Seena-Ba-Seena-82

سینہ بہ سینہ قسط 82

سینہ بہ سینہ 82

دوستو، حسب وعدہ حاضر ہوں، خبریں بہت ہیں،پپو کی مخبریاں تھمنے کا نام نہیں لیتیں، یقین کریں کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ پپو کوئی ایک دن تو چھٹی کرلے تاکہ میری یہ سب لکھنے سے جان چھوٹ جائے لیکن وہ پپو ہی کیا جو چھٹی کرجائے، روز فون،روزفون، ایس ایم ایس۔۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پپو کی مخبریاں نوٹ کرکے بھول جاتا ہوں، اچانک یاد آتا ہے تو لکھ مارتا ہوں، لیکن پھر آپ لوگوں سے طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ خبر تو پرانی ہے۔۔ ثنا مرزا کی خبر ہو یا ڈاکٹر شاہد مسعود کی۔۔ باخبر دوستو نے فوری نشاندہی کی، میں نے اپنی غلطی مانی، اس میں پپوکا قصور نہیں، وہ بیچارہ فوری مخبری دیتا ہے، اسے آپ تک شیئر کرنے میں ساری لاپرواہی اور کوتاہی میری ہوتی ہے۔۔میری ذاتی بھی مصروفیات ہوتی ہیں، آفس میں نو سے دس گھنٹے کام بھی ہوتا ہے، کہیں آنا جانا،ملنا ملانا بھی رہتا ہے، ان سب کے باوجود کوشش ہوتی ہے کہ آپ لوگوں سے مسلسل رابطہ رہے۔۔ خیر ذاتی باتیں پھر ہوتی رہیں گی، چلتے ہیں پپو کی باتوں کی طرف۔۔ کیونکہ سینہ بہ سینہ کی ساری رونقیں پپو کے دم سے ہی ہیں۔۔

تین سال پہلے سینئر صحافی ضیاالدین احمد نے کہا تھا کہ ٹی وی چینلز اب نیوز اور ویوز چینلز نہیں رہے یہ پراپیگنڈہ چینل بن چکے ہیں۔اب نیوز اور ویوز کی پالیسی مالکان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ مالکان جن کا اس پیشے سے کوئی تعلق نہیں وہ مہم کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں۔ پیشہ ور صحافی آج کل نوکریاں کر رہے ہیں کیونکہ آج کل نوکریاں ملنا مشکل ہوتا ہے اور اتنی بڑی بڑی تنخواہیں لینے کے بعد اگر کوئی مستعفی ہو کر گھر چلا جائے تو بہت بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے اسی لیے شاید پیشہ ور صحافیوں نے بھی سمجھوتے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔۔اور یہ سمجھوتے آپ کو صالح ظفر،عطاالحق قاسمی، جاوید چودھری، طلعت حسین، نجم سیٹھی وغیرہ کے روپ میں اکثر نظر آتے ہی رہتے ہیں۔۔

یوم آزادی پر سرکاری اشتہارات کے ذریعے من پسند میڈیا گروپس کو بھرپور نوازا گیا، لیکن حیرت انگیز طور پر سرکاری اشتہارات سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی تصویر غائب رہی، ایک چینل نے یہ دعوی کیا کہ جاتی امرا سے تصویر ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔۔دوسری طرف وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے اشتہاری مہم میں اپنی تصویر لگانے پر پابندی لگائی ہے۔۔اس سلسلے میں وزارتوں، ڈویژنوں، اداروں کو نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا ہے کہ کسی بھی سرکاری اشتہار میں وزیراعظم کی تصویر نہ لگائی جائے۔۔نوازشریف کی ریلی کے موقع پر بھی کئی چینلز بند ہونے کی خبریں گردش کرتی رہیں، اس سلسلے میں حامد میر کا کہنا ہے کہ کیبل آپریٹرز کو مخصوص چینلز کی نشریات کے حوالے سے فون کئے گئے جس سے لگتا ہے کہ معاملہ نیوٹرل نہیں رہا۔۔ ریلی کے دوران کئی مقامات پر صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایاگیا،خواتین رپورٹرز کو بھی نہیں بخشا۔۔قومی اسمبلی کی پریس گیلری سے صحافیوں کے واک آؤٹ پر اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لیتے ہوئے ایک ہفتے میں انکوائری رپورٹ طلب کرلیا۔۔صحافیوں نے وفاقی وزرا سے مطالبہ کیا کہ تشدد کے زمہ دار اور صحافیوں کو حراست میں لینے والے افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔۔اس موقع پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور آفتاب شیخ نے صحافیوں کو یقین دہانی کرائی کہ واقعہ کی ایف آئی آر صحافیوں کی مرضی کے بعد درج کرائی جائے گی۔۔اسپیکر قومی اسمبلی نے ایک ہفتے میں انکوائری رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بھی تشدد کے واقعات میں ملوث ہونگے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے قرار واقعی سزا سنائی جائے گی۔۔

نامور اینکرپرسن، کالم نگارڈاکٹر عامر لیاقت تیسری بار بول چھوڑ گئے، اس کا اعلان انہوں نے اپنے پروگرام کے دوران کیا۔۔رمضان المبارک سے پہلے بھی انہوں نے بول ٹی وی چھوڑنے کا ارادہ کیا لیکن جیسے ہی پپو نے خبر بریک کی،بول انتظامیہ نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے انہیں روک لیا۔۔عامر لیاقت رمضان ٹرانسمیشن کے بانی بھی ہیں، وڈے چینل پر کئی وڈی وڈی اسلامی ٹرانسمیشن کرکے وہ مذہبی اسکالر بھی بن گئے، عالم آن لائن ان کا مشہور پروگرام رہا۔۔پھر جب انہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے پوری پوری ٹیم کے ساتھ اے آر وائی، ایکسپریس کی جانب کوچ کیا اور قسمت آزمائی کی لیکن جس طرح کھل کر فری ہینڈ کے ساتھ وڈے چینل پر کام کیا ویسے مواقع پھر نہ مل سکے۔۔کچھ عرصہ سیاست کے میدان میں بھی رہے، وفاقی وزیر کاعہدہ بھی ملا۔۔جب گزشتہ سال انہوں نے وڈے چینل کو چھوڑ کر بول جوائن کیا تووہاں اپنا پروگرام ایسے نہیں چلے گا اسٹارٹ کیا، جس نے جلد ہی عوامی توجہ حاصل کرلی۔۔لیکن جب انہوں نے تمام حدود پار کیں(بقول پپو کسی کے کہنے پر)اور مخالفین کو سرعام ذلیل کرنا شروع کیا توپیمرا کی پابندیاں بھی برداشت کیں۔۔عدالتوں سے اسٹے لے لے کر پروگرام کرتے رہے، پھر پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی متنازع شرٹس کے حوالے سے بھی شہرت کمائی۔۔ساری باتیں ،اختلافات، تنازعات اپنی جگہ، یہ ڈاکٹر عامر لیاقت کی ذات کا کرشمہ ہے کہ اب بھی ان کا مقابل کوئی نہیں۔۔کہاجاتا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کو صرف ڈاکٹر عامر لیاقت ہی شکست دے سکتا ہے۔۔لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس بار عامر لیاقت نے بول کیوں چھوڑا۔۔عامر لیاقت نے اپنے آخری پروگرام ایسے نہیں چلے گا،میں استعفیٰ دینے سے کچھ دیر قبل ایسی گفتگو کی جس نے سب کو حیران کر دیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں عامر لیاقت کی گفتگو کے دوران ایک ایسا کلپ بھی دکھایا گیا ہے جس میں سندھ رینجرز کے ایک اعلیٰ افسر کو خطاب کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کلپ چلانے سے قبل عامر لیاقت نے اپنی گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح کیا ”ظاہر ہے کہ سبھی نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا، اپنا سب کچھ چھوڑ دیا۔ ہم یہاں پاکستانی بننے آئے تھے، کچھ اور بننے آئے ہی نہیں تھے، کچھ اور بننا ہوتا تو آنے کی ضرورت نہیں تھی، آئے تھے پاکستانی بننے لیکن یہاں ہمیں لوگوں نے کچھ اور بنا دیا، ہمیں نفرتوں نے بانٹ دیا آپس میں، اور اب وقت ہے اس خلیج کو پاٹنے کا، اسے بڑھانے کا وقت نہیں ہے۔ اب یہ لمحات نہیں ہیں کہ ہمیں کھڑے ہو کر پوچھا جائے کہ کراچی والے پاکستانی بننے کو تیار ہیں کہ نہیں، اب خلیجوں کو ختم کرنے کا وقت ہے اور یہ کہنے کا کہ کراچی والو، لاہور والو، پشاور والو، کوئٹہ والو اور تمام شہروں کو مخاطب کر کے یہ کہنے کا وقت ہے کہ تم پاکستانی ہو۔ پاک فوج میں کیا رجمنٹ نہیں ہوتیں؟ اس میں سندھ رجمنٹ، بلوچ رجمنٹ اور خیبرپختونخواہ رجمنٹ بھی ہے،اس میں صرف ایک ہی رجمنٹ ’پاک رجمنٹ‘ کیوں نہیں ہوتی؟ اس لئے کیونکہ اس میں پختون بھی ہیں، بلوچی، سندھی اور مہاجر بھی ہیں، سب کی مختلف رجمنٹس ملتی ہیں تو پھر پاک فوج بن جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان کے اندر سب رہنے والوں کی اپنی تہذیبی رسومات اور اقدار ہیں جن کے تحت وہ زندگی گزارتے ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم اپنا کلچر تبدیل کر دیں، شیخ سعدیؒ کا قول ہے کہ مذہب کو لمحے بھر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن ثقافت کو تبدیل کرنے میں کئی سو سال لگ جاتے ہیں۔“اس کے بعد فوجی افسر کا کلپ سامنے آتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ”چند سوالات ہیں جن کا جواب اگر منفی میں ملتا ہے تو وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، رینجرز اور پولیس جو کچھ مرضی کر لے، کچھ نہ کچھ مسائل اور بدامنی اس شہر میں رہے گی۔ وہ سوالات کیا ہے؟ کیا کراچی کے لوگ اپنے آپ کو اپنی پہچان کو سب سے پہلے پاکستان سے منسلک کرنے کو تیار ہیں؟اب اگر ڈاکٹر عامر لیاقت کی کلپ سے پہلے ہی گفتگو کو دیکھا جائے اور پھر اس کے بعد افسر کی گفتگو پر غور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عامر لیاقت افسر کی گفتگو پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں ۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ شعیب شیخ صاحب نے عامر لیاقت کو رینجرز افسر کے بیان پر پروگرام کرنے سے منع کیا تھا،پھر بھی وہ اتنی باتیں کرگئے، جس پر بریک کے دوران انہیں ایک بار پھر منع کیا گیا، پپو کے مطابق بریک سے واپسی پر عامر لیاقت نے آن ائر بول چھوڑنےکا اعلان کردیا وہ مزید بھی کچھ کہنا چاہتے لیکن پروگرام کٹ کردیاگیا، جس کے بعد انہیں شعیب شیخ صاحب نے اپنے گارڈز کے ذریعے ” اولا” (آڈٹیوریم، جہاں سے پروگرام کیا جاتا تھا) سے اپنے آفس کیلئے بلوایا،ڈاکٹر صاحب گئے مذاکرات ہوئے، شعیب شیخ صاحب نے انہیں کہا کہ آپ کہیں نہیں جائیں گے، جس پر ڈاکٹر عامر لیاقت نے سوچنے کیلئے وقت مانگ لیا اور کہا کہ وہ اس وقت کوئی اور فیصلہ نہیں کرسکتے۔۔اب وہ دبئی میں ہیں۔۔کوئی کہہ رہا ہے کہ وہ ہم نیوز چلے گئے، کسی نے کہا کہ وہ اب پاک نیوز یا بول انٹرٹینمنٹ پر شو کرینگے۔۔ ملین ڈالر سوال ہے کہ اب ان کا اگلا پڑاؤ کہاں ہوگا، یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کسی بھی چینل پہ جائیں ان کے دیکھنے اور چاہنے والوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،وہ چینل پر خود انہیں ڈھونڈ لیں گے اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت یہ فن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریٹنگ کس طرح حاصل کی جاتی ہے، عوام کی توجہ کیسے اپنی جانب مرکوز کرائی جاتی ہے، پپو کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کو بول انتظامیہ کی جانب سے لیگل نوٹس بھی دیا گیا ہے ۔۔جس کا جواب فی الحال نہیں دیا گیا۔۔پپو بضد ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت نے بول سے مکمل قطع تعلق نہیں کیا۔۔ وہ فی الحال اسی گروپ سے وابستہ ہیں لیکن کس صورت میں اسکرین پر نظر آئیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔۔

اداکار ساجد حسن نے بھی بول کو خیرباد کہہ دیا، بول انتظامیہ نے خفت مٹانے کیلئے اپنی ویب سائیٹ پہ یہ پریس ریلیز ڈالی کہ ساجد حسن کی مصروفیات کے باعث انہیں بول نیوز سے بول انٹرٹینمنٹ منتقل کردیاگیا ہے اور جب بھی وہ بڑے پراجیکٹس سے فارغ ہونگے تو دوبارہ بول نیوز پر نظر آئیں گے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے، ساجد حسن کے قریبی ذرائع کا کہنا ہےکہ ساجد حسن اب آزاد ہوگئے ہیں ،دو سال تک بغیر کسی مفاد یا لالچ کے بول کا ساتھ دیالیکن اس کا صلہ صرف اور صرف ٹینشن ہی ملا تھا۔۔ ساجد حسن کا شمار ان لوگوں میں کیا جاتا ہے جو بول اور ایگزیکٹ کی بندش کے دوران میدان میں ڈٹے رہے، ہر احتجاج اور پروگرام میں شرکت لازمی بناتے اور شعیب شیخ کا مشکل گھڑی میں ساتھ نہ چھوڑا۔۔لیکن اگر اب ساجد حسن جیسے لوگ بول چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں تو یہ شعیب شیخ صاحب کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ مشکل وقت میں جو آپ کے ساتھ کھڑا ہے وہ آپ کا سچا دوست اور وفادار ہوتا ہے، فصل تیار ہوتو پرندے خودبخود آجاتے ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ شعیب شیخ صاحب کو شاید اندازہ ہوگیا ہے کہ بول نیوز گیارہ ماہ بعد بھی اب تک صفر پہ کیوںکھڑا ہے، اسی لئے انہوں نے اب اہم تبدیلیوں کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔ پپو کے مطابق بول نیوز میں ڈائریکٹر نیوز کے عہدے پر کام کرنے والی خاتون اور ان کے نائب فرحان کو واپس ایگزیکٹ میں بھیجا جارہا ہے۔۔ جب کہ پروفیشنل لوگوں کی تلاش بھی شروع کردی گئی ہے۔۔ حیرت انگیز طور پر اب بھی انہیں دوہزار پندرہ کی نمبر ون ٹیم کی کوئی فکر نہیں، مارکیٹ سے پروفیشنل کے نام پر اب بھی جان پہچان والوں کو سیٹ کرایا جارہا ہے، دوسری طرف بارہ بارہ گھنٹے اور بغیر کسی آف کے کام کی وجہ سے بول والوں کی اکثریت کے اعصاب جواب دے چکے ہیں، پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ایگزیکٹ سے بھی پرانے وفادار یکے بعد دیگرے استعفے دے رہے ہیں اور جس نے سال کے شروع میں استعفا دیا اسے اب تک اس کے واجبات نہیں مل سکے، بول اور ایگزیکٹ میں جن ورکرز کی واپسی ہوئی ہے وہ بیچارے اب تک واجبات سے محروم ہیں افسوسناک بات تو یہ ہے کہ یہ بیچارے اپنے واجبات کا نام تک زبان پہ نہیں لاسکتے،کیونکہ انہیں کہاجاتا ہے کہ نوکری کرلو، پیسے کہاں بھاگے جارہے ہیں۔۔بول میں اسدکھرل کی دوسری بار واپسی ہوگئی ہے۔۔اور انہوں نے بول پر اپنا پروگرام بھی شروع کردیا ہے۔۔

سینئر صحافی و اینکر پرسن رضوان الرحمان رضی جو لاہور میں رضی دادا کے نام سے جانے جاتے ہیں نے دعویٰ کیا ہے کہ اے آر وائی گروپ 1998 سے ہر مہینے بھارت کو 20 من سونا فراہم کرتا ہے۔جس پر اے آروائی کے اینکر اقرار الحسن میدان میں اترے اور چیلنج کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اے آر وائی گروپ کا بھارت میں کاروبار ثابت کردے تو وہ دوبارہ کبھی ٹی وی پر نہیں آئیں گے اگر آپ دعوی سچ ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر آپ کو معافی مانگنی پڑے گی۔۔

گزشتہ سینہ بہ سینہ میں پپو نے دن نیوز کی کچھ مخبریاں دی تھیں، کئی لوگوں نے فرمائش کی کہ ان تین انٹرنی لڑکیوں کے بارے میں مزید پپو سے مزید مخبریاں لے کر دیں تاکہ ان کی بدزبانی کے معاملات دیگر میڈیا ورکرز کے علم میں آسکیں، ان سب کو ایک ہی جواب دیا کہ خواتین کا کچھ تو لحاظ کریں، باتیں تو بہت ہیں لیکن اصلاح کا موقع سب کو ملنا چاہیئے۔۔اگر ان کی گھر یلو تربیت ٹھیک سے نہ ہوسکی کہ بڑوں سے کس طرح بات کی جاتی ہے تو آپ یا ہم مل کر بھی کسی کو نہیں سدھار سکتے۔۔ویسے حیرت تو ان لڑکیوں کو بھی ہے کہ ان کی باتیں پپو تک پہنچی کیسے۔۔پپو سے ملنے کے خواہشمندوں سے گزارش ہے کہ پپو کو پکڑنا مشکل ہی ناممکن بھی ہے، وہ ہم سے بھی اپنے موڈ سے بات کرتا ہے۔۔ خیر اب دن نیوز کی مزید مخبریاں سن لیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ چیئرمین صاحب نے ایک چہیتی اینکر کوجلدسے جلد ڈرائیونگ سکھانے کا حکم دیا ہے کہ تاکہ اسے ادارے کی طرف سے گاڑی دی جاسکے۔۔یہ محترمہ ان دنوں ڈرائیونگ سیکھ رہی ہیں، یہاں دنیا نیوز سے آئی ہیں لیکن جلد ہی چہیتی اور لاڈلی بن گئی ہیں۔۔پپو کا کہنا ہےکہ دن نیوز میں خواتین اینکرز کی تنخواہیں بہت زیادہ ہیں جب کہ میل اینکر بیچارے “ماٹھے” ہیں۔۔ خواتین اینکرز کی تنخواہ 80 ہزار سے ایک لاکھ چالیس ہزار تک ہیں۔۔جس خاتون اینکر کی تنخواہ ایک چالیس ہےوہ پھر بھی دنیا گروپ چلی گئیں لیکن جب وہاں دال نہ گلی تو پھر پرانی تنخواہ پہ ہی واپس آگئیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ دن نیوز کے میل اینکرز کی تنخواہیں تیس سے چالیس ہزار روپے ہے، دن انتظامیہ آج کل ایک میل اینکر پہ فدا ہے جسے پک اینڈ ڈراپ سروس بھی دی جارہی ہے جو دیگر میل اینکرز کو دستیاب نہیں۔۔پپو کا کہنا ہے سننے میں آرہا ہے کہ مذکورہ میل اینکر اعلیٰ حکام میں سے کسی ایک کا رشتہ دار ہے۔۔پپو نے مزید بتایا ہے کہ کئی ماہ کے شورمچانے کے بعد انتظامیہ نے چند لوگوں کی دو،دو ہزار روپے سیلری بڑھادی اور اب کہتی ہے کہ ہمیں کام چھ سے آٹھ لوگوں کا چاہیئے، آپ کی تنخواہ بڑھا دی اب کام ہماری مرضی سے کرنا ہوگا۔۔ایک این ایل ای کی حادثے میں ٹانگ ٹوٹ گئی تو تمام این ایل ایز کی ایک ماہ سے ویکلی آف بند کردی گئی۔۔ جس پر تمام این ایل ایز پریشان ہیں،بہت سے این ایل ایز تو جیب میں استعفے رکھ کر روز آفس آتے ہیں کہ جیسے ہی تنخواہ ملے گی استعفا دے دیں گے۔۔ڈائریکٹر نیوز اور کنٹرولر کی جانب سے کام کے بہت زیادہ پریشر کی وجہ سے کاپی کا ایک بندہ نوکری چھوڑ کر لاہور ہی کے ایک اخبار میں لگ گیا۔۔جس کے بعد کاپی پر موجود تمام لوگوں کی بھی ویکلی آف بند کردی گئی، اگر کوئی چھٹی مانگتا ہے تو اسے کہتے ہیں ،نوکری کرنی ہے تو کرو،ورنہ گھر بیٹھوں ، آپ کے نہ آنے سے چینل بند نہیں ہوجائے گا۔۔پپو مزید بتاتا ہے کہ عید ابھی دور ہے لیکن تمام ورکرز کو کہہ دیا گیا ہے کہ عید پر لڑکیوں کے علاوہ کوئی چھٹی نہیں کرے گااگر کسی نے آف کی تو پھر وہ گھر ہی رہے آفس آنے کی ضرورت نہیں۔۔پپو کے مطابق پچھلے ایک ماہ سے این ایل ایز اور کاپی ایڈیٹرز کا ویکلی آف پہلے ہی بند ہے، باقی لوگ اپنے حساب سے چھٹیاں کررہے ہیں۔۔پپو کی دن نیوز کے حوالے سے بہت ساری مخبریاں مزید باقی ہیں لیکن فی الحال دیگر چینلز کا بھی ذکر کرنا ہے اس لئے مزید مخبریاں اگلی بار کیلئے رکھ لیتے ہیں۔۔

92 نیوز کی کچھ باتیں پچھلے سینہ بہ سینہ میں تحریر کی تھیں۔۔اب اس چینل کی تازہ ترین مخبریاں بھی سن لیں۔۔لاہور ہیڈآفس سے ایک خاتون اینکر نے گزشتہ دنوں استعفا دے دیا، وجہ وہی جو ماضی میں خواتین اینکرز کے چھوڑنے کی وجہ تھی۔۔ تفصیل پپو نے فراہم کردی ہے لیکن چونکہ اس خاتون اینکر کو اچھی طرح جانتا ہوں اس لئے مناسب نہیں لگ رہا مزید کچھ لکھنے کو۔۔ پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کراچی بیورو سے تمام رپورٹرز سے گاڑیاں واپس لے لی گئی ہیں۔۔ کچھ رپورٹرز پر برطرفی کی تلوار لٹک رہی ہے، ایک سینیئر رپورٹر کو بغیر کسی شوکاز یا کوئی شکایت کہ فوری نکال دیااور نکالے جانے کی اضافی تنخواہ بھی نہ دی، اسی طرح ایک اور رپورٹر ان دنوں پیمرا سے آنے والی ایک انکوائری کلیئر کرانے میں لگاہے انکوائری کلیئر ہوتے ہی اسے بھی فارغ کردیا جائے گا، پرانے بیوروچیف کے رکھے گئے رپورٹرز کو نئے بیوروچیف کی جانب عتاب کا سامنا ہے، حیرت انگیز طور پر سوائے دو رپورٹرز کے تمام رپورٹرز کو صبح کی شفٹ میں رکھا گیا ہے۔۔ایک ایسے شخص کو بھی کراچی بیورو میں رپورٹر بنادیاگیا ہے جو کچھ عرصے پہلے تک جاپان قونصلیٹ کی پریس ریلیز اخباروں کے دفاتر میں دیاکرتا تھا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹر جلد ہی 92 کے کارڈ کی بنیاد پر کینیڈا کا ویزہ لگوا کر بیرون ملک نکل جائے گا۔۔پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ چینل کی تمام اہم باتیں وڈے چینل سے شیئر کی جارہی ہیں، پالیسیاں اور دیگر معاملات کا جو ہر ادارے کا سیکرٹ ہوتا ہے وہ اب سیکرٹ نہیں رہا۔۔

اب سما کا رخ کرتے ہیں، پپو کا کہنا ہے کہ یہاں دس سال سے کام کرنے والے سینیئر دی اوپی کو فارغ کردیاگیا،سب سے سینئر اسٹاف کو اس طرح نکالے جانے پر دیگر سینیئر اسٹاف میں بے چینی پھیل گئی ہے۔۔ ڈی او پی کو نکالنے کی گونج سترہ فلور تک گئی ہے۔۔ چیئرمین صاحب نے اس کا نوٹس لیا ہے۔۔اور ہاں پپو کا کہنا ہے کہ خواتین اینکرز میں ابھی تک سردجنگ جاری ہے، اور اس کا بھرپور فائدہ ایک میل اینکر اٹھارہا ہے،جس کی وجہ سے دونوں اینکرز لڑی تھیں۔۔

کیپٹل ٹی وی میں کارکنوں کا برا حال ہے، اب تو لوگ بھاگنے لگ گئے ہیں، مارچ کی تنخواہ جون میں دی گئی جس کے بعد سے اب تک یہاں ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں، جب کہ یہ تک بتانے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ تنخواہیں آخر کب تک ادا کی جائیں گی،، اسی طرح کراچی کے کے 21 میں بھی کارکنان تنخواہوں سے محروم ہیں، حیرت انگیز طور پر وہاں تو مالکان بھی نظر نہیں آرہے۔۔

آج کیلئے اتنا ہی،فرصت رہی تو بقرعید سے پہلے ایک بار پھر حاضری لگائیں گے، جب تک کیلئے اجازت۔۔ علی عمران جونیئر۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں