Nadir Shah Adil

آؤ کہ جشن مرگ صحافت منائیں۔۔

تحریر: نادرشاہ عادل

وہ فون کال رات کے وقت لیاری سے آئی تھی ۔ خبریں سن رہا تھا ، ایک شخص نے صرف اتنا کہا کہ ’’شاہ جی! بول رہے ہیں‘‘ میں نے جواب دیا ’’ جی، بول رہا ہوں‘‘ کہنے لگے ’’بے نام سا آدمی ہوں ، مگر آپ سے دل کی باتیں کہنا اورکچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔

وقت ہے تو سن لیجیے ‘‘ میں نے شناخت پر اصرار بھی نہیں کیا، کیونکہ میرے تجربے میں سیکڑوں ایسے لوگ آئے ہیں جنھیں لیاری کے مخمل میں ٹاٹ کے پیوند سے بھی کم عزت ملی، مگر اس آواز نے چونکا دیا، اس شخص نے صاف گوئی اور فیض صاحب جیسے دھیمے لہجے میں میری صحافت جھنجوڑ کر رکھ دی، میں مجبور ہوا یہ کہنے پر کہ ’’ آئوکہ جشن ِ مرگ ِصحافت منائیں ہم۔‘‘ اس بے چہرہ آدمی نے عالمی اور ملکی تاریخ، سیاست، معیشت ،ادب ، فنون لطیفہ اور مذہب پر سوالات کیے اور اپنے استدلال کے دریا بہا دیے۔

اتنا مجھے یقین تھا کہ وہ شخص لیاری کا ۰ اکبر جلال نہ تھا۔ بھائی لاشاری نہ تھے، ن م دانش کا کوئی میڈ از ٹچ نوجوان ہوگا جسے معلوم تھا کہ اس گفتگو کے لیے بہترین ٹارگٹ شاہ جی ہی ہوسکتے ہیں ۔ یہ تین مرحلوں پر مشتمل گفتگو تھی، میں نے شستہ و بے ساختہ ابلاغ کے اس بار بار ٹوٹتے ہوئے مواصلاتی تجربہ کے دوران ’’وہ کہے اور سنا کرے کوئی‘‘ فارمولے پر مکمل عمل کیا جو میرے علم میں بے حد اضافہ کا سبب بنا ۔

وہ شخص خود شیکسپئیر نہ تھا، مارلن برانڈو ، مائیکل جیکسن، والٹیئر ، ایڈمنڈ برک بھی نہ تھا، مگر اس کی گفتگو کا لب لباب ایک پیاس کی تڑپ سے مشابہ تھی، وہ کہنا چاہتا تھا کہ ہماری صحافت میں دوسرا کاکا غلام علی کیوں نہیں آتا ، دوسرا غالب کب آئے گا ، فیض جیسا طرز احساس لیے کوئی اور سیالکوٹ سے کب شعری افق پر نمودار ہوگا، غالب کی ردیف، قافیہ ، بحر، زمین و زماں کے حصار اور گرداب سے ہمارے نئے شاعر کب باہر نکل سکیں گے۔

وہ کسی آبلہ پا کی دشت پاکستان میں آمد کا غالباً منتظر تھا ، اسے کثرت مطالعہ نے سوالات کے بھنور میں پھنسادیا تھا، وہ افکار کے بگولوں کے ساتھ رقص کناں تھا، صحبت نا جنس کے عذاب میں بھی مبتلا ہوگا، مکالمہ کے لیے کسی فرصت مآب کی اسے جستجوتھی ، پوچھتا رہا کہ کاکا غلام علی نے کسی اسکول،کالج اور جامعہ سے ڈگری نہیں لی پھرکیسے ’’ڈان‘‘ اخبار کے سینئرکرائم رپورٹرکے مقام تک پہنچا۔اس جینئس کی آفرنیشں کس طرح ہوئی، اس میکانک کی پذیرائی ہوئی جس نے کاکا غلام علی کے اندر کے طالب علم کو دریافت کیا ، قدر افزائی کا کلچر دم توڑدے توکیسے ہم توقع کریں کہ دوسرا شیکسپیئر ، میر، غالب ، جوش و فیض بھی سامنے آئیں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ کاکا سے ہماری ملاقاتیں رہتی تھیں ، وہ کیفے خیرآباد کو آباد رکھنے والوں میں سے تھے، استاد گرامی صدیق بلوچ مرحوم کی مضبوط صحافتی رفاقت کاکا کو جہالت ، عصبیت ، پسماندگی اور ناخواندگی کے جہنم سے اوپر اٹھا لائی ، وہ امریکا کا سیاہ فام بوکر ٹی واشنگٹن تھا جس نے ’’ اپ فرام سلیوری ‘‘ نامی کتاب لکھی،کاکا اس کتاب کو جستہ جستہ پڑھتے رہے، وہ جب بھی ملے اس کے چھوٹے سے ہینڈ بیگ میں کوئی نہ کوئی خستہ حال و خستہ صفحات والی انگریزی کتاب ضرور ہوتی ۔ وہ کتاب کے بغیر جی نہیں سکتے تھے، وہ خود بھی کھلی کتاب کی طرح تھے۔

مزاح humour کا وہ خزانہ رکھتے تھے، روزنامہ پاکستان میں جب آتے تو طاہر نصیر ، ذوالفقار زلفی، صدیق بھٹہ ، فوٹوگرافر عقیل احمد اور محمد علی خالد اٹھ کر ان کا استقبال کرتے اور وہ زلفی سے مسکرا کر پوچھتے ’’ کھارے بسکٹ کا سوال ہے بابا ‘‘ پھر چشم زدن میں چائے نمکین بسکٹ ان کے سامنے ہوتے، اس شخص نے سوال کیا کہ کاکا غلام علی کا کالم بھی ان دنوں ’’مارننگ نیوز‘‘ میں شایع ہوتا تھا ، کہنے لگا ارنسٹ ہیمنگوے نے ناول لکھا تھا ’’ دی سن آلسو رائزز‘‘ لیکن جب کاکا نے اداکار پرنس آف منروا صادق علی کی لائف پر کالم لکھا تو اس کا عنوان تھا ’’ دی سن آلسو سیٹس‘‘۔

صادق علی کراچی کی کیپیٹل سینما والی گلی کے نکڑ پر خاموش گدا گر کے طور پر کھڑے رہتے تھے، بول نہیں سکتے تھے۔ میں نے کہا اچھا یاد دلایا ۔ میں نے صادق علی کو پیلس سینما میں صبح کے شو میں ’’وار اینڈ پیس‘‘ فلم دیکھنے کے لیے موجود پایا ۔ وہ آواز ابھری کہ جس نے وار اینڈ پیس لکھی اس ٹالسٹائی کو آپ دوستوفسکی پر ترجیح دیتے ہیں؟

میں نے اپنی نالائقی کا اظہارکردیا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں،میں ایک میڈیاکر یعنی سطحی صلاحیت کا ورکنگ جرنلسٹ ہوں، آپ نے کہاں مجھے ادبی نقادوں کی صف میں شامل کردیا، وہ کہنے لگا ہمارے ملک میں قحط الرجال کی کیفیت کیوں ہے، میدان ادب کسی قسم مسابقت، تخلیقی سوچ اور اپنے عہد سے آگے سوچنے والی آفاقی تحریروں کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔بحث ہونی چاہیے کہ برصغیر نے دوسری قراۃ العین حیدر کیوں پیدا نہیں کی، ’’اگ کا دریا‘‘ بجھ گیا ہے ، خاک اڑ رہی ہے۔

کہیں بھی شعلہ فشاں ادیبوں نے پاکستان میں ادبی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد نہیں رکھی، لاریب ، میں مانتا ہوں بہترین کالم نویس، ادیب اور صحافی پیدا ہوئے مگر آج کا سب سے بڑا شاعر کسے کہیں۔ میں چپ رہا تو انھوں نے کہا آپ بور تو نہیں ہورہے؟ میں نے کہا نہیں آپ سے گفتگو علمی ہے، میری جہالت کے پردے آہستہ آہستہ سرکتے جا رہے ہیں ، آپ گفتگو جاری رکھیں، یہ ہماری نئی نسل کے لیے چشم کشا ہے۔ پھر بھی میں نے حوالہ دیا کہ ایک بار اختر سعیدی نے ایک بڑے اخبار میں قتیل شفائی کا انٹرویو لیا تھا جس میں سعیدی صاحب نے قتیل شفائی سے یہی سوال پوچھا کہ پاکستان میں سب سے بڑا شاعر آپ کی نظر میں کون ہے تو قتیل شفائی نے بلاخوف تردید کہا کہ میں ہوں۔

وہ شخص کہنے لگا وہی قتیل جس نے کہا تھا ’’میں نکل کے بھی ترے دام سے نہ گروں گا ، اپنے مقام سے، میں قتیل تیغ جفا سہی ، مجھے تجھ سے عشق ضرور ہے، میں جیوں گا تیرے بغیر بھی مجھے زندگی کا شعور ہے۔‘‘ میں نے عجزیہ انداز میں کہا جی ہاں قتیل کا دعویٰ کیا درست تھا،کہا غلط بھی نہ تھا، انھوں نے منافقت سے کام نہیں لیا، قتیل کے بیانیہ پر بات ہونی چاہیے تھے، وہ سب سے بڑا شاعر نہیں تھا تو جو بھی تھا اس پر اتفاق رائے کرلیتے ، یہ خاموشی فکری اور تخلیقی دیوالیہ پن کا ظہور تھا، میں نے توضیح پیش کی ادبی جرائد میں شاید بحث چلی ہو، ہم صحافی لوگ خبرکی تلاش میں رہتے ہیں یا اداریے لکھنے میں شاعری سے زیادہ واسطہ نہیں رکھتے۔

کہنے لگے شیکسپئیرکے دور میں نقادوں میں بحثیں چلیں ، ہزاروں کتابوں کے انبار لگے،کسی نے کہا شیکسپئیر ٹائم لیس کیسے ہے،کچھ نے اسے الزبیتھین عہد کا رجحان ساز ڈراما نگار اور شاعر لکھا، ایک نے کہا کہ اس نے انگلش زبان کی نشاۃ ثانیہ کی،کوئی یہ موقف رکھتا تھا کہ اس نے بہرحال یونانی ڈراما میں کوئی اضافہ نہیں کیا ، تاہم تقریباً چار صدیوں تک شیکسپئیر نے مشرق ومغرب کے اذہان پر حکمرانی کی۔

شیکسپئیرکے ڈراموں کی دائمی مقبولیت کا سبب کیا تھا ، جواب آیا کہ اگر عالمگیریت کو شیکسپیئر سے وابستہ کر دیں تو درست نہ ہوگا ، وہ اپنے عہد کی عجیب وغریب پروڈکٹ تھا ، وہ دور ان سے مخصوص تھا ، ورنہ عظمت کا جہاں تک تعلق ہے ، ادبی وفکری مقام کا تو والٹیئر ،کرونٹس ، ابن خلدون ، مشیما اورکنفیوشس کا بھی کم نہیں تھا ۔اس کی جیت اسی میں تھی کہ اسے اپنی کہی ہوئی دلربا کہانیوں کو دوبارہ کہنے میں ملکہ حاصل تھا ، اس نے ناراض نوجوان، غضب ناک بیٹوں اور غصیلی و مضطرب بیویوں، سیاسی اقتدارکی ہوس رکھنے والوں اور مذہب سمیت بے شمار موضوعات پر ڈرامے لکھے۔

میں نے پوچھا کہ میر ، غالب ، حالی، اقبال، جوش جیسا دوسرا پیدا نہ ہونے سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ یہ مٹی ذرا بھی نم نہیں ہوئی۔ایسی قد آور شخصیات توہندوستان میں بھی آج موجود نہیں حالانکہ شعر وادب میں پاک وہند کے افق پر بہت بڑے نام ہیں ۔ مجھے انکار نہیں، میں جینئیس لوگوں کی بات کر رہا ہوں ، جنہوں نے تاریخ ساز تخلیقات پیش کیں۔ مثلاابن خلدون بھی تاریخ دان تھا اور نطشے بھی مگر دونوں تاریخ کے دو منطقوں میں اترے، ابن خلدون کرافٹ اور میتھڈ پر فوکس کرتا تھا ، نطشے نے تاریخ کو برتنے کا ہنر اور اس کی اقوام عالم میں قدر وقیمت پر بحث کی۔

بتائیے دہشت ناک کہانیوں ، ہارر ادب میں آگسٹا کرسٹی اور سرکونن ڈائل میں کون بڑا تھا ، میں نے بات موڑنا چاہی اورکہا کہ ابن صفی برصغیر کا بڑا نام تھا ۔ خوب ! کی آواز آئی۔ پھر ایک فیصلہ دیتے ہوئے کہنے لگے میں الیکٹرانک میڈیا کے شرلاک ہومزکا نام جاننا چاہتا ہوں ۔ آپ کے ذہن میں ہے کسی کا نام ۔ میں نے خدا حافظ کہنے سے پہلے جواب میں صرف اتنا کہا ’’آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی، شرلاک ہومز صاحب ۔‘‘(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں