DG khan Press Club pr Siyasi Jamat ka Raaj

ڈیرہ اسماعیل خان پریس کلب  پر سیاسی جماعت کا راج۔۔

(خصوصی رپورٹ)

ڈیرہ پریس کلب پچھلے 40 سالوں سے ایک سیاسی مذہبی جماعت کے زیر تسلط چلا آ رہا ہے اور زیادہ تر ممبران سرکاری ملازمین یا دکاندار حضرات ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کا وزیر اعظم ہو یا صوبائی وزراء اعلی یا کسی اور شخصیت کا دورہ ڈیرہ تو پریس بریفنگ کا اہتمام ہمیشہ نجی ہوٹل یا سرکٹ ہائوس میں کیا جاتا ہے کیونکہ ورکنگ جرنلسٹس پر ڈیرہ پریس کلب میں داخلے پر کبھی اعلانیہ تو کبھی غیر اعلانیہ پابندیاں لگا دی جاتی ہیں تاہم یہ روش جیسے تیسے ہمیشہ سے چلی آ رہی تھی تاہم دو ماہ قبل جے یو آئی کی جانب سے شہر میں ہونے والے ملین مارچ کے موقع پر روزمرہ رپورٹنگ کرنے پر مقامی ویب ٹی وی چینلز اور نیشنل میڈیا کے نمائندوں کے خلاف جمعیت کے ضلعی جنرل سیکرٹری احمد خان کامرانی جو کہ ضلع ممبر بھی ہیں اور ڈیرہ پریس کلب کے صدر بھی انہوں نے صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پر مبنی خبریں اور پوسٹس دینا شروع کر دیں اگرچہ مقامی سیاستدانوں اور شہریوں کی طرف سے اس پر شدید تنقید کی گئی اور مقامی صحافیوں نے اسی حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جرنلسٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دی اور جمعیت کے ضلعی عہدیدار اور پریس کلب کے صدر احمد خان کامرانی سے سوشل میڈیا پر دیئے گئے اس کے مذہبی منافرت پر مشتمل بیان کو ہٹانے اور اس کی تردید کا مطالبہ کیا جس کے لئے عامل صحافیوں نے پریس کلب کے باہر ایک پرامن احتجاج کیا مگر معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید بگڑ گیا اور پریس کلب کے ممبران نے احتجاج کرنے والے صحافیوں کے پریس کلب میں داخلے پر پابندی لگا دی جس کے جواب میں ورکنگ جرنلسٹس نے پریس کلب کے باہر ہفتہ وار احتجاج کا اعلان کیا اور آج تیسرا احتجاج ریکارڈ کرایا اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور انہیں مطالبات پیش کئے گئے ہیں آج ہونے والے ورکنگ جرنلسٹس کے احتجاج میں جرنلسٹ ایکشن کمیٹی کے کوآرڈینیٹر نصرت گنڈا پور نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ایک نکاتی ایجنڈا ہے اور وہ پریس کلب کی ممبر شپ تمام ورکنگ جرنلسٹس کے لئے کھولنے کی ہے اس ضمن میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان، صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی اور محکمہ اطلاعات کے افسران کو بھی خطوط ارسال کئے جا چکے ہیں اور عالمی یوم خواتین کے موقع پر ڈیرہ اسماعیل خان کی خواتین رپورٹرز بھی احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئیں احتجاج کرنے والوں میں اکثریت ایسے صحافیوں کی ہے جنہوں نے جرنلزم میں ماسٹر کر رکھا ہے اور پچھلے کئی سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں جب کہ دوسری طرف ڈیرہ پریس کلب میں ایسے صحافیوں کی بھرمار ہے جو خبر تک بنانے کی قابلیت نہیں رکھتے اور ڈمی اخبارات سے منسلک ہیں دوسری طرف پریس کلب انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ممبر شپ کسی کو نہیں دی جا سکتی مگر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پریس کلب میں کی جانے والی ترامیم کی آئینی طور پر متعلقہ محکمہ جات کی بجائے ایک رجسٹر میں اندراج کر لیا جاتا ہے اور ڈیرہ پریس کلب میں پچھلے 20 سالوں میں الیکشن کی بجائے صرف ایک اجلاس کر کے صدر اور جنرل سیکرٹری کا اعلان کر دیا جاتا ہے جو کہ ملک کے کسی بھی پریس کلب میں پریکٹس نہیں کیا جاتا۔۔

(ڈیرہ اسماعیل خان پریس کلب کے صدراحمد خان کامرانی سے باوجود کوشش کوئی رابطہ نہ ہوسکا، اگر وہ اس سلسلے میں اپنا کوئی موقف دینا چاہیں تو ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے، علی عمران جونیئر)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں