khusra qanoon | Imran Junior

کی ڑے اور ڈڈو

دوستو، آج تک ہم انسانوں کے حوالے سے لکھتے آئے ہیں لیکن آج ہم آپ سے ان چیزوں سے متعلق کچھ اوٹ پٹانگ گفتگو کریں گے جن سے کراچی اور لاہور والے بے حد تنگ ہیں۔۔جی ہاں، کراچی والے ان دنوں عجیب و غریب کیڑوںسے بیزار ہیں، جنہیں یہاں کے مقامی ’’ کی ڑے ‘‘ کہتے ہیں، جب کہ لاہوری بے چارے ڈڈو المعروف مینڈکوں سے تنگ یا بیزار تو نہیں لیکن اس سے ہونے والی بدنامی سے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔۔ ہم رب تعالیٰ کا کروڑ ہا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ساڑھے تین سال تک لاہور میں قیام پذیر رہے اس دوران پانچ من مینڈکوں کی برآمدگی کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ہمارے کراچی واپس آتے ہی جہاں لاہور میں یہ اسکینڈل سامنے آیا، وہیں کراچی والے اس بات پر شدید ٹینشن کا شکار ہیں کہ ایسے کیڑوں سے کبھی ان کا واسطہ نہیں پڑا ، جس قسم کے کیڑے اچانک ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور سوئی کی طرح چبھن کرکے فرار ہوجاتے ہیں جس کے بعد انسان بے چارہ خارش کرتا ہی رہ جاتا ہے۔۔بس اسی خارش کا سوچ کر ہمیں بھی خارش ہونے لگ گئی کہ آپ سے اس موضوع پر کچھ گفتگو کرلی جائے۔۔ورنہ یہ خارش بڑھ بھی سکتی ہے۔۔ اور کسی بھی چیز کا بڑھنا انسانی زندگی کے لئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔۔

کہتے ہیں کہ جب بغداد پر ہلاکو حملہ آور ہوا تو وہاں کے لوگ علمائے کرام سے یہ فتوے لینے میں لگے ہوئے تھے کہ ، کوا حلال ہے یا حرام؟؟ باباجی نے ماضی کے جھروکے سے پردہ اٹھاتے ہوئے حال ہی میں لاہور میں ہونے والی واردات کو جوڑتے ہوئے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ۔۔لاہوری بھی چپکے چپکے علمائے کرام سے فتوے حاصل کرنے کی کوششیں کررہے ہیں کہ۔۔مینڈک حلال ہے یا حرام؟ لیکن ہمیں کیا؟ ہم نے کون سا کھایا ہے۔۔باباجی ہی فرماندے نے۔۔لاہوری رات دیر تک جاگتے ہیں، کوئی مانے یا مانے یہ الو بھی کھاتے ہونگے۔۔بس کسی چھاپے کا انتظار ہے فی الحال، لگ پتہ جائے گا۔۔باباجی کا کہنا ہے کہ، اصل بات یہ ہے کہ لاہورمیں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہت زبردست ہے، چنانچہ یہاں کھوتا کڑاہی ہویا ڈڈوٹکیاں،اس قسم کی ساری دونمبریاں پکڑی جاتی ہیں، دوسرے شہروں کے احباب لاہوریوں کو جگتیں لگانے کے بجائے اپنی فکر کریں، جہاں ہوتا یہی کچھ ہے لیکن پکڑنے والا کوئی نہیں۔۔جگتوں پر یاد آیا، ڈڈو پکڑے جانے پر وہ لوگ بھی لاہوریوں پر جگتیں ماررہے ہیں جن کا منہ دیکھ کر ڈاکٹرز کہتے ہیں، اینے نہیں بچنا اینوں لاہور لے جاؤ۔۔ہر گھر میں ایک ایسا بچہ ضرورہوتا ہے جس کے متعلق ماں بڑے فخر سے بتاتی پھرتی ہے کہ ،میرا یہ بیٹا ہر چیز صبروشکر سے کھالیتا ہے، لاہور بھی پاکستان کا ویسا ہی بچہ ہے۔۔کیا آپ نے جو بٹیر فرائی کھائے تھے انکی گردنیں تھیں؟ ذرا سوچئے۔۔۔باباجی نے دعویٰ کیا ہے کہ۔۔اگر لاہور سے شوارما کھانے کے بعد۔۔نہانے کو دل کرے،تو پھر سمجھ جاؤ تْوسی ڈڈوکھا بیٹھے ہو۔۔ویسے یہ بات بھی سوفیصد سچائی پر مبنی ہے کہ ۔۔پاکستان میں لاہور واحد شہر ہے جو ہر سال کھانے کی نئی ڈش متعارف کراتا ہے۔۔

ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔اتنے مینڈک تو کبھی بائیولوجی کے پریکٹیکلز میں ذلیل نہیں ہوئے، جتنے لاہور میں ہورہے ہیں ۔۔انہی کا مزید کہنا ہے کہ ۔۔جب ڈڈو نکلتے ہیں فرائی ہوتے ہیں جب زیادہ ڈڈو نکلتے ہیں تو ڈیپ فرائی ہوتے ہیں۔۔ اور زیادہ ڈڈو نکلتے ہیں تو پھر برگرز اور شوارموں میں استعمال ہوتے ہیں۔۔ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ، حیران ہوں کہ دس روپے کا چکن سموسہ کیسے مل جاتا ہے لاہور میں۔۔ اب بھید کھلا ہے۔۔ایک یوتھیئے نے بہت ہی دلچسپ تبصرہ اپنی فیس بک پر شیئر کیا، لکھتے ہیں۔۔جس قوم کو پینتیس سال سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کھوتا، کتا اور مینڈک کھارہے ہیں ان کو ایک سال میں یہ پتہ چل گیا کہ خان ناکام ہوگیا ہے۔۔باباجی کایہ بھی کہنا ہے کہ ۔۔اگر یہ مینڈکوں والے گرفتار نہ ہوتے تو آئندہ اولمپکس میں لانگ جمپ اور ہائی جمپ میںہمارے گولڈ میڈل پکے تھے۔۔جس طرح لاہور نیا اور پرانا ہے، پرانے لاہور کو اندرون لاہور کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔ اسی طرح اب نئے اور پرانے لاہوری بھی ہیں۔۔نئے اور پرانے لاہوریوں میں کچھ خاص فرق نہیں۔۔پرانے لاہوری کھوتاخور تھے اور نئے لاہوری ۔۔ڈڈو خور۔۔پہلے کہاجاتا تھا، جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا نئیں۔۔اب یہ کہاجاسکتا ہے کہ ۔۔جنے ڈڈو نئیں کھادے او جمیا ای نئیں۔۔لاہور میں رہتے ہوئے ہمیں قطعی اندازہ نہیں ہوسکا کہ وہاں لوگ اتنی ’’ٹرٹر‘‘ کیوں کرتے ہیں۔۔یقین نہیں تو آپ کبھی مارکیٹ میں ٹرتے پھرتے نظر آئیں، لوگ ٹرٹر کرتے خود نظر آجائیں گے۔۔باباجی نے قیمتی مشورے سے نوازتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔لاہور جب جاؤ، روزہ رکھ کر جاؤ۔۔

ایک سائنس دان مینڈک پر تجربات کر رہا تھا۔اس نے مینڈک سے کہا، چھلانگ لگاؤ۔۔مینڈک نے اپنی چاروں ٹانگوں کی مدد سے چھلانگ لگادی۔سائنس دان نے اپنی تجربات کی کتاب میں لکھا کہ۔ ۔ مینڈک حکم پر عمل کرنا جانتا ہے۔۔اس کے بعد سائنسدان نے نشتر اٹھایا اور مینڈک کی اگلی دائیں ٹانگ کاٹ ڈالی،پھر مینڈک کو حکم دیا، چھلانگ لگاؤ۔۔مینڈک نے اس بار تین ٹانگوںکی مدد سے چھلانگ لگادی ۔ سائنسدان نے تجربات کی کتاب میں لکھا کہ۔۔اگلی دائیں ٹانگ کاٹنے کے بعد بھی مینڈک حکم پر عمل کرنا جانتا ہے۔۔ اب سائنسدان نے نشتر اٹھایا اور مینڈک کی اگلی بائیں ٹانگ کاٹ دی۔ پھر اس نے مینڈک سے کہا۔۔چھلانگ لگاؤ۔۔مینڈک اپنی پچھلی دونوں ٹانگوں کی مدد سے اچھلنے میں کامیاب رہا۔۔سائنس دان نے کتا ب میں لکھا۔۔اگلی بائیں ٹانگ کاٹنے کے باوجود مینڈک حکم پر عمل کرتا ہے۔۔پھر سائنس دان نے نشتر اٹھایا اور مینڈک کی پچھلی دائیں ٹانگ کاٹ دی اور پھر سے چھلانگ لگانے کا حکم دیا، مینڈک نے بڑی مشکل سے ایک ٹانگ کی مدد سے ہلکی سی چھلانگ لگائی، سائنسدان نے اپنی کتاب میں پھر لکھا کہ۔۔پچھلی دائیں ٹانگ کاٹنے کے بعد بھی مینڈک حکم پر عمل کرتا ہے، آخر میں سائنس دان نے نشتر اٹھایا اور مینڈک کی پچھلی بائیں ٹانگ کاٹ دی۔ پھر اس نے مینڈک سے کہا ، چھلانگ لگاؤ۔۔مینڈک بھلا کیسے چھلانگ لگاتا؟ سائنس دان نے اپنا سر مینڈک کے قریب لے گیا اور زور سے بولا، چھلانگ لگاؤ۔۔مینڈک بے چارہ چھلانگ نہ لگاسکا اور اپنی جگہ پر پڑا رہا۔اس پر سائنس دان نے اپنی تجربات کی کتاب میں لکھا کہ۔۔ جب مینڈک کی پچھلی بائیں ٹانگ کاٹ دی جائے تو اس کی سننے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔۔

اور چلتے چلتے آخر میں کراچی اور پنجاب والوں کو ملیریا اور ڈینگی سے بچنے کا انوکھا فارمولہ پیش کررہے ہیں،آپ لوگوں نے اس پرسنجیدگی سے عمل درآمد کیا تو یقین کریں ،ملیریا اور ڈینگی سے آپ کوسوں دور رہیں گے۔۔ملیریا اور ڈینگی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیڈ کے نیچے سویا کریں، مچھر تو آپ کو بیڈپر تلاش کرے گا، آپ بیڈ پر نہ ہوئے تو مایوس ہوکر چلاجائے گا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں