khusra qanoon | Imran Junior

’’مورکھ‘‘ لکھے گا ۔۔۔؟؟

کالم : علی عمران جونیئر

دوستو،اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تاریخ تو مورخ لکھتا ہے، پھر یہ ’’ مورکھ ‘‘ کون ہے؟؟، تو جناب، تاریخ تو واقعی مورخ لکھتا ہے، لیکن تاریخ میں جتنی بری باتیں لکھی جاتی ہیں وہ ’’ مورکھ ‘‘ ہی لکھتا ہے۔۔اسی لئے جب ہم ’’ مورکھ ‘‘ لکھا کریں تو سمجھ جایا کریں کہ اس کا لکھا ملک و قوم کے مفاد میں ہرگزہرگز نہیں ہوسکتا۔۔گزشتہ سال شاید ہم نے مورکھ کی کچھ باتیں گوش گزار کی تھیں، آج آپ کی خدمت میں مورکھ کی کچھ اورباتیں اور مزیدانکشافات حاضر ہیں۔۔

مورکھ لکھتا ہے کہ۔۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں شادی کے بعد میاں بیوی موٹے ہوجائیں تو لوگ کہتے ہیں۔۔انہیں شادی راس آگئی۔۔ مورکھ نے ایک ریسرچ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان عورتوں کے ہاتھ سردیوں میں نرم وملائم رہتے ہیں جو اپنے شوہروں سے برتن دھلواتی ہیں۔۔ مورکھ مزید بتاتا ہے کہ۔۔بائیک مانگ کر لے جانے والے پیٹرول ڈلوائیں یا نہ ڈلوائیں ایک مشورہ ضرور مفت دے جاتے ہیں۔۔پائین گڈی ٹیوننگ منگ رئی اے۔۔ مورکھ کے مطابق ایک قوم کی کچھ لڑکیاں اتنی بھولی ہوتی تھیں کہ آئس کریم خریدتے وقت دکاندار کو کہہ رہی ہوتی ہیں، بھیا آئس کریم ذرا ٹھنڈی دینا۔ ۔ مورکھ مزیدکہتا ہے کہ ایک قوم ایسی گزری جو باقاعدہ اجازت لے کر ’’بزتی‘‘ کرتے تھے، اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک بات بولوں؟؟؟۔۔۔ مورکھ کے مطابق ٹیکسوں کا نظام اس لیے بنایا گیا ہے کہ آپ کی جیب میں اسوقت تک تھوڑا سا سونا۔۔نہ آئے جب تک آپ کے بالوں میں تھوڑی سی چاندی نہ آجائے۔

مورکھ لکھے گا ، ایک ایسی قوم بھی تھی جس کی دلہنیں بیوٹی پارلرز اور دلہا حکیموں کے پاس تیارہوتے تھے۔۔ مورکھ یہ بھی لکھے گا کہ، ایک قوم ایسی بھی تھی جو بچوں کو کہتی تھی ننگے پیر مت چلو پیر بڑے ہوجائیں گے۔ مورکھ یہ بھی لکھے گا ،اک ایسی قوم تھی جس میں کسی کا تین دن بخارنہ اترے تو چوتھے دن رشتہ داروں پہ شک کرتے تھے کسی نے جادو کرایاہوگا۔۔ مورکھ یہ لکھنے سے بھی باز نہیں آئے گا کہ، ایک قوم ایسی بھی جہاں کتابیں لکھنے والوں سے زیادہ تعویذ لکھنے والے کماتے تھے۔۔ مورکھ لکھے گا ،اک قوم ایسی بھی تھی جو ہاتھ میں خارش پہ سمجھتی تھی آج پیسے ملنے والے ہیں۔۔ مورکھ یہ بھی لکھے گا کہ اک ایسی قوم بھی تھی جو سردیوں کی چھٹیاں سردی آنے سے دس دن پہلے اور، گرمیوں کی چھٹیاں گرمیوں سے پہلے گزار دیتی تھی۔۔

مورکھ جب ہماری قوم کے حوالے سے لکھے گا تو یہ ضرور لکھے گا کہ۔۔ دو آدمی لڑرہے ہیں، ایک آدمی گھر سے باہر نکلا اور انہیں لڑتا دیکھ کر بیچ بچاؤ کرائے بغیر آگے بڑھ گیا اور کوئی لفٹ ہی نہیں کرائی،تو یہ کراچی ہے۔۔دو آدمی لڑرہے ہیں،ایک آدمی گھر سے باہر نکلا اور انہیں لڑتے دیکھ کر کہنے لگا، میرے گھر کے سامنے نہیں،کہیں اور جاکرلڑو،یہ اسلام آباد ہے۔۔دو آدمی لڑرہے ہیں،تیسرا آدمی انہیں چھڑانے آیا،دونوں آپس میں لڑنا چھوڑ کر اسے پیٹنے لگے،یہ لاہور ہے۔۔ دو آدمی لڑرہے ہیں،بیس آدمی اکھٹے ہوگئے، دس زخمی ہوکر اسپتال پہنچ گئے، باقی دس کو پولیس پکڑ کر لے گئی، تو جان لیجئے کہ اس شہر کو پشاور کہا جاتا ہے۔۔دوآدمی لڑرہے ہیں، بیس آدمی اکٹھے ہوئے،ایک آدمی وہاں آیا اور چائے کا کھوکھا لگالیا، یہ کوئٹہ ہے۔۔دو آدمی لڑرہے ہیں، ایک ایک کرکے وہاں اور بھی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے پھر لڑنے والوں پر جگتیں ہونے لگیں، یہ فیصل آباد ہے۔۔دو آدمی لڑرہے ہیں، دوہزار اور آگئے اور دو،دو کرکے آپس میں لڑنا شروع ہوگئے، یہ پاکستانیوں کی فیس بک ہے۔۔

مورکھ یہ بھی لکھے گا کہ ،ایک قوم ایسی بھی تھی جہاں ’’پھوپھی‘‘ کو بدنام کرکے رکھا جاتا تھا،پھوپھیوں پر نت نئے لطیفے اور مزاحیہ واقعات گھڑے جاتے تھے، مورکھ کے مطابق صرف ننانوے فیصد پھوپھیوں کی وجہ سے ساری پھوپھو بدنام ہیں۔ایک بار پھوپھی نے پوچھا، بیٹا تم کیا کرتے ہو؟ نوجوان نے جواب دیا، پھوپھومیں ’’کارڈیالوجسٹ‘‘ ہوں، پھوپھی جواب میں کہتی ہے۔۔تیری ماں اور تیرا باپ اگر میری سن لیتے تو آج تو بھی کم سے کم کہیں ’’کمپاؤنڈر‘‘ لگاہوتا اور عیش کرتا۔۔پھوپھو جب دانتوں کا معائنہ کرانے بھتیجے ڈینٹسٹ کے پاس گئی، بھیتجے نے پھوپھو کو کہا،منہ کھولئے۔۔پھوپھو نے غصے سے کہا، میرا منہ نہ کھلوا،ورنہ تجھے صاف صاف بتادوں گی کہ تیرے ماں باپ نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔۔ مورکھ یہ بھی لکھے گا کہ ایک قوم ایسی بھی تھی ،جہاں بچوں میں کیلشیئم کی کمی، نوجوانوں میں وٹامن ’’شی‘‘ کی کمی، واپڈا والوں کو بجلی کی کمی تھی جو کبھی پوری نہ ہوسکی۔۔ مورکھ یہ بھی لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا کہ ، ایک قوم ایسی بھی تھی جو ڈاکٹر کے پاس جا،جاکر خود ڈاکٹر بن جاتے تھے۔۔ڈاکٹرصاحب،ڈاکٹر صاحب،میرے گھٹنے میں سوزش ہے، یورک ایسڈ کا ٹیسٹ بھی کرایا، نارمل نکلا، شوگر چیک کی وہ بھی نارمل ہے، گرم پٹی بھی باندھی، تین دن سے کوئی فرق نہیں پڑا، آپ ہی کوئی دوا لکھ دیں پلیز۔۔ڈاکٹر آگے سے کہتاہے، ایناں کچھ کر لیا دوا بھی خود لکھ لے ماما۔۔

مورکھ لکھے گا ، ایک قوم ایسی بھی تھی جو کال کاٹنے کے بعد دوبارہ کال کرنے سے آواز صاف سن لیتی تھی۔۔ایک قوم ایسی بھی تھی جو ہر ڈائپر کو پیمپر اور ہر کورئر کمپنی کو ٹی سی ایس کہتی تھی۔۔ ایک قوم ایسی بھی تھی جسے سلاد دی جائے تو کھانا آنے تک سلاد کا خاتمہ بالخیر ہوچکاہوتا تھا۔۔ایک قوم ایسی تھی جو صبح بچوں کو اٹھا کر کہتی تھی دیکھو کیا ٹائم ہوا ہے، حالانکہ وہ ٹائم خود بھی دیکھ سکتی تھی۔۔ایک قوم ایسی بھی تھی جو ہر وقت روٹی کمانے کے چکر میں رہتی تھی، سالن کا سوچتی تک نہ تھی۔۔ایک قوم ایسی تھی جو اپنے خوب صورت ترین علاقوں کی تعریف یوں کرتی تھی، لگتا ہی نہیں آپ پاکستان میں ہو۔۔ایک قوم ایسی تھی جو محلے کی مسجد تک جانے کی روادار نہیں تھی لیکن موت مکہ اور مدینے میں چاہتی تھی۔۔ایک قوم ایسی بھی تھی جسے لاکھ والا سوٹ سستا اور سوروپے کی پیکو مہنگی لگتی تھی۔۔ایک قوم ایسی بھی تھی جو بات کرنے کے دوران لائٹ آجانے پر اسے سچ، اور لائٹ چلے جانے پر بات کو جھوٹ سمجھتی تھی۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔غلط فہمی اور شک کا بیج ہنستے مسکراتے گھر کو ویران کر دیتا ہے اس سے پہلے کہ شک کا بیج تناور درخت بن جائے آپس میں بات چیت کے ذریعے غلط فہمی کو دور کر لینا چاہیے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں