تحریر: عمیر علی انجم
کہتے ہیں کہ جب اندلس کے آخری مسلمان حکمران ابو عبداللہ کو شکست کے بعد ملک بدر کیا جارہا تھا تو اس کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے ،جس پر اس کی ماں نے کہا تھا کہ ”جب مردوں کی طرح اپنی سرزمین کی حفاظت نہیں کرسکے تو اب عورتوں کی طرح آنسو بھی مت بہاؤ” ابو عبداللہ کی ماں کی طرف سے کہے گئے الفاظ۔۔۔ مجھے آج مختلف میڈیاہاؤسز کے سامنے لگنے والے احتجاجی کیمپ کو دیکھ کر یاد آرہے ہیں بلکہ مجھے لگتا ہے کہ میں یہاں ابو عبداللہ کے ساتھ بھی زیادتی کررہا ہوں ۔۔اس میں کم ازکم اتنی غیرت تو باقی تھی کہ وہ دو آنسو ہی بہاسکے لیکن صحافی برادری کی رہنمائی کے دعویداروں کے آنکھوں میں مجھے دور دور تک مگرمچھ کے آنسو بھی نظر نہیں آتے ہیں ۔یہ ”صحافتی رہنما” بھی عجیب ہی مخلوق ہیں ۔ ان کی صحافیوں کے لیے کیا خدمات ہیں ان سے تو میں ناواقف ہوں لیکن یہ شعبہ صحافت میں آنے سے پہلے کیا تھے اور ان کا معیار زندگی کیا تھا اس سے ایک دنیا واقف ہے ۔کچی آبادی سے ڈیفنس کے بنگلات اور وہاں سے فارمز ہاؤسز تک اور سائیکل سے موٹر سائیکل اور وہاں سے جدید ماڈل کی گاڑی کا تک سفر انہوں نے کس طرح طے کیا یہ کوئی نصف صدی کا قصہ نہیں بس چند برسوں کا کمال ہے ۔۔ہمارے یہ رہنما کیا ہمیں یہ بتانا پسند کریں گے کہ جیسے جیسے غریب صحافیوں کے چہرے کی زردی بڑھتی گئی ویسے ویسے ان کے چہروں پر لالی کس طرح آتی گئی ۔سوال پوچھنا میرا حق ہے ۔سیدنا عمر فاروق سے جب ان کے کرتے کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے تو ان صحافی رہنماؤں سے ان کے اثاثوں کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا جاسکتا ۔۔کیا ان میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ شعبہ صحافت میں آنے سے پہلے اور اب کے اثاثے اپنے صحافی بھائیوں کے سامنے پیش کرسکیں ۔۔۔جیسے جیسے غریب صحافی نوکریوں سے نکلتے رہے ،ان کے گھروں کے چولہے بجھتے رہے ویسے ویسے ان کی گاڑیوں کے ماڈل اور غیر ملکی دورے بڑھتے گئے ۔۔۔صحافی جو سب کا دکھ عوام کے سامنے لاتا ہے اس کے دکھ کا درماں آخر کون بنے گا ؟؟؟رسول اللہ ۖ جو جب صحابہ کرام اپنے پیٹ میں بندھے پتھر دکھایا کرتے تھے تو وجہ وجود کائنات ۖ اپنے پیٹ پر بندھے دو پتھر ان کو دکھاتے تھے ۔۔۔رہنما ہوتا ہی وہ ہے جو خود سب سے بڑھ تکلیف اٹھائے ۔۔آپ نے کبھی سنا کہ کسی غریب صحافی کو نوکری سے نکالا جارہا ہو اور کوئی صحافی رہنما اپنے ادارے میں آگے بڑھا ہواورسیٹھ کو کہا ہو کہ جناب !اس غریب کا کیا قصور ؟؟میں اس سے زیادہ تنخواہ مراعات لیتا ہوں ۔۔پہلے مجھے گھر بھیجئے ۔۔آپ یقین کریں کہ ہمارے یہ رہنما اگر کشتیاں جلا کرمیدان میں نکلے ہوتے تو آج آپ کوان کے خالی کیمپ نظر نہیں آرہے ہوتے ۔۔آخر میں بھارت کے مشہور شاعر راحت اندوری یاد آرہے ہیں جو اکثر مشاعروں میں اپنا ایک واقعہ سناتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں ایمرجنسی کے زمانے میں انہوں نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ ”سرکارچور ہے ” جس پر انہیں دوسرے دن تھانے بلالیا گیا ،جہاں پولیس افسر نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ کہا ہے کہ سرکار چور ہے ؟؟ راحت اندوری نے جواب دیا کہ بالکل جناب میں نے یہ ضرور کہا ہے کہ سرکار چور ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ سرکاربھارت یا پاکستان کی چور ہے ،امریکا کی چور ہے یا برطانیہ کی چور ہے ۔راحت اندوری کے جواب میں پولیس افسر نے کہا کہ آپ ہمیں بے وقوف بھی سمجھتے ہیں ۔۔کیا ہمیں نہیں پتہ کہ سرکار کہاں کی چور ہے ۔۔۔۔تو جناب!ہم صحافیوں کو بھی بے وقوف نہ سمجھیں کیا ہمیں نہیں معلوم کہ چور کون ہے ؟؟(عمیرعلی انجم)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں،علی عمران جونیئر)