wah irshad amin

پنجاب اسمبلی استحقاق ایکٹ کی گستاخی

تحریر: محمد نواز طاہر۔۔

پنجاب اسمبلی میں منظور کیے جانے والے استحقاق ایکٹ پرجہاں صحافی اسے بد ترین سیاہ قانون اور آزادی صحافت پر حملہ قراردیکر مضطرب ہیں ، وہیں سیاسی جماعتوں کی تضاد بیانی بھی کھل کر سامنے آئی ہے اور اس حد تک ناقابل ِ قبول اور غیر منطقی موقف پیش کرہی ہیں کہ اگر سیاسی قائدین خود ایک دوسرے کو انتہائی سادہ اور پارلیمانی زبان میں جواب دیں یا بولیں تو بھونڈا پن، منافقت کی انتہا قراردیں حالانکہ صورتحال اس سے بھی دو قدم آگے ہے ۔ صوبے کا گورنر، وزیر قانون ، وزارت کے بغیر وزیراطلاعات اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اس قانون کے خلافِ آئین ہونے ، اس کی سنگینی اور منظاری کے عمل سے لاعلمی کا اظہار کرے تو کیا کہاجائے ؟

 اس قانون کے تحت سرکاری مراسلہ بنانے کی کوشش کے تحت ” جہالت‘ کی زنجیروں میں کسا گیا ہے ، اور اراکین اسمبلی کو فرشتوں سے بھی زیادہ پوتر ثابت کیا گیا ہے۔اسمبلی سیکرٹریٹ کو حشر کا میدان بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور صحافیوں کو ”کافر“ تصور کرکے سزا کا تعین کردیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا جہاں کی دانش اور دیانت بھی انہیں میں ہے جبکہ اسمبلی کا ریکارڈ چیخ چیخ کر اس کی نفی کرتا ہے جس کی ایک معمولی سے مثال یہ ہے کہ صوفی بزرگ شاعر میاں محمد بخشؒ کا جو کلام واعظ ،شعلہ بیان سیاسی سماجی مقرر اپنی تقریروں میں کرتے ہیں ، اسمبلی میں اسی کلام کو غیر پارلیمانی قراردیکر کارروائی سے حذف کردیا جاتا ہے ۔ گذشتہ ماہ دوہفتے سے زائد جاری رہنے والے اجلاس میں یہ شعر استحقاق ایکٹ کی ایک محرک جماعت مسلم لیگ ن کے سابق وزیر خلیل طاہر سندھو نے ایوان میں پڑھا تھا۔ استحقاق کس حد تک مجروح ہوتا ہے اس کا اندازہ استحقاق ک کی ایوان میںپیش کی جانے والی تحریکوں، استحقاق کمیٹی کی کارروائی اور رپورٹوں سے ہوجائے گا کہ اراکین کا موقف کتنے درست تھے ؟کتنے لوگوں کو استحقاق مجروح کرنے کا مرتکب قراردیا گیا اور جنہیں استحقاق کی تحریکوں پر ملزم ( مدعاالیہہ) کی حیثیت سے طلب کیا جاتا رہاان کا موقف کس انداز سے سنا گیا ؟ کس عہدے کے افسر کو سر پکارا گیا اور کس کو حسبِ توفیق دبایا گیا ، اراکین اسمبلی کے شعور کی سطح یہ ہے کہ اسمبلی اپنے مدت کے کاﺅنٹ ڈاﺅن میں ہے اور ابھی تک اراکین کی بڑی تعداد اس کے آداب اور قواعد سے بھی نابلد ہے جس کے لئے سپیکر کو یہ تک کہنا پڑ جاتا ہے کہ قواعد کی کتاب بھی پڑھ لیا کریں ۔ اس شعور اور ادراک کے حامل اراکین جوڈیشل کمیٹی میں شامل ہونگے جسے عدالتی اختیارات حاصل ہونگے اور اس کی حیثیت سرسری سماعت کی عدالت کی ہوگی اور اسے سزا سنانے مجاز ہونگے ، گو کہ ایوان میں موجود اراکین میں وکلا بھی شامل ہیں لیکن ان میں سے کسی کو جج کی حیثیت سے فرائض انجام دینے کا تجربہ نہیں شائد ہی کوئی ایسا بھی ہو جس کے کسی مقدمہ کے عدالتی فیصلہ عدالتی فیصلوں کی نظائر میں شامل ہو، امین اور دیانتدار اس اعلیٰ درجے کے ہیں کہ بسا اوقات ایک دوسرے ہی کے خلاف استحقاق کی تحریک پیش کرنے کی دھمکی اور حکومتی یا اپوزیشن اراکین کی کسی” سچائی“ یا وعدہ خلافی پر اپنی سچائی کی حق میں ”ورنہ“ کہتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت سے ستعفیٰ دینے کا بھی نعرہ لگادیتے ہیں ، یہاں تک کہ اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے بغیر ہی اجلاس میں شرکت کا معاوضہ بھی وصول کرتے رہے ہیں اس کی گواہی اسمبلی کا ریکارڈ اور اس غیر مناسب عمل کو روکنے کیلئے اٹھائے جانے اقدامات دیتے ہیں ، اراکین اسمبلی کی ایوان کے باہر اسمبلی سیکرٹریٹ کے سوا حاضری شیٹ بھی دیتی ہے ۔ کبھی کبھی تو یہ بھی لگتا ہے کہ اگر آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے عین مطابق کسی سر پھرے حقیقی دیانتدار رکن نے اسمبلی سے جاری ہونے والی ادوایات کے کو سامنے رکھتے ہوئے اراکین کی بیماریوں اور دوائی کے معاملے میں کے فرانزک آڈت کا مطالبہ کردیا تو نتائج کیا ہونگے ؟

 پنجاب اسمبلی سے استحقاق ایکٹ پی ٹی آئی ن لیگ پی پی اور ق لیگ نے پیش کیا تھا ، جانے انجانے میں آزاد اراکین نے اس کی مخالفت نہیں کی اور اس کی منظوری اتفاقِ رائے سے دی گئی ، اب اس قانون کی اونر شپ لینے سے انکاری ہیں، یہ جھوٹ پر جھوٹ کسی کو ہضم نہیں ہوسکتا ، اور بدہضمی ہی اس قانون کی خلاف ورزی ہے اور جوڈیشل کمیٹی اسی تحریر کو استغاثہ بنا کر سزا سنا سکتی ہے، بس سمجھ لیں کہ استحقاق ایکٹ کی خلاف ورزی اور گستاخی ہوگئی ، اب سزا کا عمل شروع ہونے کا انٹطار کرتے ہیں ۔(محمد نوازطاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں