yahan kursiyan bari log chote hote hein

ابلاغ کے نئے ذرائع۔۔

تحریر: ایازامیر ۔۔

وم جیسی بھی ہو اب مزید بہکاوے میں آنے کی نہیں ۔ قوم کا مسئلہ نہ اسٹیبلشمنٹ ہے نہ ووٹ کی عزت ۔ فی الوقت بیشتر قوم مہنگائی کی وجہ سے ہلکان ہورہی ہے ۔ عام اشیا کی قیمتیں اتنی اڑان نہ کررہی ہوتیں تو فارغ کیے گئے سابق حکمرانوں کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہ ہوتا۔ اس وقت ملک میں جو بھی سیاست ہے وہ مہنگائی کے زور پہ چل رہی ہے ۔ لیکن کیا مہنگائی کا یہ حل ہے کہ ماضی کے حکمران جنہوں نے ملک کا حشر کیا وہ واپس آجائیں؟

ایسے میں ہم جیسے کیا کریں ؟آج کے دور میں ابلاغ کے نئے ذرائع آچکے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کا دور ہے‘ لیکن ہم جیسوں کی عادات پرانی ہیں اورہم پرانے طریقوں کے پجاری ہیں۔ ہم نے صبح اخباربینی کرنا ہے‘ گو کہ آج کی اخبارات میں پڑھنے کو کچھ زیادہ نہیں ملتا۔ کالم نویسی بھی کرنی ہے کیونکہ اور کسی چیز کا ڈھنگ آتا ہی نہیں۔ سیاست بیکار اور بے مزہ ہو بھی جائے تو ہم اس کا پیچھا چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ روزی روٹی کا مسئلہ ہے ۔ میڈیا کا ایک ہی آکسیجن ہے اوروہ ہے سیاست ۔ لیکن جیسے اوپر رونا رویا پاکستانی سیاست اُن ہاتھوں میں آچکی ہے کہ مزدور ی کا مسئلہ نہ ہو تو سیاست پہ تبصرہ کرنے سے ہمیشہ کیلئے توبہ کرلیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آمریتوں میں سیاست زیادہ دلچسپ ہوا کرتی تھی ۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت تھی توجمہوریت کے نعرے اٹھانے میں مزہ آتاتھا۔ پیپلزپارٹی یا ایم آرڈی کے جلسے ہوتے تو اس طرف دوڑے جاتے ۔ ایم آر ڈی کا چھوٹا ساجلسہ لاہور میں ہوتا تو جہاز پکڑکے اسلام آباد سے حاضری دینے جاتے۔ اُس وقت چونکہ مقامی میڈیا آزاد نہیں تھا تو غیرملکی ذرائع ابلاغ کی اہمیت زیادہ تھی ۔ غیر ملکی صحافیوں کو ہم آمریت کے نقصانات گنواتے اوریہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ پاکستان کی ہرمرض کا علاج جمہوریت میں پنہاں ہے ۔

یہی کیفیت جنرل مشرف کے دور میں رہی۔ کیسے کیسے گُن ہم جمہوریت کے گاتے تھے اورکیسے تبرّ ے آمریت پہ کستے۔ یہ اور بات ہے کہ جنر ل مشرف کی آمریت خالص آمریت نہ تھی۔ بہت حد تک پریس جو چاہے لکھ سکتاتھا۔ اور گو آج کے بہادر صحافی ماننے سے ہچکچاتے ہیں پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی اجازت مشرف دور میں ملی تھی۔ یعنی آج کا الیکٹرونک میڈیا اس دور کی پیداوار ہے ۔ اس سے پہلے صحافت کا پیشہ تنگ دامنی کا شکار ہواکرتاتھا۔ کچھ پیسے آئے تو ٹی وی چینلوں کی وجہ سے ۔ جیسا عرض کیا‘ اُن کی اجازت جنرل صاحب کی طرف سے آئی تھی ۔ لیکن پھر بھی جمہوریت کے نعرے لگتے اورہم جیسے جذبات کے مارے سمجھتے کہ ایک تاریخی جدوجہد میں ہم اپنا حقیر حصہ ڈال رہے ہیں۔ وکلا موومنٹ کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ کیا وقت تھا وہ اورکیسے کیسے مُکے ہم جیسے ٹی وی کیمروں کے سامنے لہراتے ۔

یعنی قومی زندگی میں کچھ دلچسپی کچھ تڑپ کچھ جذباتیت تھی ۔ جمہوریت جن ہاتھوں چڑھی انہوں نے ہر جذبے کو برباد کرکے رکھ دیا۔ کیڈٹ کالج پٹارو میں جب آصف علی زرداری زیر تعلیم تھے (حالانکہ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ انہوں نے وہاں پڑھا کیا ہوگا؟)اُن کا کوئی ہم عصر سوچ سکتاتھا کہ یہ صاحب ایک دن صدر ِ پاکستان ہوں گے ؟لیکن یہ انہونی مملکت ِ خداداد میں ہوئی۔ شریف خاندان اقتدار سے ایسے چمٹا رہے گا ‘ یہ بھی کوئی سوچ سکتاتھا؟اورجب قوم ان دو اطراف کے شاہسواروں کو آزماچکی تو نجات دہندہ کے طورپہ کون نمودار ہوتے ہیں؟وہ جن کو قوم اب بھگت رہی ہے ۔ آسمانوں کی مارہے یا ہمارے نصیب ہی ایسے ہیں؟یہ نہیں کہ کوئی اتاتُرک یا صلاح الدین ایوبی آئے لیکن کچھ تو ڈھنگ کی قیادت ہو بیشک اوسط درجے کی۔

ان حالات میں سیاست سے اُکتا نہ جائیں تو کیاکریں۔ دیگر معاشروں میں غم ہوں تو غم مٹانے کے ذرائع بھی میسر ہوتے ہیں۔ یہاں عجیب کیفیت ہے ‘ تباہی پھیلا ئے جاؤ اورغم مٹانے پہ بھی پابند ی درپابندی لگا دو ۔ پابندی لگنی چاہیے تو بے ایمانی پہ۔ ایسا ہوتا نہیں جس کے نتیجے میں بے ایمانی کاراج ہر اطراف دیکھا جاسکتاہے ۔ آوارہ منش لوگ پھر کیا کریں؟پوری تاریخِ انسانی میں ایسے لوگوں کے پاس یہی ذریعہ احتجاج رہا ہے کہ غم مٹانے کی طرف جائیں۔ یہاں اس جستجو کو بھی مشکل بنادیاگیا ہے ۔(بشکریہ دنیا)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں