ye sahafat hai???

“صحافتی اخلاقیات”

تحریر: شکیل بازغ

صحافت عبادت ہے، مگر وہ جو کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے، صحافت جو رائج ہے اسکاعبادت سے کچھ تعلق نہیں،جمیل فاروقی نے آپ نیوز پر اپنے پہلے شو *”دی ایڈیٹوریل*” میں جے یو آئی ف کے رہنما کامران مرتضٰی سے سوال کیا دھرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس ایک سوال کا جواب لینے میں کئی منٹ ضائع ہو گئے، کیونکہ کامران اس سوال کے جواب میں لمبی تفصیل پیش کرنا چاہتے تھے، جبکہ پروگرام میں پانچ اور گیسٹس بھی تھے۔ کامران مرتضٰی اور جمیل فاروقی کی باہم گفتگو میں دونوں جانب سے آواز اونچی نیچی ہوتی رہے، جسکے بعد کامران مرتضٰی نے مائیک اتارا اور چلتے بنے، تو میں اسے یوں کہوں گا۔دھرنے سے متعلق سجائے گئے آپ نیوز پر ایک پروگرام میں جے یو آئی ف کا نمائندہ کامران مرتضٰی دھرنے کا جواز بتانے سے قاصر رہا اور پروگرام چھوڑ کر چلا گیا۔ اسے کہتے ہیں کانپریسی، جزیئات میں نہیں الجھتے موٹا موٹا نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ یہی بِکتا ہے۔۔

اس واقعے سے ہمارے کئی دوست جمیل فاروقی پر تنقید کرنے لگے، اور کہنے لگے کہ مہمان سے ایسے بات نہیں کرتے۔ میرا تجزیہ تھوڑا مختلف ہے۔

پہلی بات صحافت کو ولایت کے درجے پر نہ سمجھا جائے، وہ شاید کتابوں میں ہو، حقیقت میں رائج صحافت اس نقطے پر آرکی، کہ کونسا کانٹینٹ یا واقعہ زیادہ دور تلک جاتا ہے، اور کتنے ناظرین اسے دیکھ پاتے ہیں، اس کے لئے مختلف صحافتی حربے تراشے گئے، ، خود کو زیر بحث لے آنا، یہی کامیابی ہے، گیسٹ جو پروگرام میں بلائے جاتے ہیں، وہ ذاتی مہمان نہیں ہوتے بلکہ پروگرام کے عنوان کے مطابق بات چیت کیلئے بلائے جاتے ہیں، اور جب کسی سنجیدہ موضوع پر بات چیت مہمان نوازی کی اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کی جائے گی تو موضوع پر کھل کر بات نہیں ہوسکے گی۔ پروگرام کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، ہاں گالم گلوچ یا ذاتیات پر اترنا اینکر سمیت مہمانان کے پورے پینل کیلئے باعث شرمندگی ہے، اینکرز کی جانب سے تند و تیز الفاظ و لہجے میں سوالات ہوتے ہیں، اسکے لیئے علمی و شعوری اپروچ ہونا ضروری ہے۔ اور یقین کریں لوگ سیاسی لوگوں سے اسی لہجے میں سوالات کرنا چاہتے ہیں، انہی عوام کی ترجمانی کا دم بھرتے ہوئے اینکر وہی انداز یا لہجہ بسا اوقات اپناتا ہے، میری ذاتی رائے ہے تلخ لہجہ نہیں ہونا چاہیئے لیکن میری ذاتی رائے سے چینلز نہیں چلتے، اخلاقیات کے دائرے سکڑتے جا رہے ہیں، جو باتیں پہلے معیوب سمجھی جاتی تھیں اب میڈیا کیلئے عام سی بات ہیں، کیونکہ عوام کیلئے بھی اخلاقیات کے دائرے سکڑ چکے۔ اینکر پروگرام کرتے وقت بیسیوں پریشرز کے تحت پروگرام کرتا ہے، (یہ بڑے ادارے کی بات کر رہا ہوں) اینکر کو اپنا پروگرام کامیاب کرنا ہے، ادارے کو ریٹنگ چاہیئے، عوام میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ عوام میں زیر بحث بھی آنا چاہتا ہے،سوشل میڈیا پر چینل کا پروگرام وائرل ہونا مانگتا ہے۔ میں اکثر نئے اینکرز کو پروگرام کرتے دیکھتا ہوں جو باتیں اور تجزیئے عوام کو معلوم ہوتی ہیں وہی مہمان سے پوچھی بتائی جا رہی ہوتی ہیں، ایسے میں پروگرام سالہا سال ریٹنگ نہیں بنا پاتے، بلکہ ایک روایتی دائرے سے باہر نہیں نکلتے۔ فرنٹ فُٹ پر سکسر لگانے والے ہوسکتا ہے، غیر موزوں بد تہذیب یا بد اخلاق کہلائے جائیں، لیکن یاد رکھیئے یہ قوم تماش بین ہے اور انہیں سکرین پر شرافت صداقت، دیانت اخلاقیات کے بھاشن سے زیادہ متنازعہ باتیں دیکھنا سننا اچھی لگتی ہیں، اور یہ افسوسناک ہے لمحہ فکریہ ہے،

چوبیس گھنٹے کی ٹرانسمشن میں ہر چورن بکتا ہے، مذہبی اخلاقیات سے لیکر لادینی بداخلاقی مواد کسی نہ کسی لہجے یا طرز میں دکھایا جاتا ہے، بحیثیت مجموعی میڈیا کا کام ذہن سازی کرنا ہے، اور ذہن سازی کرنے کیلئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ لگی لپٹی بغیر بات کہہ پوچھ لینا، خود کو عوامی کہلوانا اور نڈر بے باک اور برملا بول دینے والا ثابت کرنا ہے۔ ایسے انداز عوامی حلقوں میں زیادہ زیر بحث آتے ہیںِ اس سے فائدہ چینل کو ہوتا ہے، کیونکہ ایک سنگل کلپ کروڑوں لوگوں تک پہنچ کر چینل کی جانب عوام کو متوجہ کراتا ہے، اس سے دیگر کی ساری باتیں کتابی ہیں، جو اس راز کو پاگیا وہ بڑا اینکر ہونے کی جانب چل نکلا، پھر ایک دن وہ تھنک ٹینکس کی فہرست میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے کیونکہ اسکی فین فالوئنگ قابل ذکر تعداد کو چھو چکی ہوتی ہے،یا اسے دبنگ صحافی مان لیا جاتا ہے۔ ویسے ٹک ٹاک اور پورن و گرافی دیکھنے والی قوم ٹی وی پر اینکر کے تلخ لہجے کو بد اخلاق کہنے لگ جاتی ہے، جبکہ ان کے کمروں سے اونچی آواز میں سٹیج ڈراموں کی جگتیں سنائی دے رہی ہوتی ہیں،

ہمیں اگر ٹی وی پر اخلاقیات چاہیئے تو ہمیں اخلاقی معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا، اور تمام بد اخلاقیاں معاشرے سے نکال باہر کرنا ہونگی، اور میڈیا جو ہر بات کے مثبت و منفی پہلو مصالحوں کیساتھ عوام کو پیش کرکے معاشرے کو عالمی تہذیب کے رنگ میں ڈھال رہا ہے، سازشیں پھیلا رہا ہے۔ عوام کو۔انکی ثقافت و عقائد سے دور کررہا ہے۔ پہلے اسکا ہمیں قبلہ درست کرنا ہوگا، ہمیں جو بھی دکھایا جاتا ہے، ہم دیکھ کر خاموش ہو رہتے ہیں، اور یوں رد عمل کا نہ آنا ثابت کرتا ہے، کہ بد اخلاقی ہمارے نزدیک بڑا ایشو نہیں، ایسے میں شو کو چند گھنٹوں میں دس ملین لائیکس دلوا دینے کیلئے ایک ترش لہجے کا سوال میڈیا پروفیشنلزم میں کامیابی سمجھا جاتا ہے، اور اس کامیابی سے میڈیا کے دیگر لوگ خفا بھی ہوسکتے ہیں، کیونکہ ایسے سٹنٹس نہ کھیل کر وہ سالہا سال گمنام شوز کرتے رہتے ہیںِ۔۔

میرے اس بلاگ کو کسی منفی غیر اخلاقی میڈیائی کردار کے حق میں نہ سمجھا جائے بلکہ میں نے کوشش کی کہ لوگ میڈیا کو ولایت کے درجے پر فائز نہ کریں بلکہ میڈیا کو چوں چوں کا مربہ اور ذہنوں کو اسیر کرنے والا ایڈیٹ باکس ہے۔ہمیں برا لگے یا اچھا جمیل فاروقی کو اپنے پہلے ہی پروگرام میں کئی لاکھ لائیکس اور ہزاروں شیئرز مل چکے۔ جس پر ادارہ یقیناً اسے سراہ رہا ہوگا۔ اور ہاں کوئی بھی پروگرام بحیثیت مجموعی ادارے کی پالیسی سے ہٹ کر نہیں ہوتا۔ جو اینکرز اسے جمیل فاروقی کی ناکامی یا کم فہمی کہہ رہے ہیں وہ یہ جان لیں کہ جمیل فاروقی حقیقی نقطہ پا گیا جو دیگر لوگ تنقید کررہے ہیں وہ جمیل فاروقی جیسا ایک آدھ تند و تیز سوال کردیکھیں۔ خود کو معاشرے میں تنقید کیلئے پیش کردیکھیں۔ آپکا ادارہ ہی آپکے لیئے رستے کشادہ کرے گا۔ صحافی نام نہاد اخلاقی حدود سے باہر نکل کر کچھ نیا کردکھانے کا نام ہے۔ ہوسکتا ہے میڈیا کی بطور ادارہ اخلاقی حدود وہ نہ ہوں جو ہم۔سمجھتے ہیں۔

آخری بات: صحافی عوام کی طرح سوچے گا تو صحافی نہیں کہلائے گا لہٰذا عوام اس کے کام پر تنقید کرسکتے ہیں اسے صحافت سکھانے کیلئے پہلے اس جتنے ندی نالے عبور کرکے آئے۔(شکیل بازغ)۔۔

(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کامتفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں