marne se pehle bachne ki koshish by muhammad nawaz tahir

مرنے سے پہلے بچنے کی کوشش

تحریر: محمد نواز طاہر

میڈیا انڈسٹری میں پیدا کیے جانے والی مالی بحران اور کارکنوں کی اندھا دھند چھا نٹیوں کیخلاف پی یو جے اور ایپنک نے لاہور میں لال روڈ پر مظاہرہ کیا ،جس میں اس عزم کی تجدید کی گئی کہ کارکنوں کی چھانٹیوں کی مزاحمت کی جائے گی ، اس موقع پر میں نے پی ایف یو جے اور ایپنک کا میڈیا مالکان کے احتساب کا مطالبہ دہرایا ، یہ مطالبہ ابھی دہرا رہا ہوں کہ ایک غیر جانبدار جے آئی ٹی بنا کر میڈیا مالکان کے اثاثوں کا احتساب کیا جائے ،یوین کے اس احتجاج پر کچھ مخالفین نے مختلف قسم کی منفی رائے زنی کی اور کارکنوں میں اپنا وجود کی حقیقت پر مہر ثبت کی ۔ بدقسمتی سے اس وقت یونین کے ایک سے زائد گروپ موجود ہیں لیکن دیانتداری سے بات کی جائے تو کوئی گروپ بھی کارکنوں کی نمائندگی کا پورا حق ادا نہیں کررہا ، کہیں نہ کہیں کمی کوتاہی رہ جاتی ۔
لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چودھری سے اسی احتجاج کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی جب انہوں نے بتایا کہ کارکنوں کے ایک اور گروپ میں وہ پھر سے کارکنوں کو مشترکہ معاملات پر متحد ہونے کا مشورہ دیکر آئے ہیں اب معلوم نہیں کس کو یہ بات اچھی لگتی ہے اور کون اسے اپنے مفادات کے منافی خیال کرتا ہے ۔ اسی غیر رسمی گفتگو میں اصولی طور پر طے پایا کہ اعظم چودھری پریس کلب کے پلیٹ فارم سے پہل کریں اور تمام تنظیموں کو مشترکہ ایشوز پر بات چیت پر آمادہ کریں ۔ اعظم چودھری کلب کی عمارت اس مقصد کیلئے فراہم کنے پر تیار تھے ، کچھ دوستوں کے اتفاق رائے سے یہ طے پاگیا کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے تمام گروپوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے بٹھایا جائے جائے اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے ۔ اگرچہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ پریس کلب ٹریڈ یونین ادارہپ نہیں لیکن کارکنوں کا ادارہ ہے جسے بطور سہولت کار ادارہ استعمال کرنا سب کا حق ہے ، چنانچہ یہ اصولی طور پر تو طے ہوگیا ہے کہ بحیثیت صدر پریس کلب اعظم چودھری پریس کلب میں ٹریڈ یونینز کے نمائندوں کا اکٹھ کریں گے جس میں سینئر ساتھیوں اور جدوجہد کرنے والے ( دستیاب ) بزرگوں کو بھی مدعو کریں گے لیکن کب بلاتے ہیں اس کا انتظار ہے ، اس سے پہلے صرف تمام احباب سے ایک گذارش ہے کہ اسے ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی رنگ دینے دینے سے جتنا گریز کیا جائے گا وہ کارکنوں کے اجتماعی مفاد میں اتنا ہی بہتر ہوگا ۔ ایک گذارش اور کرنا ہے کا کارکن یہ جان لیں کہ میڈیا مالکان ڈھال کے طور پر ہمیں حکومت کیخلاف اپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال بھی کررہے ہیں اور ہمارا استحسال بھی کررہے ہیں، ہم نے اپنے مفادات کو دیکھنا ہے مالکان کے مفاد کو نہیں ، ماضی کی طرح ادارے بند کرنے کی مالکان کی دھمکی سے بلیک میل نہیں ہونا کیونکہ کوئی میڈیا مالک اب ادارتہ بند کرکے زندہ نہیں رہ سکتا ، یہ اشاعتی اور نشریاتی ادارے ہی اس کیلئے ڈھال ہیں جبکہ گریبان کس کا کتنا چاک ہونا ہے یہ ہم سے بہتر وہ خود جانتے ہیں ۔(محمدنوازطاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں