Seena Ba Seena

سینہ بہ سینہ قسط نمبر 68

دوستو ، مصروفیات کی وجہ سے اس بار آپ کے فیوریٹ ترین سلسلے سینہ بہ سینہ کی تازہ قسط معمول سے کچھ لیٹ ہوگئی۔۔ لیکن اب معاملات کنٹرول میں ہیں، اس لئے کوشش ہوگی ، ہفتے میں ایک بار تو لازمی آپ اپنا پاپولر سلسلہ ضرور پڑھ سکیں۔۔سب سے پہلے تو شکرگزار ہوں کہ کے یو جے کے صدر حسن عباس بھائی کا۔۔ ملتان میں ایک دکھیاری ماں کے حوالے سے میری ایک پوسٹ پر انہوں نے فوری طور پر مدد کی۔۔پھر اس چینل والوں کو بھی کچھ غیرت آئی اور تین ماہ کی تنخواہ فوری طور پر گھر پہنچا دی۔۔ بات تنخواہوں کی ہورہی ہے تو کچھ روز پہلے اس حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں۔۔ شکر ہے کہ کراچی کی صحافتی تنظیموں نے اس کا نوٹس لیا۔۔ کے یوجے نے اے آر وائی سے رابطہ کیا،فروری کی رکی ہوئی تنخواہیں فوری دلوائیں۔۔ کے یو جے دستوری نے وڈے چینل سے رابطہ کیا، وڈے مالک نے بھی دو ماہ تنخواہوں میں تاخیر کا معاملہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔۔اسی طرح آج چینل کی انتظامیہ نے بھی دستوری گروپ کو تنخواہوں کا بحران جلد دور کرنے کی یقین دہائی کرائی۔۔کیا لاہور کی صحافتی تنظیمیں بھی تنخواہوں میں تاخیر کا نوٹس لیں گی؟َ کیا وہ بھی کراچی کی تنظیموں کی طرح چینلزمالکان یا چینلز انتظامیہ سے ملاقاتیں کرکے انہیں مجبور کرینگی کہ اپنے کارکنوں کو ہرماہ تنخواہ وقت پر اداکریں۔۔؟ لاہور میں صورتحال کچھ زیادہ بہتر نظر نہیں آرہی۔۔ کیونکہ یہاں کام کم اور سیاست زیادہ ہورہی ہے۔۔ پی ایف یو جے کے دو حصے ہیں۔۔پنجاب یونین آف جرنلٹس کے دو دھڑے بنادیئے۔۔ ایمرا کو تقریبا تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔۔ ایمپرا میں بھی دو گروپس ایک دوسرے کے نظریاتی طور پر مخالف ہیں۔۔اینکا کو بھی اس بار الیکشن سے قبل دو حصوں میں تقسیم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔۔ حیرت انگیز طور پر ان تمام معاملات میں “بڑے” ہی ملوث ہیں، ہر سازش کا گڑھ” شملہ پہاڑی” نکلتا ہے اور “شملہ پہاڑی” کیلئے ہی نکلتا ہے۔۔، ڈوریں وہیں سے ہلائی جاتی ہیں۔۔وہاں سے گروپنگ کو شہ دی جاتی ہے، ایمرا کو کمزور کرنے کیلئے وہیں سے دوسرا گروپ تشکیل دیا گیا، اینکا کیلئے بھی وہاں کھچڑی تیار کی گئی اور اینکا کی ٹکر پر “ٹینکا” بنائی گئی لیکن وہ تو کیمرہ مینوں کی تنظیم اینکا نے ثابت کردیا کہ وہی پورے پنجاب کے وڈیوجرنلٹس کی واحد نمائندہ تنظیم ہے، ٹینکا کو جب محسوس ہوا کہ وہ صرف خالی بلبلہ ہے تو اس نے بھی اینکا میں شمولیت میں ہی عافیت سمجھی اور اینکا کے اتوار کےروز ہونے والے الیکشن میں حصہ لیا۔۔اب لاہور میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی تنظیم کسی چینل کے خلاف کسی احتجاج کا اعلان کرتی ہے تو باقی تنظیمیں اس کا بائیکاٹ کرتی ہیں، گنتی کے دوچار لوگ احتجاج کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ان لوگوںمیں آپس میں اتفاق نہیں، صحافتی تنظیموں کی دھڑے بندی اور سیاست بازی کا فائدہ چینلز اور اخبار انتظامیہ اٹھاتی ہے اور ظلم کی چکی میں ورکرز بیچارے پستے ہیں۔۔پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ورکرز کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کو اپنے ورکرز کا خیال رکھنا چاہیئے۔۔یہ تنظیمیں فی الحال اپنے دو ٹارگٹس رکھیں۔۔ پہلے تو تنخواہوں کی بروقت ادائیگیاں، دوسرا کچھ چینلز پر ورکرز کی کئی ماہ سے رکی ہوئی تنخواہیں دلوانا۔۔ ساتھ ہی کوشش کریں کہ پیمرا کو اس بات کا پابند بنایاجائے کہ اگر حکومت مخالف کوئی خبر چلنے کا وہ فوری نوٹس لے کر چینلز پر جرمانہ لگاتی ہے تو وہ ایسے چینلز پر بھی جرمانے عائد کرے جو کارکنوں کو کئی کئی ماہ تنخواہوں کیلئے رلاتے ہیں اور دوماہ بعد ایک ماہ کی تنخواہ دیتے ہیں۔۔اس سلسلے میں سخت اور فوری لائحہ عمل بنانے کی فوری ضرور ت ہے۔۔ کراچی کی تنظیمیں برائے کرم بزنس پلس اور کے 21 چینلز پر بھی توجہ دیں، جہاں کے کارکنان بھی تنخواہوں سے محروم ہیں، بزنس پلس کے جی ایم صاحب تو چار لاکھ روپے اپنے کمرے کی شان و شوکت بڑھانے پر لگاسکتے ہیں، کیا وہ اتنا نہیں سوچتے کہ اتنے پیسوں میں کئی ملازمین کی تنخواہیں نکل جاتیں۔۔ اسی طرح اسلام آباد کی تنظیمیں برائے مہربانی کیپٹل ٹی وی کے ملازمین کا دیرینہ مسئلہ حل کرائیں اور انہیں ان کی کئی ماہ سے رکی ہوئی تنخواہیں دلوانے میں مدد کریں۔۔ امید ہے کہ ہماری تنظیمیں اپنے کارکنوں سے مخلص نکلیں گی اور ظلم کا شکار ورکرز کو انصاف دلائیں گی۔۔

گلگت بلتستان کے تمام اخبارات انتظامیہ کی جانب سے ازخود بند کرائے جانے کی اطلاع بھی آپ لوگوں کو دی تھی، جس کے اگلے ہی اسلام آباد میں صحافیوں نے احتجاج کیا،اب تین اپریل سے انتظامیہ نے اخبارات بحال کردیئے، شکر ہے، ورنہ خدشہ تھا کہ بڑی تعداد میں ہماری برادری کے کئی مزدور بیروزگار ہوجاتے۔۔

چلیں اب کچھ کام کی باتیں کرلیں جو پپو نے اس بار آپ لوگوں کیلئے تلاش کی ہیں۔۔شروع کرتے ہیں۔۔ تین اینکرنیاں ، تین کہانیاں سے۔۔ پہلی کہانی: سب سے پہلی کہانی پیش ہے ایک محترمہ کی۔۔ جنہوں نے کیرئر کا آغاز بطور نیوزاینکر شروع کیا، لیکن بدقسمتی سے ناکام ترین نیوز اینکر ثابت ہوئیں تو پھر مارننگ شو کی طرف منہ کرلیا۔۔ یہ محترمہ کئی چینلز کی یاترا کرچکی ہیں، کہیں سے نکالی گئیں تو کہیں کام نہ آنے کی وجہ سے خود چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔۔ ان دنوں کراچی کے ایک چینل پر مارننگ شو کررہی ہیں۔۔ لیکن وہاں بھی ان سے افسران سے لے کر ڈرائیور سب ہی تنگ ہیں۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صحافیوں کی ایک این جی او میں عہدہ بھی لینے میں کامیاب ہوگئیں۔۔ یہ این جی او اینکرز کی “فلاح و بہبود” کے حوالے سے خاص شہرت رکھتی ہے۔۔

دوسری کہانی: یہ قصہ ہے اسلام آباد کے ایک چینل کا۔۔19 مارچ کی شام 5 بجکر 52 کا واقعہ ہے، ایک خاتون اینکر اسٹوڈیو میں پروگرام کرکے اپنا مائیک اتار رہی تھی کہ ایک “صاحب” اندر داخل ہوئے، بدتمیزی شروع کردی اور گھٹیا گفتگو کا آغاز بھی۔۔یہاں تک کہ ان صاحب نے خاتون اینکر پر حملہ آور ہونے کی بھی کوشش کی۔۔مزاحمت پر جان سے مارنے کی دھمکی دی۔۔تمام اسٹاف وہاں موجود تھا اور اسے روکنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔تو وہ صاحب بولے کہ اسے اپنی نوکری سے کوئی پیار نہیں وہ اینکر کو نہیں چھوڑے گا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ اس تمام واقعہ کے پیچھے کہانی یہ تھی کہ محترمہ نے ڈیوٹی کے حوالے سے انتظامیہ کی جانب سے بنائے گئے واٹس ایپ گروپ میں پروگرام کا پوچھا،ڈیوٹی کا پتہ کیااور دیگر میل اینکر ز کا بھی ، کیونکہ وہ پروگرام” سولو” تھا جب کہ دیگر اینکرز موجود تھے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ وہ اینکر اس چینل میں ایک سال سے کام کررہی ہے، پہلے کبھی وہاں کسی خاتون کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا،پپو کے مطابق خاتون اینکر نے فوری طور پر چینل کے مالک کو ساری صورتحال سے آگاہ کردیا اور کہا ہے کہ جب تک تحفظ کی یقین دہانی نہیں کرائی جائے گی وہ کام نہیں کرے گی۔۔

تیسری کہانی: کراچی کے ایک چینل میں ایک خاتون اینکر کی بلیٹن کے دوران طبیعت خراب ہوگئی، اسے فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں اسے انجکشن لگایاگیا تو اس کی طبعیت مزید بگڑ گئی، انجکشن کا ری ایکشن ہوگیا۔۔ فوری طور پر اس کے شوہر کو اطلاع دی گئی۔۔وہ اسپتال پہنچا، اور اسپتال انتظامیہ کو برابھلاکہا۔۔ڈاکٹرز نے بتایا کہ انہیں بتایا نہیں گیا تھا کہ وہ خاتون اینکر ماں بننے والی ہیں، فوری طور پر طبی امداد دینے کیلئے انجکشن دیاگیا جس سے ری ایکشن ہوگیا۔۔

تین اینکرنیوں تین کہانیوں کے بعد تین چینلز کی بھی بات کرلیتے ہیں۔۔سب سے پہلے ذکر اے آر وائی کا۔۔ دانش خواجہ کی جگہ اداکار ہمایوں سعید کو رکھ لیاگیا ہے ،پپو کا کہنا ہے کہ ہمایوں سعید کو جے جے (جرجیس ) کے برابر اختیارات دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے امکان ہے مستقبل قریب میں دونوں میں تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔۔ہمایوں سعید کو اے آر وائی زندگی کے ہیڈ کا عہدہ دیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اے آر وائی ڈیجیٹل کے لئے کسی بھی ڈرامے یا سیریل کو خریدنے کا سودا بھی کرسکتا ہے۔۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمایوں خود بھی ایک پروڈکشن ہاؤس کے مالک ہیں، اور دانش خواجہ سے بھی اسی لئے جان چھڑائی گئی تھی کہ وہ پرائیویٹ کام کو ترجیح دیتا تھا۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ اے آر وائی کے ایک “صاحب” کے دن گنے جاچکے۔۔ جب کہ ایک اور صاحب “کنٹرول” سے باہر ہونے لگے ہیں، اپنے قریبی لوگوں کو کہتے پھر رہے ہیں کہ تیاری پکڑ لو۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اے آر وائی میں کچھ لوگوں پر باقاعدہ شک کیا جانے لگا ہے کہ وہ “پپو” ہیں۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ اب عتاب کا شکار ہیں، کبھی ٹائمنگ کے حوالے سے ان کی کلاس لی جاتی ہے کبھی کسی بہانے کی آڑ میں غصہ نکالا جاتا ہے۔۔۔ اے آر وائی کی انتظامیہ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ساری انرجی فضول ضائع کررہی ہے، جن لوگوں پر انہیں شک ہے یہ سب معصوم اور بے قصور ہیں، ان بیچاروں کا صرف قصور یہ ہے کہ یہ لوگ پپو کے چاہنے والے ہیں،پہلے بھی بتاچکا ہوں، پپو کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔۔۔پپو نے کچھ عرصے پہلےدفتر میں چرس پینے والی مخبری دی تھی، اب انتظامیہ نے نیوزفلور پر سختی کردی ہے، بہت اچھی بات ہے، پان ، گٹکا کھانے والوں پر پابندی لگادی ہے، ویری گڈ۔۔چرس والی پپو کی مخبری پر اے آر وائی نے جس طرح سنجیدہ انداز میں ایکشن لیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔۔ امید ہے کہ آئندہ بھی پپو کی مخبریوں کا نوٹس لیا جائے گا۔۔پپو ہمیشہ ورکرز کی حمایت میں بولتا آیا ہے۔۔ افسر شاہی کا مخالف ہے پپو۔۔ پپو یہ بھی جانتا ہے افسر شاہی نوکریاں صرف اپنے کام سیدھے کرنے کیلئے کرتی ہے۔۔ کسی افسر کا گاڑیوں کا شوروم ہے توکسی کے فارم ہاؤس پر نسلی گھوڑے ہیں۔۔ کسی نے پیسہ دبئی کی پراپرٹی پر لگایاہوا ہے ۔۔ کچھ پروڈکشن ہاؤسز چلارہے ہیں کسی نے ٹریول ایجنسی کھولی ہوئی ہے۔۔مہران میں گھومنے والے افسران اب “ویگو” رکھتے ہیں، جس سے ان کی”ترقی” کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔۔ اب ذکر لاہور کے 24 چینل کا۔۔ پہلے تو سوچا کہ پپو کی یہ مخبری اینکرنیوں کی کہانیوں میں ڈال دوں لیکن ۔۔پپو کی جانب سے وافر مقدار میں مخبریوں کی آمد کے بعد سوچا کہ آج ہی آپ لوگوں سے شیئر کردوں۔۔۔ دوسری چینل کہانی کچھ یوں ہے کہ 24 چینل میں ایک خاتون اینکر کی میک اپ مین سے لڑائی ہوگئی جو کئی دن جاری رہی، پھر ایک روز اچانک دونوں نے صلح کرلی، جس روز صلح ہوئی اسی دن میک اپ روم میں ایک اور خاتون اینکر نائرہ ملک بھی بیٹھی ہوئی تھی، اس نے دونوں کو مبارک باد دی، پپو کا کہنا ہے کہ اسی دوران وہاں ایک اور خاتون اینکر آگئی، جس نے کوئی ایسی بات کردی جس پر نائرہ ملک نے اپنا ردعمل دیا، اچانک آنے والی خاتون اینکر نے اس بات کا الٹا مطلب لیا، پھر دونوں میں توتومیں میں ہوگئی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ جھگڑے کی خبر “اوپر” تک پہنچ گئی، جس پر ایک خاتون اینکر کو پچھلے تین ہفتے سے آف ائر کردیا گیا، جب کہ آف ائر ہونے والی خاتون اینکر اپنے حلقہ احباب میں کہتی پھر رہی ہے کہ اگر جھگڑے کو بنیاد بناکر آف ائر کیاگیا ہے تو جھگڑا تو دوسری اینکر نے بھی کیا تھا، اسے آف ائر کیوں نہیں کیا گیا؟۔۔۔ پپو کہتا ہے کہ بات میں وزن ہے، انصاف ایسا ہونا چاہیئے جو نظر بھی آئے۔۔ انتظامیہ نے اگر جھگڑا وجہ بناکر اس اینکر کو آف ائر کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری اینکر کو آف ائر نہیں کیا گیا۔۔

اب تیسرے چینل کی تیسری کہانی بھی پپو کی زبانی سن لیں۔۔۔کراچی کا ایک چینل ہے ” اب تک ” پپو نے بتایا ہے کہ اس چینل کے ” باسز” کا سرکاری پروٹوکول واپس لے لیا گیا ہے، جس کی وجہ اس چینل کے بیوروچیف کی سندھ حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی خبریں اور وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان کے ساتھ تلخ کلامی بتائی جاتی ہے۔۔اسی چینل کی ایک خاتون رن ڈاؤن پرڈیوسر جس کی دو ماہ کی تنخواہ بطور سزا روکی گئی ہے اور بحق سرکار جرمانے کے نام پر دبالی گئی جس کے بعد اس نے ڈائریکٹر نیوز کو بھرے نیوزروم کو کافی کچھ سنا کر نوکری چھوڑ دی۔۔ اسی طرح ایک اسائنمنٹ ایڈیٹر کے واجبات بھی جرمانے کی نذر ہوگئے لیکن شکر ہے انہیں سما میں نوکری مل گئی۔۔

تین اینکرنیاں ،تین کہانیاں اور تین چینلز اور تین کہانیاں تو ختم ہوئیں۔۔ اب ایسے رپورٹر”شاپ” کی بات بھی ہوجائیں جس نے “اب تک” پپو سے بچنے کیلئے “سلیمانی” ٹوپی پہنی ہوئی تھی، لیکن ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کراچی میں رہتے ہوئے وہ پپو کی آنکھ سے اوجھل ہوجائے، پپو نے جب اس کی ہسٹری ڈھونڈی تو یہ رپورٹر تو ہسٹری شیٹر نکلا۔۔۔موصوف نے “آج” ٹی وی سے کیرئر شروع کیا۔۔ تین مہینے سی این بی سی پھر دوسال ایکسپریس میں بھی گزارے۔۔موصوف کو فیلڈ کا سب سے زیادہ جھگڑالو رپورٹر کہاجاتا ہے، کراچی کے مختلف تھانوں میں اس کے خلاف پانچ سے زائد مقدمات درج ہیں، پپو نے جن کی نقول مجھے واٹس ایپ کردی ہیں۔۔ پپو نے بتایا کہ ایک بار ایس ایس یو فورس کی خاتون پی آر او کو گالیاں دیں جس کے بعد مقصودمیمن نے اسے فون پر گرفتار کرنے کی دھمکی دی، جس کے بعد ایک صحافتی تنظیم کے درمیان میں آجانے سے معاملہ رفع دفع ہوگیا۔۔موصوف نے حال ہی میں ٹیپوسلطان تھانے تھانے کے ایس ایچ او کو ایک معاملے میں گالیاں دیں اور بدتمیزی کی ،جواب میں ایس ایچ او نے اسے گرفتار کرکے ٹھیک ٹھاک ” ٹھک ٹھاک” کردیا۔۔پھر وہی صحافتی تنظیم آگے آئی اور اس کی ضمانت کرائی۔۔ موصوف کی دماغی حالت یہ ہے کہ کبھی اپنی محسن صحافتی تنظیم کے عہدیداروں کو گالیاں دیتے ہیں تو کبھی ان کے پیچھے بیٹھ کر تالیاں بجانے لگ جاتے ہیں۔۔اپنے “استاد” جس سے صحافت سیکھی اسے بھی سرعام گالیاں دینے سے باز نہیں آتا۔۔حال تو یہ ہے کہ اپنے ہی ڈائریکٹر نیوز کو ٹکرز نہ چلانے پر دھمکیاں دے چکا ہے۔۔ ہر بار ایک صحافتی تنظیم ہی اس کی مدد کو آگے بڑھتی ہے جس کی وجہ سے اس کی نوکری بچ جاتی ہے یا پھر معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے۔۔درمیان میں موصوف کو بیوروچیف بنائے جانے کا لالی پاپ دیاگیا پپو نے جب پول پٹیاں کھولیں تو اب وہ مالکان کی وعدہ خلافی کا سارا ملبہ پپو کی مخبریوں پر ڈال رہا ہے۔۔کراچی پریس کلب میں پپو کو گالیاں دیتا پھر رہا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ صحافت کیلئے نیم حکیم ہیں جو کسی وقت بھی کسی کیلئے خطرہ جان بن سکتے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے موصوف کے جذباتی پن، ہلکے پن کی وجہ سے مالکان کے قریبی مشیران نے اس کے بیوروچیف بنائے جانے کی شدید مخالفت کی۔۔یوں اب موصوف کی جگہ ڈپٹی بیوروچیف ہی بیوروچیف کے اختیارات استعمال کررہا ہے۔۔موصوف نے ہی مسنگ ڈیٹا کے حوالے سے اپنے مالکان کو ہرممکن طریقے سے خوش کرنے کی کوشش کی۔۔۔کچھ ڈیٹا مل جانے کے بعد اچانک مالکان نے اسے مزید کچھ کرنے سے منع کردیا۔۔ پپو کے مطابق ڈیٹا ریکوری کے دوران جن افراد کے گھر چھاپے مارے گئے۔۔ان میں سے ایک متاثرہ شخص نے سندھ ہائی کورٹ میں پولیس پارٹی اور چینل انتظامیہ کے خلاف پٹیشن دائر کردی۔۔ پٹیشن میں ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست بھی دی گئی ہے ۔۔۔ متاثرہ فریق کو ریلیف مل جانے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مالکان نے خاموشی کو عافیت جان لیا ہے ۔۔مالکان کی جانب سے موصوف کو دی گئی شٹ اپ کال کے بعد وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔۔ ماضی قریب میں اس کے خلاف کئی ایف آئی آر پہلے ہی درج ہیں، اب نئی ایف آئی آر اور اس کے کھاتے میں آنے کا امکان لہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے مختلف گروپس میں موصوف آئے دن کسی نہ کسی سے بدزبانی اور گالم گلوچ کرتے پائے جاتے ہیں، سامنے والا بھاری پڑتا ہے تو گھریلوحالات کا رونا روکر معافی مانگ لیتا ہے۔۔کراچی کے ایک رپورٹر مبارک الماس نے کچھ عرصے پہلے اس کے مقدمات کی مکمل تفصیل ایک اخبار میں چھاپی تھی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ مالکان کو خوش کرنے کیلئے یہ ہروقت جائز ناجائز کام کرنے کو تیار رہتا ہے۔۔پپو نے جب یہ پول کھولے کہ جو ناجائز کام کرے گا بیوروچیف کا تاج اسی کے سر پہنایاجائے گا تو موصوف بھڑک اٹھے۔۔اور اپنی توپوں کے رخ پپو پر ڈال دیئے۔۔ یہاں تک کہ ایک جگہ یہ تک کہہ دیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے جھگڑے کیلئے (مجھے گالی دے کر)وہ اپنے پپو اور پوپٹوں کے ذریعے حقائق سامنے کیوں نہیں لاتا۔۔ اب اس بیچارے کو یہ کون سمجھائے گا کہ پپو صرف اور صرف میڈیا کے حوالے سے مخبریاں دیتا ہے، یہ آپ جیسے “ماہان” رپورٹرز کا کام ہے ہمت تھی تو خود حقائق سامنے لاتے اپنے چینل پہ۔۔۔ وعدے کے مطابق جو ٹیزر دیئے تھے تمام کی خبریں دے چکا ۔۔اب پپو کی چند مختصر مخبریاں بھی پیش ہیں، جو مختلف معاملات کے حوالے سے ہیں۔۔

خبر ہے کہ اسلام آباد میں روزنامہ ایکسپریس کے چیف رپورٹر کے نان پروفیشنل رویہ، رپورٹرز کو بار بار فون کرکے دفتر آنے کاکہنے، زائد کام کرانے اور بدتمیزی کرنے سے تنگ آکر سات رپورٹرز نے ایکسپریس سے استعفا دے کر 92 نیوز کے اخبار کو جوائن کرلیا جس سے اخبار کو شید دھچکا لگا ہے۔۔پپو نے مزید بتایا ہے کہ ایکسپریس کے نیوزروم اور کمپیوٹر روم کا عملہ بیمار ہونے لگا ہے۔۔ موسم گرما آنے کے باعث ایکسپریس کے نیوزاور کمپیوٹر روم میں شدید گرمی ہوتی ہے، ایک ہی کمرے میں ایک وقت میں بیس سے پچیس لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور اتنے ہی کمپیوٹر چل رہے ہوتے ہیں جس کے باعث شدید گرمی اور حبس کا عالم ہوتا ہے۔۔اتنے زیادہ اسٹاف اور کمپیوٹرز کیلئے صرف دو ائرکنڈیشنڈ لگے ہیں جو ٹھیک سے کام نہیں کررہے ۔۔نیوزروم بیسمنٹ میں ہونے کی وجہ سے ہوا کی آمدورفت بالکل بھی نہیں جب کہ ایگزاسٹ فین گزشتہ چار سال سے خراب ہے۔۔اس مسئلے سے متعلق سیکرٹری نیشنل پریس کلب کو بھی بار بار بتایاگیا لیکن موصوف اپنی نوکری پکی کرنے کیلئے حکام بالا تک ورکرز کی آواز نہیں پہنچاتے۔۔نیوزروم سے تین سب ایڈیٹرز ادارہ چھوڑ چکے ہیں لیکن ان کی جگہ نئی بھرتیاں نہیں کی گئیں۔۔اخبار کے معاملات ” بڑے صاحب” کامنہ بولا بیٹا دیکھ رہا ہے۔۔ جس کا اٹھنا بیٹھنا خبریں کے مالک کے ساتھ ہے یہی وجہ ہے کہ خبریں والی پالیسیاں اب ایکسپریس میں نافذ ہوتی جارہی ہیں۔۔ پپو نے مزید انکشاف کیا ہے کہ ایکسپریس عمارت کے کرائے کی مد میں چھ کروڑروپے کا نادہند ہوچکا ہے۔۔۔

سرکاری پی ٹی وی۔۔۔ جہاں دودھ کی رکھوالی پہ بلی کو بٹھادیاگیا، یعنی اقربا پروری کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے۔۔اربوں کے فنڈز اب چیئرمین پی ٹی وی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے، حیرت انگیز بات ہے کہ ایک خصوصی اجلاس میں ایم ڈی پی ٹی وی کے مالی و انتظامی اختیارات بھی چیئرمین کو سونپ دیئے گئے۔۔

آج کیلئے اتنا ہی۔۔ ملتے ہیں ایک مختصر سے بریک کے بعد۔۔ تب تک اپنا خیال رکھئے گا۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں