ik wari fir | Imran Junior

مایوس قوم

علی عمران جونیئر

دوستو، انتخابات سر پر کھڑے ہیں، یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے منفرد انتخابات ہوں گے عوام بھی،بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں، حالات بھی نارمل نہیں، مہنگائی بھی زوروں پر ہے، دہشت گردی بھی پھن پھیلائے کھڑی ہے، تھانیدار کے موڈکا بھی کوئی پتہ نہیں، غیر یقینی بھی نمایاں ہے، عوام بھی بیزار ہیں۔ اب لوگ سبز باغ دیکھنے کی طرف بھی مائل نہیں ہو رہے۔گزشتہ دنوں نب سے کرائے گئے کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس سروے کے مطابق صرف 10 فیصد پاکستانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملک درست سمت میں جارہا ہے اور معاشی مسائل ان کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن ہیں۔سروے کے نتائج ملک کے خراب حالات کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن معیشت کو انتہائی کمزور سمجھنے والے افراد کی تعداد کم ہو کر 60 فیصد رہ گئی ہے۔سروے کے مطابق مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ پاکستانیوں کیلیے اہم ترین مسائل ہیں، 90 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی سمت درست نہیں ہے،سروے کے دوران 60 فیصد ملکی معیشت کو خراب قرار دیا ہے جبکہ 35 فیصد افراد نے کسی بھی قسم کی رائے دینے سے گریز کیا۔سروے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوئی ہے، 40 فیصد پاکستانیوں کا خیال تھا کہ ملکی معیشت اگلے چند ماہ کے دوران مزید کمزور ہوجائے گی جبکہ ایک چوتھائی افراد نے معاشی امور میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے انکار کردیا، 92 فیصد شہری اپنی صلاحیتوں کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہیں، جبکہ باقی 8 فیصد مطمئن تھے، 98 فیصد پاکستانیوں کو بیش قیمت اشیاء کار، گھر وغیرہ خریدنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سروے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس میں سب سے نچلے درجے میں ہے، گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس میں بھارت کا اسکور 64.1 ہے جبکہ پاکستان کا اسکور محض 31 ہے۔

اگر سروے پر یقین کیاجائے تو نوے فیصد پاکستانی مایوس ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سمت درست نہیں، لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ جب الیکشن ہوں گے ،ووٹ ڈالنے کا ٹائم ہوگا تو یہ لوگ گھر بیٹھ کر سرکاری چھٹی انجوائے کررہے ہوں گے، ان لوگوںکو اب تک ووٹ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوسکا۔دوسری طرف سب سیاسی جماعتوں میں میراتھن ریس جاری ہے کہ” فرشتے” ان پر نظر کرم جما لیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ فرشتوں کو سب سے زیادہ نیک پاک اور شریف جماعت نواز شریف کی ن لیگ لگی ہے۔پاکستان پر غیر یقینی کے سائے اتنے گہرے ہوتے جا رہے ہیں کہ الیکشن کے واضح اعلان کے باوجود پتہ نہیں کہ کس وقت کیا ہو جائے سفید جھوٹ اتنی کامیابی کے ساتھ مارکیٹ کیے جا رہے ہیں کہ نظر نہ آنے والی چیزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ایک نیوزچینل پر بشری بی بی کے سابق شوہر خاورمانیکا کا انٹرویو دیکھا جس میں ایک مرد اپنی سابق اہلیہ کے ”اندرونی ” معاملات سے قوم کو باخبرکررہا تھا۔ کون سا خاندانی اور باعزت شوہر چھ سال بعد اپنے گھر کے نجی اور اپنے بچوں کی ماں کے معاملات بخوشی ساری دنیا کے سامنے رکھتا ہے؟افسوس ہے ایسی صحافت پر۔ اس انٹرویو کا ملک کے سیاسی، عوامی، معاشی، خارجی یا قومی معاملات سے کیا تعلق ہے؟ ایک شخص کے بغض میں صحافت اتنی بھی گر سکتی تھی اندازہ نہیں تھا۔ کسی کے گھر کے اندرونی معاملات کا ملک و قوم سے کیا تعلق ہے؟ یہاں کس سیاستدان کا کس سے معاشقہ رہا، کس نے کس کو طلاق دلوا کر شادی کی، کس نے کس کو بھگا کر شادی کی، کس نے کس سے بیوفائی کی، کس نے کس سے ناجائز مراسم رکھے۔۔ کیا پھر آپ تیار ہیں ایسی فحش اور ذاتی زندگی کی کہانیاں میڈیا پر سننے کیلئے؟ کسی کی ذاتی زندگی، شادی، طلاق کا ملک اور قوم کیساتھ کیسے گھٹیا ربط قائم کیا جا رہا ہے۔

معروف مصنف بابااشفاق احمد حسبِ معمول اپنے بابا نور جی کے پاس موجود تھے۔عکسی مفتی کو بھی ساتھ گھسیٹ لائے تھے جو بطور ڈرائیور کے استعمال ہوتے رہتے تھے۔ڈیرے کی روایت کے مطابق انہیں شلجم گوشت پیش کیا گیا۔دونوں کھانے لگے کہ دفعتاً ایک مکھی اشفاق احمد کی ہانڈی پر منڈلانے لگی،اشفاق صاحب اسے بار بار ہٹاتے وہ پھر بھنبھاتی پہنچ جاتی۔اس کشمکش کو دیکھ کر عکسی مفتی مسکرا رہے تھے کہ بابا جی بولے ۔۔ پت، مکھی نہیں ماری دی، جتھے آندی اے اوہ گند صاف کری دا (پتر مکھی نہیں مارتے، وہ گندگی صاف کرتے ہیں جس پر وہ آتی ہے) بقول عکسی مفتی، اشفاق احمد کے تو قمقے روشن ہو گئے،وہ ٹھٹھک کر ساکت ہو گئے۔بعدازاں اسی جملے پر انہوں نے ایک دو ڈرامے بھی لکھ مارے۔آپ اشفاق احمد کو جو مرضی سمجھیں، وہ ہر حوالے سے ایک enigmatic آدمی تھا،آپ بابا جی کو فراڈ بھی سمجھ سکتے ہیں مگر بات کی سچائی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ذرا غور نہ بھی کریں تو بالکل واضح ہے کہ رمضان میں بلکہ عبادات میں، ہم مجموعی طور پر مکھیاں ہی مارتے رہتے ہیں، گند صاف نہیں کرتے۔اسی لئے ہر برس مکھیوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔اسی طرح معروف ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمن قمرایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ،ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا۔۔ ”اوئے خیلے اے کوٹ کتھو لیا ای”(اوئے خلیل یہ کوٹ کہاں سے لیا ہے؟)میں نے کہا۔۔ ”سوایا ہے چاچی”(سلوایا ہے چاچی) لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا۔ خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔۔ پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈرائی کلین کیا ہوا، لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے۔۔ ”خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے ،تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے اسٹیچنگ وی کمال اے”مَیں نے بِنا کوئی شرم محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ”بھائی جان لنڈے چوں لیا اے” لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائی پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجائے ہنسنے لگ گیا تھا۔۔سچ ہے ،یہ معاشرہ بڑا منافق ہے، غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔”اگر تم کسی کی مدد کرتے وقت جوابی مدد کی اُمید رکھو گے تو یہ کاروبار ہو گا نیکی نہیں”خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں