khusra qanoon | Imran Junior

لے آئی ہمیں کہاں پر۔۔؟؟

دوستو،آزادی مارچ اور دھرنے کے چرچے زوروں پر ہیں۔۔آج ستائیس اکتوبر ہے، مولانا صاحب نے حکومت کو آج ہی تاریخ دی تھی، ویسے ہم نے سنا ہے کہ تاریخ ہمیشہ لڑکی والے ہی دیتے ہیں لیکن یہ شادی وادی والا سین نہیں، بلکہ حکومت کی بربادی کا مشن ہے۔۔آج صبح آپ کو سارے اخبارات میں اسلام آباد کے حوالے سے ہی خبریں پڑھنے کو ملیں گی اور اگر آج آپ نے اپنی چھٹی خراب کرنی ہے اور غلطی سے ٹی وی بھی کھول بیٹھے ہیں تو ہر نیوز چینل پر اسلام آباد کے ’’روح پرور‘‘ مناظر دیکھنے کو ملیں گی۔۔بریکنگ کے ’’پھٹے‘‘ دھڑادھڑ گھوم رہے ہوں گے۔۔ منٹ منٹ کی خبر اپنے ناظرین تک پہنچانے کی ایک دوڑ لگی ہوگی ۔۔ لیکن ہونا کیا ہے؟؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔۔ان سارے مناظر کو ذہن میں رکھ کر ہمیں تو لیجنڈ گلوکارہ نورجہاں کا ایک پرانا گانا شدت سے یاد آرہا ہے۔۔ لے آئی پھر کہاں پر ، قسمت ہمیں کہاں سے ۔ ۔یہ تو وہی جگہ ہے، گزرے تھے ہم جہاں سے۔۔یہ گانا ہمیں ان دنوں بھی یاد آتا تھا جب ہم لاہور میں قیا م پذیر تھے اور غلطی سے کسی لاہوری سے راستہ پوچھ لیتے تھے پھر اس گانے کو گنگناتے تھے۔۔

ایک بچے نے اپنی ماں سے پوچھا، ممامصری کی ممی اور پاکستانی ممی میں کیا فرق ہے؟؟۔۔ماں نے جواب دیا۔۔بیٹا مصر کی ممی سے بچے ڈرتے ہیں اور پاکستانی ممی سے بچوں کے پپا ڈرتے ہیں۔۔مصر کے لوگ مصر کو ’’ام الدنیا‘‘ یعنی دنیا کی ماں کہتے ہیں۔۔جب ایک پاکستانی نے مصری سے پوچھا گیا کہ،کیا مصردنیا کی ماں ہے؟ اس نے اثبات میں سرہلادیا۔۔اس سے دوبارہ پوچھا گیا،پھر دنیا کا باپ کون ہے؟؟ مصری نے کہا کہ ،مصر ماں اور باپ دونوں ہے۔۔پاکستانی نے کہا،ایسا ہونہیں سکتا کہ ماں اور باپ دونوں ایک ہوں۔۔یہ ٹھیک ہے کہ مصر دنیا کی ماں ہے لیکن باپ کا بھی پتہ ہونا چاہیئے کہ وہ کون ہے؟ پاکستانی نے پھر مصری کو سمجھاتے ہوئے کہاکہ،میری رائے میں اگر مصر دنیا کی ماں ہے تو پاکستان دنیا کا باپ ہے۔۔کیوں کہ مصر کے اہرام تقریبا 5 ہزار سال قدیم ہیں تو پاکستان میں ٹیکسلا کے آثار تقریبا 8 ہزار سال پرانے ہیں اس طرح پاکستان دنیا کا باپ ہوا۔۔

کہتے ہیں کہ ہر آدمی اتنا برا نہیں ہوتا جتنا اس کی بیوی اس کو سمجھتی ہے اور اتنا اچھا بھی نہیں ہوتا جتنا اس کی ماں اس کو سمجھتی ہے۔ہر عورت اتنی بری نہیں ہوتی جتنی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی فوٹو میں نظر آتی ہے اور اتنی اچھی بھی نہیں ہوتی جتنی فیس بک اور واٹس اپ پر نظر آتی ہے۔اکثر میاں بیوی ایک دوسرے سے سچا پیار کرتے ہیں اور۔۔۔سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔۔۔آپ لوگوں نے نوٹ کیا ہوگا کہ جب خواتین کو موٹاپے کی شکایت ہوتی ہے تو پھر وہ ’’ ڈائٹنگ‘‘ شروع کردیتی ہیں اور اس دوران صرف ’’سلاد‘‘ پہ گزاراکرتی ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ، اگر سلاد کھانے سے وزن کم ہوتا تو ایک بھی بھینس موٹی نہ ہوتی۔ ۔اور ہاتھی دنیا کا سب سے ہلکاپھلکا جانور ہوتا۔۔ کچھ شادی شدہ افراد گھر میں بیوی سے ’’ٹھڈے ‘‘کھا کے باہر دوستوں سے کہتے ہیں آج میں بھینس کے پائے کھا کر آیا ہوں۔۔

یہ ہمارا روز کا معمول تھا، پارک میں چہل قدمی کرنے کے دوران عورتوں کے ایک گروپ کو خوب زور زور سے کھلکھلاتے، قہقہہ مارتے، باتیں کرتے دیکھتا بڑا اچھا لگتا کہ کتنی خوش دل اور خوش مزاج عورتیں ہیں۔۔ایک دن معمول کے مطابق پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ ہماری نظر عورتوں کے گروپ پر پڑی، خلافِ معمول سب خاموش بیٹھی تھیں، ہمیں خدشہ ہوا کہ کوئی حادثہ وغیرہ ہوگیا ہے جو یہ سب آج اتنی خاموش اور سنجیدہ بیٹھی ہیں ،پاس جا کر میں نے اِن سے خاموشی کی وجہ پوچھی، ایک عورت نے جواب دیا۔۔آج سب موجود ہیں یہاں۔۔۔بس یہ پانچ لفظی جملہ سمجھنے میںہمیں پورے پانچ منٹ لگے ۔۔آپ کو بھی شاید پہلی بار پڑھنے میں سمجھ نہ آئی ہو، اس واقعہ کو ایک بار پھر پڑھیں۔۔بلکہ اس وقت تک بار بار پڑھیں جب تک سمجھ نہ آجائے۔۔

اک شیخ صاحب کے گھر میں مہمان آیا ۔وہ بھی بہت دور سے، مہمان نے آتے ہی دہشت ناک خبر سنائی کہ چار پانچ دن قیام کرے گا، شیخ صاحب بھاگ کے بازار گئے اور بہت زیادہ عمر کی گائے کا ایک پاؤ گوشت لے آئے، آتے ہی بلند آواز سے بیگم کو بولے ،مہمان کی خاطر میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے، آج بھنڈی گوشت بناؤ، بھنڈی گوشت تیار ہو گیا، لیکن گوشت بہت سخت تھا مہمان سے کھایا نہیں گیا، اس نے بھنڈی کھا لی،، اگلا دن ہوا، تو شیخ صاحب بولے آج آلو گوشت بناؤ مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے، آلو گوشت پک گیا، لیکن گوشت پھر بھی سخت تھا، مہمان نے آلو کھا لئے، اور گوشت ویسے کا ویسا رہا، تیسرے دن، دال گوشت، چوتھے دن پالک گوشت،، پانچواں دن ہوا تو شیخ صاحب بولے بیگم آج مہمان کا آخری دن ہے آج کریلے گوشت بنا لو،، مہمان بے چارہ بھی تنگ آ چکا تھا، غصے سے بولا گوشت کھا کھا کر میں تنگ آ چکا ہوں، آپ خالی کریلے ہی پکا لو۔۔اب اس واقعہ کو سیاست سے مت جوڑ لیجئے گاپلیز۔۔

ایک سردار نے بیٹے سے پوچھا 9 کو 8 سے ضرب دی جائے تو جواب کیا ہوگا۔۔بیٹے نے جواب دیا،ستتر۔۔سردار نے بیٹھے کو تھپکی دی اور ساتھ ہی جیب سے چاکلیٹ نکال کر اس کے ہاتھ پہ رکھ دی۔۔پاس ہی موجود ایک صاحب بولے۔۔جواب تو ’’بہتر‘‘ہے آپ نے انعام کیوں دیا ؟سردار جی بولے یہ بہت تیزی سے بہتر ہو رہا ہے. پچھلی بار اس نے 88 کہا تھا۔۔ایک بار لاہور میں کچھ دوست ایک ریسٹورینٹ پہ گئے۔۔ویٹر آرڈر لینے آیا۔۔دوستوں نے کہا جو مہمان کہے لے آؤ۔۔ویٹرنے مہمان سے مسکراکر پوچھا۔۔کیا لاؤں جناب؟؟۔۔مہمان نے سراٹھا کر کہا دو کلو مٹن کڑاہی، ہلکی کالی مرچ میں، روغنی نان اور ہمدردی کے دو بول۔۔کچھ دیر سارے دوست باتوں میں مگن رہے، اتنے میں ویٹر سارا آرڈر لے آیا۔۔تازہ لگے نان اور کالی مرچ کی کڑاہی کی بھینی بھینی خوشبو نے بھوک اور بھی بڑھا دی تھی،کھانے پر ٹوٹنے ہی والے تھے کہ ویٹر کی آواز نے سکوت توڑا۔۔اور کیا کہا تھا آپ نے۔۔۔مہمان نے دانت نکالتے ہوئے کہا، اور ہاں ۔۔ہمدردی کے دو بول۔۔ ویٹر نے ادھرادھر نظر دوڑائی اور اپنا منہ مہمان کے کان کے پاس کر کے بولا۔۔۔نا کھائیں ۔۔ کھوتا ہے۔۔۔لڑکیاں شادی میں دو پلیٹ بریانی، ایک پلیٹ قورمہ، ایک پلیٹ سیخ کباب، ایک پلیٹ چکن کڑاہی ، دو پلیٹ فیرنی اور کولڈ ڈرنک کے بعد۔۔۔ہائے امی جی پیٹ میں درد ہورہا ہے۔۔امی کا آگے سے جواب آتاہے۔۔کہا بھی تھا مت پہنو لال جوڑا، لگ گئی ناں نظر۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک سرکاری ملازم نے سائیکل خریدی جس کا کیریئر نہیں تھا۔اس نے بیٹے کو دکان بھیجا کہ درست کرالے،جب سائیکل واپس آئی تو اسٹینڈ غائب۔۔دکاندار نے دریافت پربتایاکہ گورنمنٹ کی نوکری میں ایک چیز مل سکتی ہے۔اگر اسٹینڈ لوگے تو کیریئر ختم اور اگر کیریئر بنانا ہے توکبھی اسٹینڈ مت لینا۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں