aik din nadra ke sath

میڈیا ورکرز کو دل کا دورہ کیوں پڑتا ہے؟

تحریر: شعیب واجد۔۔

تین سال پہلے کی بات ہے،میں ان دنوں ‘آج نیوز’ میں جاب کرتا تھا، رات نو بجے کا بلیٹن اس وقت اپنے اختتامی لمحات میں تھا ، جس کے بعد ہم نیوزڈیسک والوں کو سکون کی چند لمحات میسر آنے تھے۔ اس وقت میں اٹھ کر وضو کرنے چلا گیا۔تاکہ نمازِ عشا پڑھ کر پھر ڈنر کا اہتمام کیا جائے۔اور پھر اس کے بعد نئے بلیٹن کی تیاری۔۔نیوز روم سے اٹھ کر وضو کی جگہ تک جانے ،پھر وضو کرنے اور اس دوران ملنے والوں لوگوں سے دعا سلام کرنے میں بہ مشکل پانچ ہی منٹ لگے۔۔ پانچ منٹ بعد میں دوبارہ نیوز روم میں تھا۔لیکن یہ کیا؟

نیوز روم کی تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی،کئی چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کچھ کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور کچھ کے ہاتھ دعا کیلئے اٹھے ہوئے تھے، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟میں نے ایک ساتھی سے پوچھا خیر تو ہے ؟ کیا کوئی کوئی بہت بری خبر آگئی ہے؟ وہ بولا سعید کا انتقال ہوگیا ہے۔۔ میں نے کہا ۔۔۔۔ہیں؟؟؟ کب؟؟؟؟میں سمجھا کہ شاید اس کے گھر سے خبر آئی ہوگی۔۔لیکن دوست نے بتایا کہ سعید ابھی نیوز اسٹوڈیو میں اینکر کی آڈیو کیبل سیٹ کرنے آیا تھا، بس اسی وقت وہ گر پڑا، اور تڑپنے لگا، لوگ سمجھے کے مزاق کررہا ہے ، کیونکہ وہ ایک شرارتی اور کھلنڈرا نوجوان بھی تھا۔لیکن ایک ہی منٹ بعد اسٹوڈیو میں موجود ارکان کو اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی مزاق نہیں۔بلکہ ایک خوفناک حقیقت ہے۔سعید کو دل کا دورہ پڑا تھا۔سعید کا تعلق ٹیکنیکل ڈپارٹمنٹ سے تھا، ہم اڈیٹوریل والوں کا براہ راست واسطہ ان سے کم ہی پڑتا تھا ۔ نیوز روم میں اسکا آنا جانا کم ہی ہوتا تھا۔سچ بات یہ ہے کہ اس کا اصل تعارف اس کی موت کے بعد ہی ہوا۔جو لوگ اس کے ساتھ کام کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ وہ ’ہیرا‘ تھا۔سعید جیسے ہی اسٹوڈیو میں دل پکڑ کر گرا۔قریب موجود لوگوں کو تمام صورتحال سمجھ آگئی۔انہوں نے اسے اٹھایا اور اسے اسپتال لےجانے کیلئےنیچے لیکر دوڑ پڑے۔میں حیرانی اور دکھ سے یہ ساری روداد سن رہا تھا، میرے ہاتھ ابھی تک وضو کے پانی سے تر تھے،سوچ رہا تھااتنے کم وقت میں کیا سے کیا ہوگیا؟

میں کولیگ سے اس وقت بس مزید اتنا ہی کہہ سکا کہ یہ پانچ منٹ میں کیا ہوگیا؟صرف پانچ منٹ میں دنیا بدل گئی۔۔؟؟لیکن میرا کولیگ میرے اس سوال کا کوئی جواب نہ دےسکا۔۔میں نمازعشا میں مشغول ہوگیا۔نماز کے بعد دعا کی کہ سعید کو اللہ پاک زندگی اور صحت دے۔ ایک گھنٹے بعد اسپتال سے اس کی موت کی تصدیق کی خبر آگئی۔۔ہم حیران تھے کہ دل کا اس قدر شدید دورہ۔۔وہ بھی ایک اسمارٹ اور خوش مزاج لڑکے کو؟ آخر ایسا کیا اس نے دل پر لیا کہ اس کے دل نے دھڑکنا ہی چھوڑ دیا؟

میڈیا میں کسی ورکر کا ہارٹ اٹیک سے ہلاک ہونے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا ۔ اس طرح کے واقعات تسلسل سے سننے میں آرہے ہیں ۔آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ساتھیوں کو یاد ہوگا کہ چارپانچ سال قبل لاہور کے ایک نیوز چینل کے رکن کو اس کے دفتر میں ہی اس طرح کا دل کا دورہ پڑا تھا جس کی ویڈیو بھی اتفاق سےسامنے آگئی تھی۔وہ منظر بڑا دردناک تھا۔یقیناً ایسے تمام واقعات اتنا ہی درد لئے ہوتے ہوں گے۔

دل کے دوروں سے جاں بحق میڈیا ورکرز کی فہرست طویل تر ہوتی جارہی ہے۔اس وقت مجھے جن صحافیوں اور میڈیا ارکان کے نام یاد آرہے ہیں، ان میں ،سینیئر صحافی فصیح الرحمان ،کیمرا مین رضوان ،کیمرا مین فیاض علی ،کرائم رپورٹر ایس ایم ،پروڈیوسر کامران فاروقی ، کیمرہ میں ناظم نواب اور ایک درجن کے قریب دیگر کارکنان شامل ہیں۔ اسی طرح دو بڑے نام بھی اس فہرست کا حصہ ہیں، جنہیں ادارے کی جانب سے دُکھ دیا گیا۔جواد نظیر اور ادریس بختیار آج ہم میں نہیں ہیں۔۔جبکہ متعدد ارکان ایسے بھی ہیں جو دل کے دوروں کے بعد زیرعلاج ہیں۔

یہ سوال بالکل بنتا ہے کہ آخر میڈیا سے وابستہ لوگوں کو آخر ایسی کیا مشکلات اور پریشانیاں درپیش ہیں جن کی وجہ سے ذہنی دباؤ اس قدر بڑھ رہا ہے کہ لوگوں کی جانیں لے رہا ہے۔سب سے پہلے تو آپ سب لوگوں کو نیوز چینلز اور اخبارات کے مالی بحران کا علم توہوگا۔ کئی چینلز اور اخبارات میں ملازمین کو تنخواہیں کئی کئی ماہ تاخیر سے ادا کی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ گھر کا خرچ چلانے اور بچوں کی معصوم سی ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی ہاتھ پھیلانے پرمجبورہوگئے ہیں(یہ صورتحال کس قدر اذیت ناک ہوتی ہے اس بارے میں پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔)اور سوچیں جس پر یہ بیتتی ہوگی،اس کے دل کا ’حال‘ کیا ہوتا ہوگا؟

مالی بحران کے نام پر ورکرز کی برطرفیوں کا سلسلہ بھی بڑا ہی خوفناک عمل ہوتا ہے۔جب ایک،ایک کرکے ورکرز کو نکالا جارہا ہوتا ہےاور سب کو بلا کر برطرفی لیٹرز دیئے جارہے ہوتے ہیں، تو اس وقت ان ورکرز، اور ان کے ساتھ دیگر ورکرز،جن کی اس وقت تک باری نہیں آئی ہوتی،ان کے دل ہر کال پر دھڑک ، دھڑک جارہے ہوتے ہیں۔نیوز چینلز کے بے شمار ڈپارٹمنٹس ہوتے ہیں، جن میں نیوزڈیسک وہ ڈپارٹمنٹ ہے۔جو تمام ملک کی خبروں اور ویڈیوز یعنی ’اِن پٹ‘ کو پروسیس کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن ستم یہ ہے کہ تمام اداروں میں، برابر ذمہ داری کے فارمولے کو نظر انداز کرتے ہوئے،تمام لغزشوں کی جواب دہی صرف ایک ڈپارٹمنٹ یعنی ،نیوز ڈیسک سے ہی کی جارہی ہوتی ہے، کیونکہ موقع پر دستیاب،بے چارے یہی لوگ ہوتے ہیں۔نیوزڈیسک والوں کے ساتھ ایک اور بڑا مسئلہ ڈیڈ لائنز کا ہوتا ہے، جو انہیں ہر لمحہ ایک نئے ٹاسک کو پورا کرنے میں مصروف عمل رکھ رہی ہوتی ہیں۔جن دنوں نیوز چینلز نہیں ہوتے تھے اور اخبارات ہی خبروں کا اصل زریعہ تھے،اخبار میں گو کہ ڈیڈ لائن ایک ہی ہوتی ہے،یعنی مقررہ وقت پر اخبار کی کاپی مکمل کرنا، تاہم یہ ڈیڈ لائن بھی کم اسٹریس کا باعث نہیں ہوتی تھی۔

بیس سال پہلے ایک اخبار کی ڈیسک پر مجھے ایک سینیئر جرنلسٹ نے بتایا کہ کسی مغربی ملک میں ایک ریسرچ کے بعد یہ سفارش کی گئی ہے کہ اخبار کی نیوز ڈیسک والوں سے چھ گھنٹے سے زائد کام نہ لیا جائے، کیونکہ وہ ایک شدید ذہنی دباؤ کے ماحول میں کام کررہے ہوتے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ ٹی وی چینل کی نیوز ڈیسک پر اخبار کی ایک ڈیڈ لائن کے مقابلے میں کئی درجن ڈیڈ لائنز ہوتی ہیں، تو سوچیں ان کی ذہنی حالت کس لیول پر ہوگی؟ ان ڈیڈ لائنز میں ٹکر وقت پر چلانا، ہیڈ لائنز، نیوز اپڈیٹ، بلیٹن اور تمام بریکنگ نیوز شامل ہیں، جو منٹ، منٹ پر آرہی ہوتی ہیں۔اسی طرح چینل کے ملازمین،عام اداروں کے ملازمین کے برعکس،مشکل ڈیوٹی ٹائمنگز میں کام کررہے ہوتے ہیں۔یعنی نائن ٹو فائیو کے بجائے تین شفٹس۔

مارننگ، ایوننگ اور نائٹ شفٹس چینل کو 24 گھنٹے لائیو رکھتی ہیں۔اسی طرح ان ملازمین کو سنیچر کے روٹین ہاف ڈے یا اتوار کی چھٹی کے بجائے ہفتے میں باری باری آف دی جاتی ہے۔اسی طرح انہیں پبلک ہالی ڈیز، اور عید ، بقرعید ، محرم ، اور ربیع الاول کی تعطیلات کے دنوں میں لازمی ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ ساتھ ہی یہ ملازمین اپنی سالانہ چھٹیاں بھی اکثر استعمال نہیں کرپاتے کیونکہ اسٹاف کی قلت کی بنا پر ان کو چھٹی دینے سے معذرت کرلی جاتی ہے۔بیشتر ٹی وی چینلز میں اسٹاف کمی کا مسئلہ بھی ملازمین کیلئے انتہائی اذیت ناک ہے،کیونکہ ایسی صورتحال میں ایک آدمی کو اکثر دو یا تین آدمیوں کا کام اکیلے کرنا پڑرہا ہوتا ہے۔۔لکھنے کو تو ابھی بہت کچھ ہے لیکن کیا کیجئے مضمون کی طوالت میرا ہاتھ روک رہی ہے۔نہ جانے میں یہ بتا پایا کہ نہیں کہ میڈیا ورکرز کو دل کا دورہ کیوں پڑتا ہے؟(شعیب واجد)۔۔

(یہ تحریر مصنف کی فیس بک وال سے اڑائی گئی ہے جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں