rohani remand | Syed Arif Mustafa

یہ کتے (طنزومزاح)۔۔

تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔۔

کچھ دنوں سے میں چند ناہنجار کتوں کو بہت مرغوب ہو گیا ہوں ، رات گئے گھر آتے ہوئے یک بیک پانچ سات کتے نجانے کہاں سے لپکتےلڑھکتے آن موجود ہوتے ہیں اور ان میں سے چند تو مجھے یہاں وہاں سے چکھنے کے زبردست آرزو مند بھی معلوم ہوتے ہیں   ان میں دو تو بلحاظ صحت ایسے ہیں کہ اگر انہیں گوندھ کر ملایا جائے تب بھی اک قابل لحاظ کتا نہیں بن پائے گا ۔۔۔ لیکن سب سے زیادہ جوشیلی پرفارمنس بھی انہی کی ہوتی ہے۔۔۔ دم اٹھائے اور زبان لٹکائے ہر طرف سے کانپ رہے ہوتے ہیں  سمجھ نہیں آتا کہ محض ڈیڑھ دو کلو کے کتے میں بھی اتنی من بھر بھونک کہاں سے سما جاتی ہے ؟ ان میں سے زیادہ تر تو سیفٹی اسٹینڈرڈزسے بھی آگاہ ہیں اور پتھر پڑنے کی حد سے ذرا پرے پرے ہی رہتے ہیں لیکن جو ذرا نابالغ و نا سمجھ ہیں وہ محض ایک پتھر اچھالتے ہی چیاؤں چیاؤں کرتے گلی کا موڑ مڑ جاتے ہیں اور باقیماندہ بچی کھچی چیاؤں چیاؤں کا کورس وہیں کھڑے رہ کر اور سر کو جھکائیاں دے دے کر پورا کرتے ہیں ، پھر میرے آگے بڑھ جانے کے بعد دوبارہ چند قدم آگے آکر اپنی بہادری کا وہ واویلا کرتے ہیں کہ سٹ پٹا کے مجھے کان لپیٹتے ہی بنتی ہے ، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ نہایت مستقل مزاج کتے اس درجہ لگن سے میرے گلے کیوں آئے ہوئے ہیں ۔۔۔ انکے اہداف کیا ہیں اور آخر انکا منشور کیا ہے؟

 یہ بات سوچنا تو بالکل فضول  ہے  کہ میری ان کتوں سے پرانی دشمنی ہے کیونکہ دشمنی کرنے کیلیئے اپنے دشمن کو پہچاننا بہت ضروری بلکہ لازمی ہے اور میرا یہ حال ہے کہ سارے رنگوں کے کتے ایک ہی جیسی شکل کے دکھتے ہیں یعنی کوئی کالا کتا سبھی کالے کتوں جیسا معلوم ہوتا ہے اور کوئی مٹیالے رنگ کا کتا اسی رنگ کے دیگر ہم جنسوں کی مانند نظر آتا ہے۔۔۔  اور کم سے کم فاصلے کی میری ازخود مقررکردہ حد عبور ہوجانے کے بعد تو ہر کتا مجھے بہت ہی کتا معلوم ہوتا ہے ،  لیکن یہ بھی نہیں کہ میں کتوں کو پہچاننے کی مطلق کوئی حس ہی نہیں رکھتا ، میں کتوں کو صرف 2 اقسام سے پہچانتا ہوں یعنی اصیل کتا اور رذیل کتا ۔۔۔

اصیل کتے کو آپ کتوں کی اشرافیہ سمجھیئے ، وہی تام جھام ، یعنی گلے میں خوبصورت سا پٹہ ، شیمپو سے دھلا دھلایا ، بھرا بھرا پیٹ ، چال میں تمکنت ، اداؤں میں نخوت اور تھوتھنی پہ بیوروکریٹک سا وقار۔۔۔ اسی طمراق کے باعث یہ جو اصیل کتے ہیں انہیں تو کتا کہتے ہوئے انکے مالکان کا دل بھی دکھتا ہے-اور اگر کسی چپڑ قناتی بندے کے ساتھ بٹھا دیا جائے تب تو انہیں کتا مانتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے، ہر وقت بھونکنے کو شاید یہ حفظان صحت اور اپنی شان کے خلاف باور کرتے ہیں اور  ہر ایسے ویسے پہ اپنی وی آئی پی  بھونک ضائع بھی نہیں کرتے بس رئیسانہ نخوت سے ہلکا سا غرا کر ہی کام چلا لیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی ٹچہ سامنے ہو تو حسب اوقات ایک ہلکی سی ‘بخ ‘ یا ‘بھوں’ ہی کو کافی سمجھتے ہیں- انہی میں سے ایک قسم ایسےجھبرے و بالدار کتوں کی ہوتی ہے کہ جن کے جسم کا نوے فی صد انکے بالوں پہ مشتمل ہوتا ہے اور قدرت نے ان کے دیگر سب اعضاء کو باقی کے دس فیصد میں ہی ایڈ جسٹ کردیا ہوتا ہے۔۔۔ ان بالوں کے انبار میں ایسے کتے کے آغاز و اختتام کا سراغ لگانا بھی کوئی آسان کام نہیں اور عام طور پہ اسکے منہ کا تعین اسکے بھونکنے سے ہی کیا جاتا ہے

ادھر رذیل کتے کو سمجھنے کی مطلق ضرورت ہی نہیں کیونکہ اسکا کو ئی فائدہ نہیں ، اسے سمجھنے سے پہلے وہ آپکو سمجھ چکا ہوگا ۔۔۔ عموماً نقاہت سے اسکا پیٹ بہت اندر اور آنکھیں بہت باہر نکلی ہوتی ہیں، لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ کھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ، درحقیقت وہ سب کچھ ، اور ہر وقت بےتکان کھانے پہ یقین رکھتا ہے اور یہی اسکا واحد مقصد حیات ہے ، پھر بھی وہ ہر وقت بھوکا ہی معلوم ہوتا ہے  ۔۔۔۔ یہ دراصل کتوں کا وہ طبقہ ہے کہ جسکی صرف 2 حسیات ہی مسلسل کام کرتی ہیں ایک بھوک کی حس اور دوسری مسلسل بھونکنے کی حس ۔۔۔ بعضے لوگ ایک ‘ تیسری حس’  کا حوالہ بھی دیتے ہیں لیکن اصل میں وہ بھوک کی ذیل میں ہی شمار کی جانی چاہیئے ۔۔۔ مگر اسکا کھایا پیا جاتا کہاں ہے یہ برمودا ٹرائی اینگل جیسا کوئی اسرار ہے – اس قسم کے کتوں میں  جو جتنا بھوکا ہوتا ہے اتنا ہی  بھونکتا ہے اور اسکے درجات اپنے طبقے میں اتنے ہی بلند ہیں – رذیل کتا اسلیئے بھی رذیل سمجھا جاتا ہے کہ وہ لنگی پاجامے اور پتلون پہ یکساں مستعدی سے بھونکتا ہے، تاہم پتلون پہ اگر کوٹ بھی ڈاٹا ہوا ہو تو پھر دیہاتی کتا خواہ بھونکنے میں مناسب رعایت نہ بھی کرے ، لیکن  شہری کتے قدرے لحاظ کرتے ہیں اور انکی آواز میں ایسے اپ ٹو ڈیٹ بابوؤں کے لیئے شدت و خباثت کی مقدار خاصی  کم پائی جاتی ہے۔۔۔

ویسے یوں تو خصلت کے اعتبار سے کتے یکساں سمجھے جاتے ہیں لیکن کچھ کتوں کو قدرت سے مصلحت کوشی فراواں عطا ہوئی ہوتی ہے اورانکی جسمانی صحت انہیں حد درجہ پر امن بلکہ صلح کل کا اشتہار بنائے رکھتی ہے اور وہ کتا گیری کی حد کو عبور کرنے کی خود سے بھی کوشش نہیں کرتے ، لیکن اگر آپکے ہاتھ میں کوئی مضبوط سا ڈنڈا یا بڑا سا پتھر ہو تو پھر آن دی اسپاٹ بھونکنے سے پہلے وہیں کھڑے کھڑے غرانے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسے میں انکی غراہٹ میں بھی بڑی عملیت پسندی جھلکتی ہے ، جسکا فوری ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ تو میرا بھرم رکھ بھائی میں تیرا لحاظ کروں گا،،، تاہم دور سے دیکھنے والے کو بھی بخوبی محسوس ہوجاتا ہے کہ ۔۔۔۔ دونوں طرف ہے ہوا برابر کی نکلی ہوئی ۔۔۔۔ عجب بات یہ ہے کہ کہیں اجنبی اور سنسان سی جگہ پہ اگر 2 کتے بھی کھڑے ہوں تو نجانے کیوں  کبھی چاریا پانچ سے کم نہیں لگتے ۔۔۔ لیکن شرافت کے قرینوں اور عام جسمانی کیمسٹری کی رو سے اوسان خطا کرنے کے لیئے تو ایک سالم کتا بھی کافی سے زیادہ ثابت ہوتا ہے۔۔۔ ایسے موقع پہ اگر آپ نے پہلے سے کوئی دفاعی اوزار نہیں تھاما ہوا تو پھر خود سے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب جو کرے گا وہ کتا ہی کریگا ، تاہم اطمینان رکھیئے کہ بعضے کتے برائے نام کتے ہوتے ہیں اور وہ صرف سونگھ کر آگے بڑھ جانے پہ یقین رکھتے ہیں ، ایسے میں بس یہی دعا کرنی چاہیئے کہ ایسے کسی سونگھتے کتے کو آپکی بو ناگوار خاطر نا ہو ، اور اسکی قوت شامہ کو فوری شدید صدمہ نہ پہنچے، ورنہ وہ یہ صدمہ آپکو منتقل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گا ۔۔۔ لیکن اس نازک وقت دعا مانگنے سے متعلق ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ یہ دعا کرنا یاد کیسے آئے کیونکہ اس ہولناک مرحلے پہ تو آیت الکرسی بھی یاد نہیں آپاتی، پھر بھی سنسان رستے میں کسی کتے کی ذد میں موجود کسی بھی عاقل فرد کو شانت رہنے کی اپنی سی کوششں ضرور کرنی چاہیئے کیونکہ کوئی بھی کتا ، اگر وہ واقعی کتا ہے تو اسے ایسے میں بے تحاشا کتا پن کرنے سے روکنا آپ کا نہیں ، اس سے بھی بڑے کتے ہی کا کام ہے ۔(سید عارف مصطفی)۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں