aik tabah saath | Imran Junior

“آسیہ” کپ

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو،ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ بچپن میں ہم جب بھی انگریزی کا مضمون پڑھتے تھے تو جب براعظموں کے نام آتے، ہم ’’ایشیا‘‘ کی اسپیلنگ کو ہمیشہ ’’آسیہ‘‘ ہی پڑھتے تھے، ہماری ٹیچر نے کئی بار ہمیں اس حوالے سے ٹوکا بھی ۔۔جس کے جواب میں ہر بار ہم نے کہا۔۔پھر آسیہ کی اسپیلنگ کیا ہوگی؟؟ آج متحدہ عرب امارات میں ایشیا کپ کا فائنل ہے، شام سے ملک بھر میں بڑی اسکرینیں لگ جائیں گی، صبح سے ٹی وی چینلز پر کرکٹ،کرکٹ کی رٹ لگ جائے گی۔۔ سری لنکا اگر مدمقابل نہ ہوتا تو سمجھ لیجئے کہ آج کفر و اسلام کا معرکہ ہونے والا تھا کیوں کہ پھر سری لنکا کی جگہ بھارت مقابلے پر ہوتا، اور بھارت سے تو ویسے بھی ہماری بنتی نہیں۔۔جب سے پی ایس ایل شروع ہوئی ہے نیا ٹیلنٹ تیزی سے سامنے آنے لگا ہے۔۔ جب پی ایس ایل نئی نئی آئی تھی تو۔۔ کسی نے اسے پاکستان سیلفی لیگ کہا۔۔۔ توکوئی اسے پاکستان سیٹھی لیگ کہتا رہا۔۔۔ لیکن ہمیں تو یہ قطعی سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان سپر لیگ تھی تو پھر عرب امارات میں کیوں ہوئی؟؟۔۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کا نام ” عرب لیگ” بھی نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔۔ ویسے اس لیگ سے کسی کو فائدہ ہوا یا نہیں۔۔ ہمارے کرکٹرز کو ضرور فائدہ ہوا۔۔ غیرملکی کرکٹرز کے ساتھ کھیل کر کافی تجربات حاصل کیے۔۔ پیسہ بھی کمایا۔۔ نام بھی بنایا۔۔اور سٹہ بازوں کے شکنجے سے بھی آزاد ہوگئے۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔بندہ چاہے کرکٹ کا جتنا بھی اچھا پلیئر کیوں نہ ہو، کمبل وچ وڑیا مچھر نہیں پھڑ سکتا۔۔کرکٹ کے شوقین ہمارے دوست کے امتحانات ہورہے تھے اور المیہ یہ تھا کہ ورلڈ کپ کے میچز بھی ٹی وی پر آرہے تھے، پیپرز کے دنوں میں والدین نے سختی کی ہوئی تھی کہ خبردار،ٹی وی دیکھنا صحت کے لیے مضر ہے۔۔ ایک دن انہوں نے ہمت کرکے اپنی والدہ محترمہ سے پوچھ ہی لیا۔۔امی جان، پڑھ پڑھ کر تھک گیا ہوں، تھوڑی دیر ٹی وی دیکھ لوں۔۔امی نے جواب دیا۔۔دیکھ لو، لیکن ’’آن‘‘ نہیں کرنا۔۔کرکٹ ٹیسٹ میچ ہو رہا تھا اسٹیڈیم کے گیٹ پر ایک لڑکا پاس دکھا کر اندر جانے لگا تو گیٹ کیپر نے کہا ۔۔یہ تمہارا پاس تو نہیں ہے۔۔ لڑکے نے جواب دیا۔۔یہ میرے والد صاحب کا ہے۔۔ گیٹ کیپر نے پوچھا۔۔تو پھر والد صاحب کیوں نہیں آئے؟؟۔۔۔ لڑکے نے جواب دیا۔۔وہ بہت مصروف ہیں۔۔ گیٹ کیپر نے پوچھا۔۔کہاں مصروف ہیں؟ وہ کیا کر رہے ہیں؟ بچے نے جواب دیا۔۔’’وہ گھر پر اپنا پاس تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی اپنی کتاب چراغ تلے کے ایک مضمون کرکٹ میں رقم طراز ہیں کہ۔۔مرزا عبد الودود بیگ کا دعویٰ کچھ ایسا غلط معلوم نہیں ہوتا کہ کرکٹ بڑی تیزی سے ہمارا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ قومی کھیل سے غالباً ان کی مراد ایسا کھیل ہے جسے دوسری قومیں نہیں کھیلتیں۔ ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی برائی کرنے کا حق نہیں۔ اب اگر کسی شخص کو کتے نے نہیں کاٹا، تو کیا اس بد نصیب کو کتوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجئے۔ افیم کی برائی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو افیم نہیں کھاتے۔ افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ برائی کرنا تو بڑی بات ہے ہم نے کچھ بھی تو کرتے نہیں دیکھا۔ مرزا کو کرکٹ سے کتنی دلچسپی اور اس کی باریکیوں سے کس حد تک واقفیت ہے، ہمیں اس کا تھوڑابہت اندازہ پانچ سال قبل ہوا۔ ٹسٹ کا چوتھا دن تھا اور ایک سلو بالر بولنگ کر رہا تھا۔ اس کی کلائی ایک ادنیٰ اشارے، انگلیوں کی ایک خفیف سی حرکت پر گیند ناچ ناچ اٹھتی اور تماشائی ہر گیند پر کرسیوں سے اٹھ اٹھ کر داد دیتے اور داد دے کر باری باری ایک دوسرے کی گود میں بیٹھ جاتے۔ ہمارے پاس ہی ایک میم کے پیچھے کرسی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا بوڑھا پارسی تک، اپنے پوپلے منہ سے سیٹی بجا بجا کر بولر کا دل بڑھا رہا تھا۔ ادھر اسٹیڈیم کے باہر درختوں کی پھننگوں سے لٹکے ہوئے شائقین ہاتھ چھوڑ چھوڑ کر تالیاں بجاتے اور کپڑے جھاڑ کر پھر درختوں پر چڑھ جاتے تھے۔ ہر شخص کی نظریں گیند پر گڑی ہوئی تھیں۔ ایک بارگی بڑے زور سے تالیاں بجنے لگیں۔ ’’ہائے! بڑے غضب کی گگلی ہے!‘‘ ہم نے جوش سے مرزا کا ہاتھ دبا کر کہا۔ ’’نہیں یار! مدراسن ہے!‘‘ مرزا نے دانت بھینچ کر جواب دیا۔ ہم نے پلٹ کر دیکھا تو مرزا ہی کی رائے صحیح نکلی، بلکہ بہت خوب نکلی۔ شوہر نے بیوی کے سامنے بے تحاشا قہقہے لگاتے ہوئے کہا۔۔اپنے حمید صاحب کی بیگم بھی خوب ہیں۔۔ہم کرکٹ کے کوچ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔۔ہماری گفتگو سن کر وہ یہ سمجھیں کہ کوچ کے چار پہیے ہوتے ہیں۔؟یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر قہقہے لگانے لگے۔۔ان کی بیوی بھی قہقہے لگانے میں شریک ہو گئیں۔۔دونوں میاں بیوی جب دل کھول کر ہنس چکے تو بیوی نے سرگوشی کے انداز میں شوہر سے پوچھا۔۔ اچھا تو کرکٹ کے کوچ میں کتنے پہیے ہوتے ہیں۔بالی ووڈ کے سپراسٹار امیتابھ بچن ان مشہور شخصیات میں سے ایک ہیں جو سوشل میڈیا پر مستقل طور پر سرگرم رہتے ہیں اور اکثر مضحکہ خیز نظموں اور لطیفوں کے ساتھ اپنے فینز کو تفریح بھی فراہم کرتے ہیں۔بگ بی نے بالی ووڈ اداکارہ انوشکا شرما اور ان کے شوہر ویرات کوہلی کے بارے میں ایک لطیفہ شیئر کیا۔امیتابھ نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ۔۔انوشکا اور ویرات کے تمام احترام کے ساتھ۔۔۔کسی نے کہا۔۔ انوشکا کا ایک بہت بڑا اپارٹمنٹ ہے!جواب ملا، انوشکا کے پاس ویرات کوہلی ہے!”امیتابھ کی نظر میں یہ بہت ہی دلچسپ لطیفہ ہے اور سوشل میڈیا صارفین بگ بی کے اس حس مزاح کی تعریف کر رہے ہیں۔۔جب کہ ہم یہی سوچتے رہ گئے کہ اس میں ہنسنے والی بات کہاں ہے؟؟ اپنے لیجنڈ فاسٹ بالر وسیم اکرم بھی خوش مزاج جگت باز اور لطیفہ گو انسان ہے۔نہایت برجستہ اور موقع محل کے مطابق لطیفہ سنانے اور لا جواب بات کرنے میں ماہر ہے۔ایک بار یہ لوگ نیویارک جارہے تھے۔عمران خان کی موجودگی میں وسیم اکرم ہمیشہ کم بولتا تھا۔اس روز عمران خان ساتھ نہیں تھے۔لہٰذا وسیم اکرم کو ڈھیل مل گئی تھی۔استاد نصرت فتح علی خان بھی ہم سفر تھے۔وسیم اکرم کے لطیفوں نے محفل گرما دی تھی۔وہ بار بار میراثیوں کے لطیفے سنا رہے تھے۔استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ ان کا منیجر اقبال بھی تھا۔ وہ وسیم اکرم کے لطیفے سن کر پریشان ہو گیا اور لڑکھڑاتی آواز میں اس نے ا ستاد نصرت فتح علی خان سے کہا۔۔خان صاحب وسیم صاحب کو منع کریں جی۔یہ بار بار ہماری برادری کے لطیفے سنا رہے ہیں۔۔لیجنڈ سنگر خان صاحب نے ہنستے ہوئے اقبال کو سمجھایا۔۔یار تو خاموش بیٹھا رہ۔تجھے ایکسپوز ہونے کی کیا ضرورت ہے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔امریکی ریاست ٹیکساس کے رہنے والے مزاحیہ اداکار اور رائٹر’’ رون وائٹ‘‘ لکھتا ہے کہ۔۔اگر آپ کی زندگی کسی لیموں کی طرح ترش ہوچکی ہے تو آپ کو چاہیئے کہ کسی ایسے شخص کو دوست بنالو جس کی زندگی چینی جیسی مٹھاس والی ہو،تاکہ آپ دونوں کی زندگی شکنجبین جیسی خوش گوار گزرے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں