cheekhne ki zaroorat hai | imran Junior

سب سے دکھی ملک

علی عمران جونیئر

دوستو،امریکی ماہر اقتصادیات اسٹیو ہینک نے بے روزگاری، افراط زر، بینکوں سے قرضے کی شرح اور جی ڈی پی میں تبدیلی کے عوامل پر غور کرتے ہوئے 157 ممالک کی درجہ بندی کی۔ ہینک کے سالانہ مصائب انڈیکس (ایچ اے ایم آئی) 2022 میں زمبابوے کو ”انتہائی دکھی ملک” قرار دیا گیا ہے۔ ملک میں بدحالی کی حیران کن سطح کو ZANUـPF پارٹی کی نمائندگی کرنے والے صدر ایمرسن منانگاگوا کی نافذ کردہ پالیسیوں سے منسوب کیا گیا ہے۔ انڈیکس کے مطابق زمبابوے نے گزشتہ سال 243.8 فیصد کی آسمان چھوتی افراط زر کی شرح کا سامنا کیا۔زمبابوے کے علاوہ دیگر ممالک جیسے وینزویلا، شام، لبنان، سوڈان 2022 میں دنیا کے سب سے زیادہ مصیبت زدہ ممالک کی فہرست میں ٹاپ فائیو رہے۔ شام کے علاوہ سرفہرست پانچ ممالک کی بدحالی کا سب سے بڑا سبب مہنگائی ہے جبکہ شام بے روزگاری سے متاثر ہے۔ ٹاپ 15 میں شامل دیگر ممالک ارجنٹائن، یمن، یوکرین، کیوبا، ترکی، سری لنکا، ہیٹی، انگولا، ٹونگا اور گھانا تھے۔فہرست کے مطابق بھارت 103 ویں نمبر پر ہے جس میں بے روزگاری سب سے بڑا عنصر ہے۔ دنیا کا سب سے خوش ملک فن لینڈ دنیا کے سب سے زیادہ دکھی ممالک کی فہرست میں 109 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان جو اس وقت معاشی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے، دنیا کے سب سے زیادہ دکھی ممالک کی فہرست میں 35 ویں نمبر پر ہے، یہاں سب سے بڑا فیکٹر مہنگائی ہے۔ سوئٹزرلینڈ 157 ویں نمبر پر ہے اور اسے تمام ممالک میں سب سے کم دکھی ملک قرار دیا گیا ہے۔ دیگر ممالک جو سب سے کم دکھی ہیں ان میں کویت (156)، آئرلینڈ (155)، جاپان (154)، ملائیشیا (153)، تائیوان (152)، نائجر (151)، تھائی لینڈ (150)، ٹوگو (149)، مالٹا (148) ویں نمبر پر ہے۔

اب ذرا حالات حاضرہ پر بات کرنے سے قبل ایک لطیفہ بھی سن لیں۔ایک صاحب نے اپنی زوجہ کو نہایت پیار سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ،ڈارلنگ مسجد میں اعلان ہوا ہے کہ جس کے بارہ بچے ہونگے اس کو ایک مربع زمین ملے گی۔ہمارے دس ہیں لیکن میں نے تم سے ایک بات چھپائی تھی کہ میرے دو بچے اور بھی ہیں جو میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا۔اب اگر تم اجازت دو تو میں وہ دونوں بچے گھر لے آؤں تو ہمیں ایک مربع زمین مل سکتی ہے۔بیوی نے اجازت دے دی۔شوہر کچھ دیر بعد دو بچوں کے ساتھ خوشی خوشی گھر پہنچا تو دیکھا اپنوں میں سے پانچ بچے غائب ہیں۔بیوی سے پوچھا کہ ہمارے پانچ بچے کہاں ہیں؟ بیوی نے جواب دیا کہ۔۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ اعلان صرف آپ نے سنا تھا؟جں کے تھے وہ اپنے اپنے لے گئے۔نوٹ:لطیفے کو لطیفہ ہی سمجھا جائے،پی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال سے اس کی کوئی مماثلت نہیں۔

بات ابھی ختم نہیں ہوئی، حالات حاضرہ پر آپ سے ضرور بات ہوگی، لیکن یہ واقعہ بھی سن لیجیے۔ ۔ایک صاحب اپنی فیملی کے ساتھ ٹرین میں سفر کر رہے تھے، دورانِ سفر اس کی ایک پہلوان سے لڑائی ہوگئی۔ پہلوان نے اس کے گال پہ زور دار تھپڑ مارا۔وہ صاحب کہنے لگے، میری تو کوئی بات نہیں لیکن میرے بھائی کو مارا تو پھر دیکھنا۔ پہلوان نے بھائی کے منہ پر بھی زور سے مکہ مار دیا۔وہ صاحب پھر سے بولے، تو نے اگر میرے بیٹے کو ہاتھ لگایا تو پھر تیری خیر نہیں۔پہلوان نے بیٹے کو بھی اٹھا کے پٹخ دیا۔۔وہ صاحب دانت پیستے ہوئے بولے۔ میری بیوی کو کچھ کہا تو تجھے مجھ سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔پہلوان نے بیوی کو بھی چٹیا سے پکڑ کے سیٹ سے نیچے گرا دیا۔اب وہ صاحب خاموشی سے اپنی سیٹ پر جاکر بیٹھ گئے۔سفر گزرتا رہا، تھوڑی دیر بعد جب اسٹیشن سے اترے تو کسی نے پوچھ ہی لیا۔جناب،یہ بات تو آپ کے تھپڑ پر ہی ختم ہوسکتی تھی لیکن آپ نے پہلوان کو چھیڑ کر پوری فیملی کو پٹوا دیا۔وہ صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔ بھائی تم نہیں سمجھو گے اگر میں اکیلا پِٹتا تو یہ سب گھر جا کر میرا مذاق اڑاتے۔واقعہ کی دُم:پی ڈی ایم بنانے کا مقصد خان کو شکست دینا نہیں بلکہ مشترکہ ذلیل ہونا تھا تاکہ کوئی بھی ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑا سکے۔

حالات حاضرہ کے حوالے سے ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ ملک میں چل کیا رہا ہے؟ آگے ہوگا کیا؟ آپ کو بالکل یہ سب بتائیں گے مگر یہ آخری واقعہ سن لیں۔کسی زمانے میں ایک حاکم تھا جس نے دس جنگلی کتے پالے ہوئے تھے،اس کے وزیروں میں سے جب بھی کوئی وزیر غلطی کرتا تو وہ اسے ان کتوں کے آگے پھنکوا دیتا ،کتے اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر مار دیتے۔۔ایک بار حاکم کے ایک خاص وزیر نے اسے غلط مشورہ دے دیا جو اس کو بالکل پسند نہیں آیا ،اس نے فیصلہ سنایا کہ وزیر کو کتوں کے آگے پھینک دیا جائے۔وزیر نے حاکم سے التجا کی کہ حضور میں نے دس سال آپ کی خدمت میں دن رات ایک کیے ہیں اور آپ ایک غلطی پر مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں،آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میری بے لوث خدمت کے عوض مجھے آپ صرف دس دنوں کی مہلت دیں پھر بلاشبہ مجھے کتوں میں پھنکوا دیں۔حاکم یہ سن کر دس دن کی مہلت دینے پر راضی ہو گیا۔وزیر وہاں سے سیدھا رکھوالے کے پاس گیا جو ان کتوں کی حفاظت پر مامور تھا اور جا کر کہا۔ مجھے دس دن ان کتوں کے ساتھ گزارنے ہیں اور ان کی مکمل رکھوالی میں کرونگا،رکھوالا وزیر کے اس فیصلے کو سن کر چونکا لیکن پھر اجازت دے دی۔ان دس دنوں میں وزیر نے کتوں کے کھانے پینے،اوڑھنے بچھونے،نہلانے تک کے سارے کام اپنے ذمے لیکر نہایت ہی تندہی کے ساتھ سر انجام دیے۔دس دن مکمل ہوئے حاکم نے اپنے پیادوں سے وزیر کو کتوں میں پھنکوایا لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ آج تک نجانے کتنے ہی وزیر ان کتوں کے نوچنے سے اپنی جان گنوا بیٹھے آج یہی کتے اس وزیر کے پیروں کو چاٹ رہے ہیں۔حاکم بھی یہ سب دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھا کیا ہوا آج ان کتوں کو؟وزیر نے جواب دیا،مالک میں آپ کو یہی دکھانا چاہتا تھا میں نے صرف دس دن ان کتوں کی خدمت کی اور یہ میرے ان دس دنوں میں کیے گئے احسانات بھول نہیں پا رہے،اور یہاں اپنی زندگی کے دس سال آپ کی خدمت کرنے میں دن رات ایک کر دیے لیکن آپ نے میری ایک غلطی پر میری ساری زندگی کی خدمت گزاری کو پس پشت ڈال دیا۔حاکم کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس نے وزیر کو اٹھوا کر مگرمچھوں کے تالاب میں پھنکوا دیا۔واقعہ کی دُم: جب اسٹیبلشمنٹ ایک بار فیصلہ کر لے کہ آپ کو چھوڑنا نہیں ہے تو بس چھوڑنا نہیں ہے۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔گرمی اپنی پوری کوشش کر رہی ہے ہماری شکلیں ہمارے آئی ڈی کارڈ سے ملانے کی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں