mamnu dairo mein

“مداخلتیں”

تحریر: شکیل بازغ۔۔

سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خطوط پر سماعت ہو رہی ہے جس میں الزام لگایا گیا کہ ان ججز کے کام میں مداخلت ہو رہی ہے۔ مبینہ طور پر مداخلت کا الزام ایجنسیز پر بالواسطہ اور عسکری اسٹیبلشمنٹ پر بلاواسطہ کا تاثر پایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ تاریخ میں امر ہونے کیلئے اسے براہ راست ٹی وی پر نشر کرتے ہیں۔ بلکہ ہر اہم نوعیت کا کیس جس کا تعلق عوام اور سسٹم سے ہو سپریم کورٹ سے براہ راست نشر ہوتا ہے۔ ایجنسیز کی مداخلت کا الزام سچا ہے یا جھوٹا یہ ججز پینل جانے متاثرین جانیں اور ملزمان جانیں۔

میرا مدعا بہر حال یہ ہے کہ یہ مداخلت انسانی جبلت میں شیطان سے شامل ہوئی۔ شیطان نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کرکے اپنی سوچ کوبہتر خیال کرتے ہوئے اللہ کے کام اور حکم میں مداخلت کی۔ پھر ہر ہر دور میں شیطان کے چیلوں نے حق والوں سے مڈ بھیڑ کی شیطانی روایت برقرار رکھی، یہاں تک کہ شرعی نظام میں جمہوریت کی مداخلت ہوئی۔ پورا نظام بنا، ملکوں کوسرحدیں دے کر انسانوں کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ نظام میں میرٹ متعارف کراکر آؤٹ آف ٹرن پروموشنز اور ایکسٹینشنز بھی اپنے ہی وضع کردہ نظام میں مداخلت ہے۔ بیلٹنگ سسٹم میں جعلی نتائج بھی عوامی مینڈیٹ میں مداخلت ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پیراشوٹرز کوئی بھی ہوں۔ وہ دراصل مُخل ہی تصور ہوتے ہیں۔ چاہے کسی بھی ادارے یا شعبے میں ہوں۔ میرٹ کا قتل جہاں ہوگا۔ وہاں مداخلت ہوئی ہوتی ہے۔ ہر ادارہ دوسرے کے کام میں مداخلت کر رہا ہے۔ عدلیہ میں سیاست دان اپنے سیاسی ونگز بنا کر عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی مداخلت کرتے ہیں۔ اپوزیشن جب حکومت کیساتھ سافٹ رویہ رکھتی ہے تو یہ بھی عوامی مینڈیٹ نظام اور توقعات میں مداخلت ہے۔ آئین کی کتابوں میں لکھے کیمطابق جب کوئی عدالت فیصلہ دیتی ہے یا آئین نافذ کرنے والے کسی قانون کو خود توڑتے یا قانون اور عدالتی فیصلے کے نفاذ میں حائل ہوتے ہیں تو یہ بھی مداخلت ہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس میں اغیار کے کلچر، تعلیم، پالیسیز بھی براہ راست مداخلت ہے۔ قوم کی شناخت کو ڈالرز کے عوض مٹانا یا کم تر کرنا بھی مداخلت ہے۔

یہ ملک مداخلت کے ستونوں پہ کھڑا ہے۔ ہمارے سیاسی منبر سے سیاستدان جب امریکہ یورپ کی ترقی کا راگ الاپ کر عوام کو یہود و نصارٰی کا ذہنی غلام بننے کی ترغیب دے رہے ہوتے ہیں تو یہ براہ راست اللہ کی کتاب میں مداخلت ہے۔ یہاں تک کہ سابق صدر عارف علوی نے بالآخر یہ تک کہ دیا کہ میرا سٹاف میری بات نہیں مانتا، تو بھئی یہ بھی مداخلت ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو نہ چلنے دینے کیلئے دخل اندازی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ از خود چیف جسٹس کا فیض آباد دھرنے کا کیس ختم نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے محافظوں کے کام میں مداخلت ہے۔ مذہبی طبقے کے اسلام کے حق میں کام کو سٹیٹ کی جانب سے روکنا یا مزاحمت کرنا بھی اسلام میں مداخلت ہے۔ فلسطین میں یہودی آباد کاری اور پھر فلسطینی مکینوں کا قتل عام انسانیت، اخلاقیات، اصولوں اور قوانین میں شیطانوں کی عالمی مداخلت ہے۔ پاکستان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دشمنان کو پالنا انکے حقوق وضع کرنا انہیں کھلم کھلا چھوٹ دینا اور قومی رازوں اور اداروں میں اعلٰی عہدے دینا بھی اندرونی و بیرونی مداخلت ہے۔ ربوہ اور اسرائیل مسلمانوں کے سینوں میں وہ پیوست مداخلت ہے جو خنجر سے کم نہیں۔ چلتی حکومتیں جب الٹ دی جاتی ہیں۔ اور نا اہل کو کارکردگی کے سوال سے پہلے بچا لیا جاتا ہے تو کیا یہ انصاف اور سچ میں جھوٹ کی مداخلت نہیں؟

ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانکے تو ہر کوئی سیاہ و سفید کا مالک بن کر آئین اخلاقیات اور انسانیت کو روند کر دوسرے کے کام میں مداخلت کر رہا ہے۔ یہاں دودھ کا دھلا کون ہے۔ لوگ تو اللہ کے نظام میں مداخلت سے باز نہیں آ رہے۔

دراصل جمہوریت شیطان کا وضع کردہ وہ نظام ہے جو اپنے ہی اصولوں کے برخلاف جا کھڑا ہوتا ہے۔ کل کا کرپٹ آج کا صادق و امین اور آج کا صادق و امین آئندہ کا فرعون ہو سکتا ہے۔ یہ نظام مداخلت کاریوں سے پروان چڑھتا اور آگے بڑھتا ہے۔

ہمیں اس پر غور کرنا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کیا کیس لے کر بیٹھے ہیں۔ اور اس سے کون کیا نتیجہ اخذ کرانا چاہ رہا ہے۔ اور نتیجہ نکلے گا کیا اور کیا عملدرآمد ہوگا؟واللہ اعلم۔۔(شکیل بازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں