khusra qanoon | Imran Junior

بہرے۔۔کاہل

کالم : علی عمران جونیئر

دوستو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے نوجوان نسل کے متحرک ہونے کے حوالے سے دنیا کی درجہ بندی سامنے آ گئی ہے اور آپ کو یہ سن کر افسوس ہو گا کہ پاکستان کو اس فہرست میں سست ترین اقوام میں شمار کیا گیا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق اس فہرست میں بنگلہ دیش پہلے نمبر پر آیا ہے جہاں کے نوجوان دنیا میں سب سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں 66.1فیصد بچے دن میں ایک گھنٹے سے کم متحرک ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر سلواکیہ میں یہ شرح 71.5فیصد، تیسرے نمبر پر آئرلینڈ میں 71.8فیصد، چوتھے نمبر پر امریکہ میں 72فیصد، پانچویں نمبر پر بلغاریہ میں 73.3فیصد، چھٹے نمبر پر البانیا میں 73.9فیصد، ساتویں نمبر پر بھارت میں 73.9فیصد، آٹھویں نمبر ر گرین لینڈ میں 73.9فیصد، نویں نمبر پر فن لینڈ میں 75.4فیصد اور دسویں نمبر پر یورپی ملک مالدووا میں 75.7فیصد بچے دن میں ایک گھنٹہ یا اس سے کم متحرک ہوتے ہیں۔دنیا میں سست ترین بچے جنوبی کوریا میں ہوتے ہیں جہاں 94.2فیصد بچے دن میں ایک گھنٹہ یا اس سے کم متحرک ہوتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے بعد بالترتیب فلپائن، کمبوڈیا، سوڈان، تیمر لیسٹ، زیمبیا، آسٹریلیا، وینزویلا، نیوزی لینڈ اور اٹلی کی نوجوان نسل سب سے زیادہ سست پائی گئی۔ پاکستان اس 146ممالک کی فہرست میں 118ویں نمبر پرآتا ہے جہاں 86.9فیصد بچے دن میں بمشکل ایک گھنٹے تک متحرک رہتے ہیں، یعنی پاکستانی نوجوان نسل بھی دنیا کی انتہائی سست ترین نوجوان نسلوں میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں نوجوان نسل کے اس قدر سست ہوجانے کی وجہ مکنہ طور پر موبائل فونز اور انٹرنیٹ ہیں۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے اگر سستی اور کاہلی کے فرق کو سمجھ لیا جائے تو مناسب ہوگا۔ کاہلی اور سستی کو عموماً ہم معنی الفاظ سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ کاہلی سے مراد کسی کام کی مطلوبہ مشقت سے بچنے کی عادت کے ہیں، یعنی کاہل انسان کام کی مشقت کو اٹھانا ہی نہیں چاہتا۔ جبکہ سستی سے مراد کسی کام کو آہستہ اور دھیمی رفتار سے کرنے کے ہیں۔ یعنی سست انسان کام تو کرتا ہے لیکن اس رفتار پر جو اس کیلیے سہل ہو۔ اسی لیے لفظ سستی کے ساتھ سست روی اور سست پیمائی کا لفظ بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔سْستی اگرچہ عمومی طور ایک منفی رویّے کے طور پر جانی جاتی ہے لیکن فنی اور جدت طرازی کے کاموں کیلیے ایک نہایت مؤثر حکمت عملی کا درجہ رکھتی ہے۔ ۔ہم بچپن میں جب سمندر اور دریاؤں کے نام کا رٹا لگاتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں اور امتحان میں نمبر بھی اچھے مل سکیں تو ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم ’’بحرالکاہل‘‘ کو ۔۔ بہرے ۔کاہل بولتے تھے۔۔ٹیچر نے کئی بار ہماری غلطی درست کرنے کی کوشش کی،لیکن بولنے میں ’’ بہرے کاہل‘‘ ہی زبان سے نکلتا مگر لکھنے میں کبھی غلطی نہیں کرتے تھے، چنانچہ ٹیچر نے بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا۔۔لیکن اب جاکر اندازہ ہوا کہ ہم بچپن میں کتنے ’’سچے‘‘ تھے۔۔یہ قوم بہری بھی ہے اور کاہل بھی۔۔ والدین اپنے اولاد سے نالاں ہیں کہ اولاد ماں باپ کی سنتی ہی نہیں۔۔شوہر بیویوں سے اور بیویاں شوہروں سے پریشان کہ کوئی کسی کی سنتا ہی نہیں۔۔اساتذہ طلباکے بارے میں فکرمند کہ مستقبل کے معمار کسی کی سنتے ہی نہیں۔۔ یہ سلسلہ الحمدللہ جاری و ساری ہے۔۔جس کے مستقل قریب تو کیا مستقبل بعید میں بھی رکنے کا کوئی امکان نہیں۔۔

معروف انشائیہ نگار ابن انشا اپنے ایک مضمون میں کاہلی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔۔۔ ہم مشرقیوں کے ہاتھ میں آ کر تو خیر ہر اچھی چیز خراب ہوجاتی ہے حتٰی کہ کاہلی بھی۔ لوگوں نے افینیوں کے لطیفے گھڑ لیے ہیں کہ ایک شخص بیچ رستے میں پاؤں پھیلائے پڑا تھا۔ ایک گاڑی بان اس راستے آیا تو اس نے آواز دی۔اے پوستی اٹھ ورنہ ابھی تیری۔۔۔۔ٹانگیں کچلی جائیں گی۔ اس نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا وہاں اسے جوتا نظر نہ آیا جو گھر سے پہن کر چلا تھا کیونکہ سوتے میں کسی نے اتار لیا تھا۔ مطمئن ہوکر اس نے گاڑی بان سے کہا ۔۔گزار دے گاڑی! یہ میری ٹانگیں نہیں ہیں۔ملاحظہ فرمائیے! کتنا فضول لطیفہ ہے۔ جو سنے گا کاہلوں کے متعلق ہرگز اچھی رائے قائم نہ کرے گا۔ اس کے مقابلے مین اہلِ مغرب نے اس سے جو شاندار فائدے اٹھائے ہیں ان کا ذکر سنیے۔ اگر نیوٹن کاہل نہ ہوتا بینچ پر اپنے آپ میں مگن بیٹھا نہ رہتا تو آج کششِ ثقل کا راز کیسے معلوم ہوتا؟ ہوا یوں کے درخت سے سیب گرا۔ کوئی اور ہوتا تو جیب میں ڈال کر لمبا ہوتا۔ کھانے کے بعد کھاتا اور ڈاکٹر کو بھگاتا۔ یہ اپنی جگہ سے مارے کاہلی کے اٹھے ہی نہیں۔ بس سوچتے رہے کہ یہ سیب کیوں گرا۔ سوچتے سوچتے کشش ثقل دریافت کر لی۔ یہی جیمز واٹ نے کیا۔ کیتلی کے پاس بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ بھاپ سے ڈھکن جو ہلنے لگا تو بجائے اس کے کہ کوئی بوجھ اس پر رکھ کر اچھی طرح دبا دیتا کیونکہ ایسا واقعہ کیتلی کا سرپوش ہلنے کا دنیا میں پہلی بار نہ ہوا تھا تو آج ہم یونہی چنگے بیٹھے ہوتے۔ یہ ریل ویل یہ انجن ونجن کچھ بھی نہ ہوتے۔ عورتیں آٹا تک ہاتھ کی چکی سے پیستیں۔ ان کو کاہلی یا دیگر موضوعات پر لکھنے کی فرصت ہی نہ ملتی۔۔

ایک دفعہ کاہلوں اور سست مزاجوں کی عالمی کانفرنس ہوتی ہے تاکہ وہ اپنا اگلا صدر ایسے شخص کو منتخب کر سکیں، جو دنیا کا سب سے زیادہ کاہل اور سست انسان ہو۔خیر کانفرنس شروع ہوئی۔ ہر ملک سے ایک ایک امیدوار اس میں حصہ لیتا ہے اور اپنی باری پر سٹیج پر جا کر اپنے حق میں تقریر کرتا ہے اور اپنی کاہلی اور سستی کے واقعات سنا رہا ہوتا ہے۔سب سے آخر میں پاکستانی نمائندے کی باری آتی ہے۔ وہ سٹیج پر جا کر اپنی سستی کے واقعات سناتا ہے کہ پورا ہجوم اْس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ قریب ہوتا ہے کہ لوگ اْسے اپنا صدر متخب کر لیں، کہ انڈیا کا نمائندہ اْس کی تقریر کاٹتے ہوئے چیختا ہے۔۔ اوئے، یہ پاکستانی جھوٹ بول رہا ہے۔ بہت سے لوگ اس کے گواہ ہیں کہ یہ ایک دفعہ 85 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا۔ اوئے، جو اتنی تیز گاڑی چلائے، وہ ہم سستوں اور کاہلوں کا صدر کیسے ہو سکتا ہے؟؟یہ بات سن کر سب لوگ پاکستانی امیدوار کے خلاف ہوگئے۔پاکستانی امیدوار قطعی پریشان نہیں ہوا،صفائی پیش کرنے کی اجازت مانگی اور کہنے لگا۔۔یہ واقعہ بالکل سچا ہے کہ میں 85 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا۔ مگر اس وجہ یہ ہے کہ شروع میں میں بہت ہی آہستہ رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا، مگر یہ کہ پاکستانی سڑکیں بہت خراب ہیں، اور بیچ میں ایک اتنا بڑا گڑھا آیا کہ میرا پاؤں ایکسلیٹر پر دب گیا اور گاڑی تیز ہو گئی۔ اور میں نے سوچا کہ اب کون ایکسلیٹر پر سے پاؤں ہٹائے تو میں نے کہا اسے ایسے ہی جانے دو۔۔ یہ صفائی سن کر عالمی کاہل برادری نے پاکستانی امیدوار کو تاحیات اپنا صدر منتخب کر لیا۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں