ghar chalane k liye maa bechna zaroori by muhammad nawaz tahir

گھر چلانے کیلئے ماں بیچنا ضروری ۔؟

تحریر:  محمد نواز طاہر

السلام علیکم ! ۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس۔۔۔ہم لاہور سے بول رہے ہیں ۔۔۔تیرہ اور چودہ اگست سنہ سینتالیس عیسوی کی درمیانی رات۔۔ طلوعِ صبحِ آزادی۔۔۔وہ تاریخی الفاظ جو مصطفی علی ہمدانی نے ادا کئے تھے جنہیں پاکستان کے قیام کا پہلا سرکاری اعلان قراردیا جاتا ہے ۔ یعنی پاکستان کی باقعدہ عمل میں آجانے کا پہلا باضابطہ اعلان ، اگرچہ یہی اعلان اردو اور پشتو دونوں زبانوں میں ریڈیو پشاور سے بھی کیا گیا تھا لیکن دستیاب تاریخی اوراق میں مصطفی علی ہمدانی کا اعزاز ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس وقت یہ بحث مقصود نہیں، بلکہ یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ریڈیو پاکستان کو ریاست کے ابتدائی اداروں کی حیثیت حاصل ہے ۔

پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک ریڈیو پاکستان ملی مقاصد کے ساتھ ساتھ مختلف حکومتوں نے ذاتی مقاصد کیلئے بھی بھر پور استعمال کیا اور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بعض حکومتوں نے اس ادارے کو عضوِ معطل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔جمہوری حکومتوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام قابلِ تحسین ہے لیکن انہی کی جماعت کے آخری دورِ اقتدار میں اس پر ایسے تجربات کیے گئے جو ریڈیو کی ترقی کے برعکس اور اس ادارے کی روایات کے منافی تھی یعنی دامادِ بھٹو کی صدارت اور ان کے منظورِ نظر( ضیاء الحق کی کابینہ کے رکن )  یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ میں تعینات کیے جانے والے ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی نے لاہور سے میڈیم ویوز کی نشریات بند کرکے بھارت میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ مدتوں سے جُڑے سامعین کا رابطہ توڑ دیا ، کچھ عرصے کے بعد یہ نشریات بحال کردی گئیں ۔نشریات کی بحالی کا علم کتنے سامعین کو ہو سکا اور کتنے یہ اطلاع نہ پاسکے اور دلبرداشتہ ہی رہے یہ کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔

مسلم لیگ ن کی حکومت میں لاہور میں مناواں کے مقام پر ریڈیو پاکستان کی وہ اراضی ریڈیو سے چھین لی گئی جہاں پر بھارتی فوج نے  انیس سو پینسٹھ میں حملے کے وقت قبضے کی کوشش کی تھی ، یہاں پاور فل ٹرانسمیشن سسٹم تھا جہاں سے ریڈیو پاکستان کی نشریات بھارت میں سنی جاتی تھیں ۔اس مقام پر پنجاب حکومت نے ہسپتال تعمیر کردیا جبکہ ہسپتال بنانے کیلئے صوبائی حکومت کے پاس اس علاقے میں موزوں جگہ کی کمی بھی نہیں تھی ۔ریڈیو کا یہ ٹرانسمیٹر کچھ عرصے تک ایک کنٹینر پر جگہ جگہ گھومتا رہا ، سنا ہے کہ ن لیگ کی حکومت ختم ہونے سے پہلے اس ٹرانسمیشن سسٹم کیلئے دوچار کنال اراضی الات کی گئی ہے یا ایسا وعدہ کیا گیا تھا۔

اب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت بنی ہے تو اس نے بھی سب سے پہلا وار ریڈیو پر ہی کیا ہے اور اسلام آباد میں اس کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت لیز پر دینے کا فیصلہ سنادیاگیا ہے ۔معلوم نہیں ریڈیو پاکستان پر کس کی نظر ہے ؟ یہ سوچنے کی بات ہے ؟ حکومت پہلے اپنے اشاعتی ادارے نیشنل پریس ٹرسٹ کا گلا بھی گھونٹ چکی  ، اس کے کارکنوں کے ساتھ جو ہوا ؟ وہ عدالتوں میں پڑی فائلوں اور حق رسی کی کوشش میں یہ دنیا چھوڑ جانے والوں کی قبروں سے پوچھا جاسکتا ہے ، اب ریڈیو کیوں نشانے پر ہےْ ؟ یہ سوال صرف تحریکِ انصاف کی حکومت ہی نہیں بلکہ اس وقت اپوزیشن میں بیٹھی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن سے بھی ہے اور قوم کو پوچھنا چاہیئے ، کوئی ایک منتخب نمائندہ تو ایسا ہو ہی سکتا ہے جو قومی اسمبلی یا سینیٹ میں حکومت سے باقاعدہ جواب طلب کرے یا پھر اس کیلئے عدالت سے رجوع کیا جائے ؟ یہ مفادِ عامہ کا معاملہ ہے جس پر ملک کی سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہئے لیکن اگر سپریم کورٹ اس پر ازخود نوٹس نہیں لیتی تو عام شہری مجبوراً عدالت کی طرف جائیں گے ، معلوم نہیں کہ عدالت کا رویہ کیا ہوگا ؟ عدالت اس معاملہ کو ڈیم جیسی اہمیت دیتی ہے یا نہیں جبکہ ڈیم تو ایک منصوبہ ہے اور ریڈیو پاکستان پورا ادارہ ہے جو بتدریج بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، پہلی حکومتوں نے ابتداء لاہور سے کی تو موجودہ حکومت نے سیدھا ہیڈ کوارٹرز پر ہی ہاتھ ڈال دیا ہے ،۔ ا اطلاعات و نشریات کے وزیر یہ کہتے ہیں کہ ہیڈ کوارٹرزکو پاکستان براڈ کاسٹنگ اکیدیمی (پی بی اے ) میں شفٹ کردیا جائے گا جبکہ پی بی اے کی عمارت اور اس میں افراد کے سمانے کی گنجائش دیکھی جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہاں ہیڈ کوارٹرز کے

ملازمین کی حاضری لگا ئی جاسکتی ہے ، ریڈیو پاکستان ہیڈ کوارٹرز میں نصب بھاری مالیت کی مشینری و آلات کہاں جائیں گے ؟ کیا حکومت میں موجود لوگ صرف اتنا ادراک رکھتے ہیں کہ دنیا کی بتیس زبانوں میں نشریات والے ادارے کو محض ایف ایم ریڈیو کی طرح چلایا جاسکتا ہے ؟ جس کسی نے بھی اس مشورے کو بنیاد بنایا ہے یا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے وہ یقیناً تعلیمِ بالغاں کی ابتدائی کلاس میں ہے یا دوسروں کو ایسا سمجھتا ہے ۔

صاف نظر آرہا ہے کہ اصل ایجنڈا ریڈیو پاکستان کو عضوِ معطل بنایا یا اس مرحلہ وار اس کی بندش ہے ، اس ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے پہلے ملازمین کو وہاں سے شفٹ کیا جائے گا اور پھر جبری یا رضا کارانہ ریٹائرمنٹ کا دور شروع ہوگا ، مزید سٹاف بھرتی نہیں کیا جائے گا اور یوں یہ ادارہ سسکیاں اور ہچکیاں لیتا اپنی سانس بند کرلے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے عوام ایسا ہونے دیں گے ؟کیا افواجِ پاکستان ریڈیو پاکستان کی نشریات کو فراموش کرچکی ہیں ؟ اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو کیا ایک دن دفاع بھی فراموش کرکے صرف ڈی ایچ اے اور عسکری اپارٹمنٹ بنانے پر ہی توجہ رکھیں گی؟ اور ہھر جب ریڈیو بند ہوجائے گا تو اگلا نشانہ پاکستان ٹیلی ویژن ہوگا ؟ جب کوئی اسے بھی فتح کرلے گا تو پھر کیا کرے گا ؟ کیا مال مویشی ، زمین اور’ ’بھانڈے ٹینڈے ‘‘ بِکنے کے بعد گھر کے افراد کو لیز آؤٹ کرنے کی باری آئے گی جن میں صرف مرد ہی نہیں ماں،بہن بیٹی اور بیوی بھی شامل ہونگی ؟

ریاست ماں ہوتی ہے ، اس کی اثاثے قومی ہوتے ہیں اثاثوں پر ہمیشہ چور لٹیرروں اور دشمنوں کی نظر ہوتی ہے گھر چلانے کے ذمہ دار کبھی اپنے زیر کفالت اوربھی وہ جو اپنا پیٹ کاٹ کر ذمہ داران کا حقہ پانی پورا کرتے ہوں ، کے اثاثے بیچا نہیں کرتے ان کا تحفظ کرتے ہیں ، یہ بات حکومت میں موجود کسی کو تو سمجھنا چاہئے ۔۔۔۔(محمد نوازطاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں