sahafati tanzeemein baraye farokht by taha ubaidi

صحافتی تنظیمیں برائے فروخت

تحریر: طحٰہ عبیدی

میرے مخلص دوست مشورہ دیتے ہیں لکھنا چھوڑ دو ، چینل کے خلاف لکھو گے تو نوکری نہیں ملے گی صحافیوں کے خلاف لکھو گے تو فیلڈ میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا ، آج تک ایسا نہیں ہوا اور اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے آئندہ بھی ہوگا انشا اللہ

بڑے شان سے آیا تھا بول ٹی وی ، شعیب شیخ کے دعوے سن کر لگتا تھا ہم صحافیوں کی قسمت بدل گئی ، آتنگ تقریر کرکے ایسا دھوکہ دیا ہے شعیب شیخ نے کہ صحافی بھوکے پیٹ عید الاضحی منانے پر مجبور ہیں ، تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج کررہے ہیں ،کسی کو کب تک بیوقوف بنا سکتا ہے کوئی اور ادارے دھوکے پر نہیں چلتے ہیں ، ان غریبوں کی بدعائیں لگ گئیں تو جیب کے پیسے بھی ختم ہو جائیں گے خیر آج شکایت ہے صحافتی تنظیموں سے ان صحافت کے ٹھیکیداروں سے جنہیں نعروں کے وقت یہ رپورٹر ، کیمرہ مین ، ڈیسک کے لوگ ، این ایل ای اور ڈرائیور یاد آتے ہیں اور پھر ایسے بھولتے ہیں جیسے جانتے پہنچانتے بھی نہ ہوں

چینل اور اخبار مالکان کی دلالی سے باہر نکلنا ہوگا ، ورکنگ کلاس جرنلسٹ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ورنہ ان صحافتی تنظیموں کے دفتر کے باہر بڑا بڑا بورڈ لگا لیں “ہم برائے فروخت ہیں “ اور اگر غیرت جاگ جائے تو جن سے نعرے لگواتے ہیں ان غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کریں ، ان کی تنخواہیں دلوائیں یا ان ورکنگ کلاس جرنلسٹ کو پھانسی دے دیں ۔(طحہ عبیدی)۔۔
(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہوناضروری ہے۔۔علی عمران جونئیر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

صحافتی تنظیمیں برائے فروخت” ایک تبصرہ

  1. زیادہ تر صحافتی تنظیموں کے اکثر عہدیداران اب صحافتی ٹھیکیدار بن چکے ہیں اور مظلوم صحافیوں کے درد کے ایسے بیوپاری بن چکے ہیں کہ جس میں انکی پانچوں گھی میں رہتی ہیں اور مظلوموں کے مجمع لگاکے انکی طاقت سے میڈیا مالکان کو ڈراکے اپنے لیئے ذاتی فوائد بٹورتے ہیں۔۔ ان میں سے کئی تو میڈیا چینلوں کے بیورو چیف بنے بیٹھے ہیں اور اہم عہدے و مناصب پہ براجمان دکھائی دیتے ہیں لیکن انکی ذاتی قابلیت و صلاحیت ٹھیکداری و دلالی سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور میڈیا ورکرز کے حقوق اور قومی مفاد کی پاسداری جیسی ‘خرافات’ سے انکا کچھ لینا دینا بھی نہیں ہے بطور مثال ایک فارن صاحب کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ 3 برس قبل جب اردو زبان کے نفاز کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس بارے میں میں نے ایک جائزہ سیمینار برائے تجاویز منقد کیا اور موصوف کو کراچی پریس کلب کی طرف سے اظہر خیال کے لیئے مدعو کیا تو انہوں نے شرکت سے ہی انکار کردیا اورقومی زبان کے نفاز کے تصؤر ہی کا بہت مذاق اڑایا اور شدید دلآذار باتیں کی اور غلط سلط و پوچ دلائل کے انبار لگادیئے ۔۔۔۔ یوں صاف عیاں ہوا کہ ملک میں اردو کے مرکز اس شہر کے ایسے صحافتی گروگھنٹالوں کا طرز فکر اور سوچ کس قدر پست ہے۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں