑتے ہوئے بڑے وثوق سے بولے۔۔ پتر، میری زوجہ ماجدہ نے۔فارم سینتالیس اور پینتالیس والی اس حکومت کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ایک جماعت کا مشہور نعرہ ہے۔۔ ایک واری فیر۔۔ لیکن ہم چونکہ سیاست سے بالکل اسی طرح دور بھاگتے ہیں جیسے اسٹیبلشمنٹ قیدی نمبر آٹھ سو چار سے، اس لئے آج کی آپ کی قیمتی چھٹی ضائع نہیں کریں گے۔۔چلتے ہیں ہماری اوٹ پٹانگ باتوں کی طرف۔۔

بازار میں اک نئی دکان کھلی جہاں شوہر فروخت کیے جاتے تھے۔ اس دکان کے کھلتے ہی لڑکیوں اور عورتوں کا اژدہام بازار کی طرف چل پڑا۔ سبھی دکان میں داخل ہونے کے لیے بے چین تھیں۔ دکان کے داخلہ پر ایک بورڈ رکھا تھا جس پر لکھا تھا۔اس دکان میں کوئی بھی عورت یا لڑکی صرف ایک وقت ہی داخل ہو سکتی ہے۔۔پھر نیچے ہدایات دی گئی تھیں۔۔۔اس دکان کی چھ منزلیں ہیں ،ہر منزل پر اس منزل کے شوہروں کے بارے میں لکھا ہو گا، جیسے جیسے منزل بڑھتی جائے گی شوہر کے اوصاف میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔خریدار لڑکی یا عورت کسی بھی منزل سے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے اور اگر اس منزل پر کوئی پسند نہ آئے تو اوپر کی منزل کو جا سکتی ہے۔مگر ایک بار اوپر جانے کے بعد پھر سے نیچے نہیں آ سکتی سوائے باہر نکل جانے کے۔۔ایک خوبصورت لڑکی کو سب سے پہلے دکان میں داخل ہونے کا موقع ملا، پہلی منزل کے دروازے پر لکھا تھا۔۔اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں اور اللہ والے ہیں۔۔لڑکی آگے بڑھ گئی۔دوسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا۔۔۔اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں’ اللہ والے ہیں اور بچوں کو پسند کرتے ہیں۔ ۔۔لڑکی پھر آگے بڑھ گئی۔تیسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا۔۔۔اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں’ اللہ والے ہیں بچوں کو پسند کرتے ہیں اور خوبصورت بھی ہیں۔۔یہ پڑھ کر لڑکی کچھ دیر کے لئے رک گئی’ مگر پھریہ سوچ کر کہ چلو ایک منزل اور جا کر دیکھتے ہیں،وہ اوپر چلی گئی۔چوتھی منزل کے دروازہ پر لکھا تھا۔۔اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں’ اللہ والے ہیں بچوں کو پسند کرتے ہیں’ خوبصورت ہیں اور گھر کے کاموں میں مدد بھی کرتے ہیں۔۔یہ پڑھ کر اس کو غش سا آنے لگا’ کیا ایسے بھی مردہیں دنیا میں؟ وہ سوچنے لگی کہ شوہرخرید لے اورگھر چلی جائے، مگر دل نہ مانا وہ ایک منزل اوراوپر چلی دی۔وہاں دروازہ پر لکھا تھا۔۔۔اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں’ اللہ والے ہیں بچوں کو پسند کرتے ہیں’ بیحد خوبصورت ہیں’ گھر کے کاموں میں مدد کرتے ہیں اور رومانٹک بھی ہیں۔۔اب اس عورت کے اوسان جواب دینے لگے۔ وہ خیال کرنے لگی کہ ایسے مرد سے بہتر بھلا اور کیا ہو سکتاہے مگر اس کا دل پھر بھی نہ مانا وہ اگلی منزل پر چلی آئی۔یہاں بورڈ پر لکھا تھا۔۔آپ اس منزل پر آنے والی 3449 ویں خاتون ہیں، اس منزل پر کوئی بھی شوہر نہیں ہے ، یہ منزل صرف اس لئے بنائی گئی ہے تا کہ اس بات کا ثبوت دیا جا سکے کہ۔۔۔عورت کو مطمئن کرنا نا ممکن ہے،،ہمارے اسٹور پر آنے کا شکریہ، سیڑھیاں باہر کی طرف جاتی ہیں۔۔

کہتے ہیں کہ پاکستانی فلموں کا گولڈن دور گزر چکا، اب فلم انڈسٹری کا وہی حال ہے جو حکومت کا ہے۔پرانی فلموں کو یادگار کہاجاتا ہے، آپ نے اپنے بچپن یا زمانہ طالب علمی میں جو فلم سینما جاکر دیکھی ہوگی وہ آج بھی یاد ہوگی۔ستر اور اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کی واحد تفریح یہی سینما اور پرانی فلمیں تھی۔۔ پرانی فلموں میں امیر ہیروئن کے گھر گرینڈ پیانو ضرور ہوتا تھا جسے غریب ہیرو نہ صرف بجانا جانتا تھا بلکہ بجا بجا کر ساتھ ہی بیوفائی کے شکووں بھرے گیت گاتا تھا،جسے صرف ہیروئن سمجھ کر ساڑھی کا پلو مروڑتی تھی جبکہ باقی کراؤڈ احمق گھامڑ بنا سنتا تھا۔۔ پرانی فلموں میں ہاتھ سے لکھے خط موجودہ دور کی وڈیو کال کے برابر ہوتی تھیں کیونکہ خط کھولنے کے بعد لکھنے والے کی خط میں تصویر آتی اور وہ خود سناتا بھی تھا کہ کیا لکھا ہے۔۔پرانی فلموں میں جونہی ہیروئین کو ہیرو سے پیار ہوتا، قریب ہی موجود بکرے یالیلے کی شامت آ جاتی اور ہیروئین اسے کٹ کے جپھی پا کر چومنا شروع کردیتی۔۔پرانی فلموں میں ہیرو ہیروئن کے پیار محبت کا اظہار گانوں کے دوران دو پھول یا درختوں پر بیٹھے طوطا مینا کیا کرتے تھے۔۔پرانی فلموں میں درخت کو گلے لگانا، محبوب کو گلے لگانا ہوتا تھا۔۔پرانی فلموں میں ہیرو کو دیکھتے ہی اچھی بھلی ہیروئن کو سانس چڑھ جاتی تھی اور یک بہ یک دمہ کی مریضہ لگنے لگتی تھی۔۔ پرانی فلموں میں ڈاکٹر اتنے لائق ہوا کرتے تھے، دیکھتے ہی ہارٹ اٹیک یا کینسر کا پتہ لگا لیتے تھے وہ بھی بغیر کسی ٹیسٹ کے اور سونے پہ سہاگہ مرنے کی ڈیٹ بھی پہلے سے بتادیا کرتے تھے۔۔ پرانی فلموں میں بری خبر سننے کے بعد ہاتھ میں پکڑی چیز لازمی گر جاتی تھی۔۔۔ پرانی فلموں میں جب ہیروئن گھر چھوڑ کے جاتی، اس کے جملہ ملبوسات، جوتے، ہینڈ بیگ، جیولری، میک اپ کا سامان کرشماتی طور پر ایک سوٹ کیس میں فٹ ہو جاتاتھا۔۔پرانی فلموں میں گانے اور رقص کو اتنی اہمیت حاصل تھی کہ اگر ولن کو کوئی چھیڑ خانی کرنی بھی ہوتی، یا لڑکی کے باپ کو بے عزت کرنا ہوتا، تو گانا اور رقص ختم ہونے کا انتظار کرتا تھا۔ ۔ پرانی فلموں میں ہیروئن روڈ پہ ناچ گانا کرتی اور لوگ ایک دائرہ بناکے اسکو انتہائی تہذیب سے دیکھتے تھے۔۔۔ ہیروئن کی سہیلیوں کو پتا ہوتا تھا کہ ہیروئن نے کون سا گانا گانا ہے، وہ ہمیشہ کورس ڈانس پریکٹس کر کے گھر سے آتی تھیں۔۔ ہیرو کے دوست کو دنیا کا کوئی کاروبار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اس کا کام سارا دن ویلا ہیرو کے ساتھ پھرنا ہوتا تھا۔۔ پرانی فلموں کے کلائیمکس میں ہیرو کی ماں اور محبوبہ ہمیشہ ولن کے قبضے میں بندھی حالت میں ملتی تھیں اور ہیرو کی ساری جدو جہد پر پانی پھیر دیتی تھیں۔۔ عدالت کا فیصلہ ہیرو کے خلاف آنے کے باوجود ہم سب کو پتہ ہوتا تھا کہ آخری وقت میں ہیرو زخمی حالت میں گھسٹتاہوا عدالت کا دروازہ کھول کر کہے گا کہ اصل ثبوت وہ اب لے کر آیا ہے۔۔ پرانی ڈراونی فلموں میں شہر سے بہت دور ایک بنگلے میں بتی جل رہی ہوتی تھی مگر بوڑھے چوکیدار نے ہمیشہ لالٹین ہی پکڑی ہوتی تھی۔ نجانے ایسے بنگلے میں وہ اکیلا کیا کرتا تھا اور اسے تنخواہ کون دیتا تھا۔ ۔پرانی فلموں میں سب سے مشکل کام گواہ کو غنڈؤں کی فائرنگ سے بچ بچا کر عدالت تک لانا ہوتا تھا۔۔ پرانی فلموں میں ہیرو کو خون کی بوتل ولن کے غنڈوؤں سے لڑ کر بحفاظت ہسپتال تک پہنچانی ہوتی تھی، اس سلسلے میں خون کی بوتل کئی بار ہوا میں اچھلتی مگر ہیرو کمال پھرتی سے زمین پر گرنے سے پہلے ہی بوتل پکڑ لیتا تھا۔۔پرانی فلموں میں اکثر ماں سے اس کا بچہ گم ہو جاتا تھا اور پھر فلم کے اینڈ میں ماں بیٹا مل جاتے تھے۔۔پرانی فلموں میں اکثریادداشت واپس لانے کے لئے گانوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔۔پرانی فلموں میں ہیرو کے لئے لانگ بوٹ پہننا لازمی ہوتا تھا،،پرانی فلموں میں پہلے ہیرو پر ولن ظلم کے پہاڑ توڑتا تھا،پھر جواب میں ہیرو ایک ایک کر کے بدلے اتارتا تھا، پہلے ولن کی آل اولاد کو مارتا یا اس کے بزنس پارٹنر کو مارتا، لاسٹ میں ولن کا نمبر آتا۔لیکن جو بھی ہے پرانی فلمیں ایک واری فیر دیکھنے کو دل بھی کرتا ہے۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ طوطے سے مستقبل کا حال پوچھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیشہ ایک اور نیک فال نکالتا ہے، جس کا سبب یہ کہ دماغ کی بجائے چونچ سے کام لیتا ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں