sasti shohrat wali sahafi by muhammad amir hakim khakwani

سستی شہرت والے صحافی

تحریر: محمد عامر ہاشم خاکوانی

آج کل نوجوان صحافیوں کی ایک ایسی کلاس پیدا ہوگئی ہےجو سستی شہرت حاصل کرنے اور صرف ہیرو بننے کے لئے احمقانہ حرکتیں کر رہی ہے، ایسی حرکتیں جن کا صحافت سے دور کا بھی تعلق نہیں،وہ جو کر رہے ہیں، صحافتی اخلاقیات اس کی اجازت دیتی ہے نہ ہی قوانین۔ ایسے بے وقوف لڑکے اپنی حرکتوں کی بنا پر لتریشن کرائیں گے اور پھر پوری صحافتی برادری کی بدنامی اور ذلت ہوگئی، الیکٹرانک میڈیا کی ان پھرتیوں کی وجہ سے پہلے ہی صحافت کا شعبہ اتنا بدنام ہوگیا ہے کہ اب خود کو صحافی کہتے ججھک محسوس ہوتی ہے۔
اگلے روز ایک نوجوان صحافی نے وزیراعظم پنجاب عثمان بزدار کا عجیب انداز میں پیچھا کرنے اور ان پر فقرے کسنے ، جگتیں لگانے کی کوشش کی۔ اچھا سلجھا ہوا نوجوان صحافی ہے، بڑی تہذیب اور شائستگی سے ہر جگہ ادب آداب کے ساتھ ملتے ہیں، مجھے ان کی ویڈیو دیکھ کر افسوس ہوا۔ صحافی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو ہر ایک کی بے عزتی کا لائسنس مل گیا۔ دنیا بھر میں یہ صحافتی ضابطہ ہے کہ اگر کوئی شخص میڈیا کے سوالات کا جواب نہیں دینا چاہتا یا نو کمنٹ کہہ دیتا ہے تو پھر صحافی کو خاموش ہوجانا چاہیے، کسی کے پاس میڈیا کے سوالات کے لئے وقت نہیں تو اس کے اس حق کا احترام کرنا چاہیے، یہ لائسنس کسی کو نہیں مل سکتا کہ مائیک اٹھا کر پیچھے بھاگ کھڑا ہوا جائے۔ ماضی میں یہ روایت اسلام آباد کے انگریزی اخبار سے وابستہ ایک سینئر رپورٹر نے ڈالی، وہ عجیب مضحکہ خیز انداز میں مائیک لئے جواب سے گریز کرنے والے شخص کے پیچھے دوڑ پڑتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس شخص کو اتنا تنگ کیا جا بلکہ اور ایک طرح سے ہراساں کیا جا رہا ہے، اسے رک کر رپورٹر کو ایک عدد جھانپڑ رسید کرنا چاہیے، ایسا کہ جس کے بعد کچھ عرصے تک ایسا کرنے کی جرات نہ ہو۔ افسوس کہ شائستگی کے مارے یہ لوگ خون کے گھونٹ پیتے چپ کر جاتے اور یوں ایسے صحافتی پیراشوٹرزکے حوصلے بلند ہوگئے۔
آج لاہور کے ایک مقامی چینل کے رپورٹر کی ویڈیو دیکھی اور ہمارے ساتھی صحافتی دوستوں نے چشم دید واقعات سنائے تو حیرت کےساتھ غصہ بھی آیا۔ ایک بڑے میڈیا گروپ کے لاہور چینل سے وابستہ یہ نوجوان روڈ شو کرتے ہیں اور بدمعاشوں کے انداز میں راہ جاتے لوگوں کو روک کر ان کی بائیک کی چابی نکال لیتے ہیں، وہ اپنی دانست میں ان کا محاسبہ کر رہے ہیں، ٹریفک وارڈن کو ساتھ ملا کر یہ شو کیا جا رہا ہے، کسی کا لائسنس پوچھا ، کسی پولیس والے سے ہیلمٹ نہ ہونے کا سوال، کہیں کچھ اور۔ سوال یہ ہے کہ اس رپورٹر کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ یہ نری بدمعاشی ہے ۔ اب ہوگا یہ کہ کہیں کوئی غصیلا شخص اس رپورٹر کے کھنے سیک دے گا اور پھر یہ آزادی صحافت پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ بھائی لوگو پہلے صحافت کی حدود میں رہنا سیکھ لو، ہاتھ گھمانے کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں دوسرے کی ناک شروع ہو۔(محمد عامر ہاشم خاکوانی)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں