Seena Ba Seena 96

سینہ بہ سینہ  96

دوستو،سب سے پہلے تو طویل غیرحاضری کی بہت معذرت۔۔ مصروفیات بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے آپ سے دور رہنا پڑتا ہے، لیکن آج اس نیت سے آیا ہوں کہ آپ کو ڈھیر ساری مخبریاں دی جائیں، جو پپو نے دی ہیں،ساتھ ہی اس نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر سینہ بہ سینہ نہیں لکھ رہے تو بتادو، میں مخبریاں دینا بند کردیتا ہوں، ہمیں آپ لوگوں سے نہیں پپو سے خوف آتا ہے، کیونکہ جب ایک بار کمنٹمنٹ کرلیتا ہے تو پھر اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا۔۔گزشتہ سینہ بہ سینہ میں ہم نے آپ سے کچھ وعدے کئے تھے،(ملاحظہ کیجئے سینہ بہ سینہ 95)۔۔تو آج یہ سب آپ کو بتائیں گے۔۔ پپو کی مخبریاں بے تحاشہ ہیں۔۔۔کوشش کریں گے کہ ایک یا دو ، دو روز کے وقفے سے آپ کو لگاتار سینہ بہ سینہ کی کچھ تازہ اقساط دے دیں۔۔ تاکہ اگلی پچھلی ساری کسر نکل جائے۔۔۔باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔ چلتے ہیں جلدی جلدی مخبریوں کی جانب۔۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں سما کی۔۔ جہاں  گزشتہ  دنوں آؤٹ آف دا باکس جامعہ کراچی کو فوکس کیاگیا ۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ جنسی ہراسمنٹ کے حوالے سے شہرقائد کی سب سے بڑی جامعہ کو ٹارگٹ کیا  گیا۔ اس طرح کی مہم سے اس حادثے کے ذمہ داروں کو شاید کویٔ فرق نہ پڑے۔ مگر ہزاروں مڈل کلاس بچیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کا جامعہ جانا بند کروا دیں گے ۔۔ اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔۔ایک بار اپنے آپ سے پوچھئے  گا ضرور ۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس خاتون اینکر سے یہ کمپین چلائی جارہی ہے وہ جامعہ اردو سے ماسٹرز ہیں، پپو نے محترمہ کے کلاس فیلوز سے تصدیق کے بعد بتایا کہ انہیں اسائمنٹ بھی خود لکھنے نہیں آتے تھے، کبھی کوئی کلاس نہیں لیتی تھیں۔۔ ایک بار پیپر میں نقل کرتی پکڑی گئیں توخاتون پروفیسر کو سما کا کارڈ دکھا کردھمکیاں دینے لگیں خیر سے خاتون پروفیسر ڈری نہیں اور محترمہ کو کلاس سے نکال دیا۔۔وہ کس طرح پاس ہوئیں لمبی داستان ہے، پپو نے کچھ کچھ بتائی ہے لیکن یہاں آپ کو بتاکر ٹائم ضائع نہیں کرنا چاہتا۔۔ کیوں کہ ابھی بتانے کے لئے بہت کچھ ہے۔۔اس موضوع کو پھر کبھی ڈسکس کریں گے۔جامعہ کراچی کے شعبہ پیٹرولیم ٹیکنالوجی میں طالبہ کی مبینہ ہراسمنٹ کو ہمارے بہت سے دوستوں نے رپورٹ کیا، کچھ رپورٹرز نے سوشل میڈیا پر بھی رائے زنی کی،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ خبر مکمل تحقیق کے ساتھ ہر زاویہ کو سامنے رکھ کر پیش کی گئی؟ اگر نہیں تو ہمارے نزدیک رپورٹر نے نہ صرف اپنے پیشے سے بددیانتی کی بلکہ ادارے کی ریٹنگ کی خاطر دانستہ یا نادانستہ پارٹی بن کر معاشرے کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا۔۔افواہ کو زبردستی خبر کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی گئی۔۔کیا یہ قابل غور بات نہیں کہ اس زبردستی بننے والی خبر کو رپورٹ بھی شعبہ ماس کمیونی کیشن سے ڈگری لینے والے رپورٹر نے رپورٹ کیا اس لئے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کوم کے اساتذہ اور بھی غمگین نظر آتے ہیں۔۔ ۔اس پر تازہ ترین یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے سما پر پابندی لگادی ہے کہ وہ عدالتی اجازت کے بغیر جامعہ کراچی کے خلاف کوئی خبر نہیں چلائیں گے۔۔پندرہ مئی تک کی پابندی ہے، عدالت میں سماکی جانب سے پیش ہونے والی محترماؤں کو بھی جج صاحب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ، آپ تو خواتین ہیں آپ ہی تھوڑا لحاظ کرلیتیں۔۔سما کے حوالے سے ہی گزشتہ دنوں پپو نے خبر دی تھی کہ ایک خاتون اینکر کو فارغ کردیاگیا دوسری زیرعتاب ہے۔۔ اس حوالے سے ابتدائی طور پر جو ہم نے اپنی ویب پہ خبر دی تھی اس سے یہ تاثر گیا کہ ہم برطرف ہونے والی اینکر کی سائیڈ لے رہے ہیں۔۔ جس ہراسمنٹ والے معاملے کا ابتدائی طور پر خبرمیں بتایاگیاتھا ،تحقیق پر وہ بھی چھ ماہ پرانا کیس نکلا۔۔محترمہ کو چینل مالک کی صاحبزادی کے ایک پراجیکٹ میں بطور اینکر رکھا گیا تھا جہاں، ان کا یہ حال تھا کہ کبھی بھارتی فوجیوں کو شہید قراردے دیتی تھیں، کبھی بیپر پر سوال کرتیں کہ شہید فوجیوں کو کہاں طبی امداد دی جارہی ہے۔۔ پی ایس ایل کے دنوں میں جب دو میچز لاہور میں تھے  اور بارش ہوگئی تھی تو موصوفہ کا کہناتھا  کہ لاہور میں خواتین گھروں سے نہ نکلیں ورنہ ان کے چہرے ڈیرن سیمی جیسے ہوجائیں گے۔۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹر کےکپتان سرفراز احمد تھے، جب کوئٹہ گلیڈی ایٹر کا میچ تھا تو موصوفہ نے سرفراز کے بولنے کے انداز کا مذاق اڑاتے ہوئے تتلاتے ہوئے اینکرنگ کی۔۔پپو کے مطابق محترمہ کی برطرفی کے لئے انتظامیہ کے پاس کافی کچھ جمع ہوچکا تھا، آخری پروگرام میں جب کہ آن ائر کےلئے کاؤنٹ ڈاؤن ہورہا تھا اور ایک بڑا افسر خود پی سی آر میں موجود تھا،محترمہ نے کاؤنٹ ڈاؤن پر کوئی رپلائی نہیں دیا،الٹا بڑے افسر پر چڑھائی کردی کہ کیا آپ کے گھر میں ماں بہنیں نہیں،خواتین سے اس لہجےمیں بات کرتے ہیں، معافی مانگیں مجھ سے۔۔ جس کے بعد معاملہ بوائلنگ پوائنٹ پہ پہنچا، اور مھترمہ کوفارغ کردیاگیا۔۔سما کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔

سما سے ہی پپو نے مزید مخبری دی ہے کہ ۔۔سماء کے ڈائریکٹر نیوز کی جانب سے اسٹاف کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دینے کا سلسلہ جاری ہے۔۔ اسلم خان کے بعد جب کوئی بیورو چیف کراچی نہیں ملا تو ایک جونیئر خاتون کو بیورو چیف کراچی بنا دیا۔۔ اب جب کراچی بیورو کی حالت ابتر ہو چکی تمام سینئر رپورٹر، کیمرہ مین اور اسائنمنٹ ایڈیٹرز بیورو سے جاب چھوڑ کر جا چکے اور مزید کوئی آنے کو تیار نہیں۔۔ ایسے میں بیورو کی پرفارمنس زیرو ہو گئی ہے۔۔۔ ان حالات میں  ڈائریکٹر نیوز نے  دماغ چلایا اور خاتون بیورو چیف کے خلاف رپورٹ تیار کرنے کا ٹاسک ایک قابل اعتماد سینئر پروڈیوسر کو دے کر کراچی بیورو بھیجا۔۔ مگر وہ سینئر پروڈیوسر بھی بلا کا صاف گو نکلا۔ اور سیدھا سیدھا جواب دے دیا کہ وہ اپنے کندھے پر بندوق رکھ کر نہیں چلانے دے گا۔۔ لیکن دنیا نیوز لاہور سے بڑی التجاؤں سے واپس بلائے گئے اس سینئر پروڈیوسر کا انکارصاحب جی  کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ پھر انہوں نے اپنا دوسرا داؤ کھیلا۔۔ پہلے خاتون بیورو چیف کو یقین دلایا کہ تمہاری جاب کو کوئی خطرہ نہیں میں تو اس سینئر پروڈیوسر کو سیدھا کرنا چاہتا ہوں تم اس کے خلاف رپورٹ دو۔۔ جب اس نے خوشی خوشی من گھڑت رپورٹ لکھ دی تو اس کے بعد ڈی این  نے کراچی کے تمام رپورٹرز کی میٹنگ بلائی اور پہلے ایک گھنٹہ سب کی برین واشنگ کی کہ آپ سب باصلاحیت ہو بس بیورو میں صرف لیڈر شپ کی کمی ہے۔ جلد بڑی تبدیلی آنے والی ہے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ جب رپورٹرز کی اکثریت کو تبدیلی کا یقین ہو گیا تو پھر دوسرے گھنٹے میں بیورو چیف کو بلا لیا گیا۔۔ اور یوں سب رپورٹرز نے اپنی باس کی موجودگی میں سارا سچ اگل دیا کہ ان کی باس کا رویہ ٹھیک نہیں ہم ان کے ساتھ کام نہیں کر سکتے۔۔ ایک خاتون رپورٹر نے تو کھل کر سب سچ بیان کر ڈالا۔ مشن مکمل کر کےڈی این نے  ایک طرف تو اس سینئر پروڈیوسر کو یہ پیغام دیا کہ دیکھ لو تم نے انکار کیا تو میں نے ایسے اپنا ٹاسک پورا کر لیا۔۔ اور دوسری طرف بیورو چیف کے خلاف چارج شیٹ بھی تیار ہو گئی۔۔ اس کے بعد عملدرآمد کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ جس میں پہلا نمبر سینئر پروڈیوسر کا آتا ہے۔ بیورو چیف سے کرائی گئی ای میل پر سینئر پروڈیوسر کو ایچ آر سے شوکاز دلوایا جاتا ہے۔ جس کا وہ انتہائی تفصیلی جواب دیتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی گومگوں کی صورتحال سے نکلنے کے لیے سماء کو خیرباد کہہ کر دوسرا چینل جوائن کر لیتا ہے۔۔ ایک مشن مکمل ہوگیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسرا مشن عنی بیورو چیف کی تبدیلی کا عمل کب شروع ہو تا ہے۔۔اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ گزشتہ ہفتے ہی سما میں مالک کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا ہے جس میں کچھ اہم فیصلے کئے گئے ہیں جس پر عمل درآمد اور ان فیصلوں کے ثمرات سما کے کارکنان آئندہ چند روز میں دیکھیں گے۔۔

اب ذکر بول کا ۔۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بول کا مالی بحران شدید ترہوچکا ہے۔۔ جس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ شعیب شیخ کے بغیر یہ ادارہ چل نہیں سکتا۔۔ کیونکہ  شعیب شیخ کے ہوتے ہوئے تنخواہیں وقت پہ ملتی تھیں لیکن وہ جیسے ہی گرفتار ہوئے، بول ملازمین تنخواہوں کے منتظر ہیں۔۔ پپو کے مطابق بول میں اگر کوئی سسٹم ہوتا تو کارکنان بھی اتنے پریشان نہ ہوتے ۔پپو نے بتایا ہے کہ واش روموں سے ٹشو پیپرز غائب ہونا شروع ہوگئے اور  فالتو لائٹیں بھی بند ہونا شروع ہوگئی ہیں، یہی سب کچھ دوہزار پندرہ کے بحران کی ابتدائی نشانیاں تھیں۔۔ پپو کے مطابق  پک اینڈ ڈراپ بھی آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے، کیونکہ زیادہ تر ڈرائیورز نوکری چھوڑ کر جارہے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ فیول بھی بند ہوگیا ہے۔۔پپو نے مزید بتایا کہ جب بول کے اندر دیوار پر تنخواہ نہ ملنے کے حوالے سے ایک پوسٹر کی تصویر آپ(عمران جونیئر) نے لگائی تو تصویر لگنے کے آدھے گھنٹے کے اندر ہی بول کے اندر کھلبلی مچ گئی، فوری طور پر دس افراد کو شک کی بنیاد پر بلالیاگیا اور ان سے تفتیش شروع کردی گئی،پوچھ گچھ کے دوران انتظامیہ کی جانب سے یہ نہیں بتایا جارہا تھا کہ تنخواہ کب ملے گی بار بار ایک ہی سوال پوچھا جارہا تھا کہ عمران جونیئر کو یہ تصویر کس نے بھیجی۔۔ پپو کے مطابق پروگرامنگ کی ایک خاتون ورکر پر الزام آرہا تھا حالانکہ پپو اور میرا اس بیچاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔ پپو نے مزید بتایا کہ جب آپ (عمران جونیئر) کی ویب سائیٹ پہ بول کی سیلزٹیم کی پی ٹی وی میں جانے کی خبر لگی تو فوری طور پر انتظامیہ نے سیلز ٹیم سے رابطہ کیا اور ان سے خبر کی تصدیق چاہی۔۔یعنی جہاں ایک طرف ہماری ویب اور ہمارے پیچ کا بول دفاتر میں داخلہ بندکردیاگیا، آئی ٹی نے ورکرز کے لئے ہماری ویب اور پیچ کو لاک کردیا ہے ، وہیں انتظامیہ اس کے باوجود ہماری  خبروں پہ فوری ایکشن بھی لیتی نظر آتی ہے۔۔ جس کی تازہ مثال اور پیش کرتے چلیں کہ سینہ بہ سینہ 94 میں  ہم نے بول کے کچھ اعلیٰ افسران کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے تفصیل بیان کی تھی، جس کا نوٹس لیتے ہوئے فلیٹ کے ہیڈ کو جو عہدے کے لحاظ سے وائس پریزیڈنٹ بھی تھے انہیں فارغ کردیاگیا اور کم و بیش وہی الزامات ان کی برطرفی کا باعث بنے جس کا ذکر پپو نے سینہ بہ سینہ میں کیا تھا۔۔

 بول کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، پپو کی بے تحاشہ مخبریاں ہیں لیکن خاص خاص ہی سناسکوں گا کیوں کہ وقت اور جگہ کی شدید قلت ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اسلام آباد بول بیورو میں خاتون ذمہ دار کے مدمقابل مرد رپورٹر کو فارغ کردیاگیا۔۔جب کہ دو سینئر رپورٹرز کو معطل کرایاگیا معطلی بھی اس نے کرائی جس کا فیلڈ میں تجربہ آدھا بھی نہیں۔۔ہیڈ آفس سے کہاگیا ہے کہ جو رپورٹر کام نہیں کرتا اسے فارغ کردیں۔۔بول کی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مالک جیل میں ہے، ایک کے بعد دوسرے کیس کی پیشیاں ہیں، یہ سارے مقدمات رمضان المبارک تک فائنل ہوجانے ہیں۔۔ صورتحال بہت نازک ہے۔۔اینکرز نے دوسرے چینلز پہ رابطے شروع کردیئے یہی حال دیگر بول والاز کا ہے، بول کی بحالی پر دوبارہ جوائن کرنے والے  پرانے بول والازکا بھی کہنا ہے کہ وہ صرف اسی مہینے ویٹ کرینگے ماضی کی طرح “خوشخبریاں” برداشت نہیں کریں گے، ماضی میں ہر ماہ ایک صاحب تمام بول والاز کو جلد خوشخبری ملنے کی خبر سناتے تھے۔۔انٹرتینمنٹ والا پراجیکٹ روک دیاگیا ہے، تمام ڈائریکٹر ز کو فارغ کردیاگیا۔۔ تین، تین ماہ کی تنخواہیں ابھی تک نہیں ملیں،، بول پنجابی ،ڈبنگ اور دیگر علاقائی چینلز کے ورکرز بھی فارغ کردیئے گئے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ شعیب شیخ صاحب بھی اپنا زیادہ ٹائم اب بول کے بجائے ایگزیکٹ میں گزار رہے ہیں۔۔دوسری طرف پریشان کن خبر یہ ہے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس میں سیشن جج کی جانب سے بری کئے جانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر کیس دوبارہ چلانےکا حکم دیا ہے۔۔۔ جس کے بعد اب شعیب شیخ سمیت تمام دیگر ملزمان کو دوبارہ سے ضمانتی مچلکے جمع کرانے ہوں گے۔۔

اب ذکر آج نیوز کا۔۔ جہاں کے معاملات دن بدن بگڑتے ہی جارہے ہیں ،ایک زمانہ تھا جب طلعت حسین یہاں ڈائریکٹر نیوز تھے تو یہ چینل باقاعدہ ریٹنگ مارتا تھا اور اس کا شمار اچھے چینلز میں ہوتا تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر عامر احمد خان(آخری ڈائریکٹر نیوز) کے جانےکے بعد سے یہاں کوئی پرسان حال نہیں، نیوزچینل بغیر کسی نیوز ہیڈ کے چل رہا ہے۔۔ پپو کوایک بار فون پر ایسے ہی آج نیوز کا نام لے کر کہا کہ یار تم وہاں کی خبرتودیتے نہیں لاہور،اسلام آباد تک پہنچ رکھتے ہو،یہ کیا ماجرا ہے، جس پر وہ قہقہہ لگاکے بولا، عمران بھائی یہ چینل چونکہ گرومندر پر واقع ہے اس لئے وہاں سے گزر نہیں ہوتا اور وہاں کے معاملات قابو میں نہیں آتے، لیکن پھر انہوں نے تسلی دی اور اب کچھ بہت ہی عجیب وغریب سی مخبریاں لاکر پیش کردیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ آج نیوز کے خراب معاملات کی سب سے بڑی وجہ وہاں موجود ایسے صاحب ہیں جو اس وقت قائم مقام ڈائریکٹر نیوزکے عہدے پرکام کررہے ہیں۔۔ پرائم ٹائم میں موصوف دفتر سے غائب پائے جاتے ہیں ،پپو کا کہنا ہے کہ موصوف کا آفس ہی ایک خاتون اینکر سے برسوں پرانا معاشقہ چل رہا ہے، جس کا نہ صرف دفتر کے درودیوار بلکہ باہر کھڑے گارڈز، دفتر کے قریب ہی موجود “بلوربن بیکری” والوں سمیت آس پاس کی دیگر شاپس والوں کو بھی پتہ ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ وہ خاتون اینکر یہاں آنے سے پہلے نیوزون میں تھیں جہاں ان کی ایک متنازع سی وڈیو لیک ہوگئی جس کے بعد وہ آج نیوز آگئیں۔۔انہیں یہاں لانے میں ایک پرڈیوسر کا ہاتھ تھا۔۔ پپو کے مطابق خاتون اینکر نے یہاں انٹری مارتے ہی سب سے پہلے ایک مزاحیہ پروگرام ” فورمین شو” کے ایک فنکار سے دوستی بڑھائی،جو اتنی بڑھ گئی کہ شوہر نے دفتر میں ہی آکر سب کے سامنے موصوفہ کی دھلائی کردی۔۔جس کے بعد یہ کچھ وقت کے لئے گھر بیٹھ گئیں اس کے بعد دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر آنے لگیں۔۔پپو کاکہنا ہے کہ موصوفہ نیوزاسٹوڈیو کے بجائے اپنا زیادہ وقت ڈی این کے کمرے میں گزازرتی ہیں،جو بھی ان سے پنگا لینے کی کوشش کرتا ہے اسےچٹکیوں میں نکلوادیتی ہیں۔۔پپو کاکہنا ہے کہ آج نیوزمیں چار کا ٹولہ بڑا مشہور ہے، جس میں ایک قائم مقام ڈی این ہیں،ایک صاحب جو اسی ٹولی میں شامل ہیں ان کا بھی اسی چینل کی ایک اور خاتون اینکر سے چکر چل رہا ہے، وہ محترمہ بھی اس حوالے سے دفتر میں مشہور ہیں کہ کبھی ٹائم پر ہیڈلائن نہیں کرتیں اور حد سے زیادہ چھٹیاں کرتی ہیں۔۔ایک صاحب جو اس ٹولی میں شامل ہیں ان کا کام ڈیوٹیاں لگانا، شفٹیں لگانا اور اینکرز کے معاملات دیکھنا ہے۔۔ اسی ٹولی کے چوتھے صاحب اسی چینل کے ایک پروگرام کے اینکر ہیں ،یہ پروگرام اینکر بڑے صاحب کے بھائی بھی بنے ہوئے ہیں حالانکہ جن سے بڑے صاحب کا معاشقہ ہے ، انہی محترمہ کے ساتھ بڑے صاحب نے انہیں کار میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا، جس پر پروگرام اینکر نے بڑے صاحب پہ گن بھی تان لی تھی۔۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ دفتر میں کوئی کام اس چار کے ٹولے کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔۔۔ پپو نے ماضی کی یادوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ۔۔یہاں کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون اینکر کافی اختیارات کے ساتھ آئیں، پھر ان کے دل میں نجانے کیا سمائی انہوں نے ادارے سے پانچ سال کا کنٹرولر نیوز کا جعلی لیٹر بنوالیا اور اس کے بعد انہوں امریکا کی یوایس ایڈ کے اندر کچھ ایسا چکر چلایا کہ اب انہیں امریکا سے ڈالروںمیں امداد آتی ہے۔۔ یہ معاملہ سامنے آنے پر انتظامیہ نے خاتون اینکر کو فوری فارغ کردیا اور ڈائریکٹر نیوز کو بھی ایک ماہ کا وقت دے کر انہیں بھی فارغ کردیاگیا۔۔  آج نیوز سے متعلق پپو کی ڈھیر ساری مخبریاں ابھی باقی ہیں، جتنا کچھ بتایا ہے یہ روپے میں چارآنے بھی نہیں۔۔ چار کے ٹولے ، خاتون اینکر سے متعلق مزید تفصیل اگلے سینہ بہسینہ کے لئے رکھتے ہیں، ورنہ دیگر چینلز کی مخبریاں رہ جائیں گے۔۔۔

پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔۔  مرحوم مجید نظامی کے دور میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کے دار فانی سے رخصت ہونے کے بعد نوائے وقت گروپ کے یہ حالات ہونگے  ۔  وہ ادارہ جہاں کبھی تنخواہ کی ادائیگی میں شاید ہی کبھی چند دن کی تاخیر ہوئی ہو۔ آج باقاعدہ ایک بیگار کیمپ کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ جنوری کی تنخواہ گول ہوچکی ہے جبکہ فروری کی تنخواہ کی ادائیگی کے بعد مارچ کی تنخواہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔۔یوں تین ماہ کی تنخواہ نیچے لگا لی گئی ہے ۔یہ امر قابل غور ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ادارے کی مالکہ رمیزہ نظامی کو کارکنوں کی تنخواہیں فوری ادا کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں ۔ جنہیں ہوا میں اڑا دیا گیا۔ ۔

ہم نیوز کے حوالے سے پپو نے بتایاہے کہ ہماری ویب سائیٹ پہ ہم نیوز سے متعلق پچھلے دنوں کچھ خبریں لگاتار شائع ہوئیں ،جس کے بعد اب ہم ٹی وی اور ہم نیوز کے تمام “بڑے” ہماری ویب سائیٹ کا وزٹ کرنے لگے ہیں۔۔ کنفرمیشن لیٹر بھی ورکرز کو دینا شروع کردیاگیا ہے۔۔ ہم نیوز والوں کے لئے بھی پپو اب بہت اہم ہوگیا ہے، کراچی بیورو میں تو پپو کو باقاعدہ ڈھونڈا جارہا ہے، اس سلسلے میں ایک اسائنمنٹ ایڈیٹر خاصا سرگرم ہے جس کی خاص عادت ہے کہ وہ  دوران ڈیوٹی لڑکیوں پہ زیادہ مہربان نظر آتا ہے۔۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی اور لاہور میں جو بیوروچیفس انتظامیہ نے رکھے ہیں وہ کسی کام کے نہیں۔۔ کیوں کہ کراچی میں ایک خاتون رپورٹرانتہائی پاورفل ہیں، جو وہ کہتی ہے وہاں کے بیوروچیف سرتسلیم خم کردیتے ہیں، پپو کے مطابق ایچ آر والے ہوں یا ڈائریکٹر نیوز، سلطانہ آپا ہوں یا درید قریشی صاحب۔۔ انہیں کھلا چیلنج ہے کہ وہ ان محترمہ کی اہلیت تو چیک کریں کہ کیا وہ رپورٹر بھی بننے کے قابل ہیں۔۔جسے اردو تک ٹھیک سے لکھنا نہ آتی ہو ، جس کے اسکرپٹ دفتر کے دیگر لوگ لکھتے ہوں اسے رپورٹر کی تنخواہ کیوں اور کیسے دی جارہی ہے۔۔ اسی طرح لاہور میں ایک محترمہ کھلے عام کہتی ہیں کہ وہ لاہور میں ندیم رضا کی نمائندہ ہیں، لاہور کا بیوروچیف بیچارہ پریشان ہے کہ یہ ہوکیارہا ہے، کیونکہ وہ محترمہ اپنی مرضی کے احکامات اسلام آباد سے منظور کرالیتی ہیں، گزشتہ دنوں انہوں نے ایک نرالا حکم یہ منظور کرایا کہ ہر رپورٹر جو بھی فیلڈ میں ہوگا ہر ایک گھنٹے بعد ان محترمہ کو فون پر بتائے گا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کررہا ہے؟۔۔ پپو کے مطابق کراچی اور لاہور میں ورکرز پریشان  ہیں کہ اصلی بیورو چیف کون ہے؟  قوانین کے حساب سے جو بیوروچیفس ادارے نے مقرر کئے ہیں وہ بالکل بے اختیار نظر آرہے ہیں اور دونوں جگہ “وومین پاور” ہی نظر آرہی ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ آپا ہوں یا درید قریشی،یا کوئی اور گروپ ڈائریکٹر وہ کراچی اور لاہور بیورو میں خفیہ طور پر تحقیقات کرالیں، اگر ہماری اطلاعات غلط نکلیں تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا۔۔ بیوروز میں جب گروپ “بندی” ہو تو پھر کام نہیں سازشیں ہی ہوتی ہیں جس سے عام ورکر کا مورال تو ڈاؤن ہوتا ہی  ہے چینل کا کام بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے ہم نیوزکی ٹیسٹ ٹرانسمیشن بھی اب تک شروع نہیں ہوسکی۔۔ اب کہاجارہا ہے کہ یکم مئی سے شروع کی جائے گی۔۔ حیرت انگیز معاملہ تو یہ ہے کہ دوتین بار اناؤنسمنٹ کے باوجود اب تک ٹیسٹ ٹرانسمیشن ہی شروع نہ ہوسکی، اب اسے کس کی نااہلی کہیں گے؟

پپو کی مخبریاں ابھی ختم نہیں ہوئیَ۔۔ مزید انکشافات تین روز بعد۔۔۔ جب تک کے لئے اپنا خیال رکھیں۔۔۔(علی عمران جونیئر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں