mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

مالکان رہنما گٹھ جوڑکہاں لے آیا؟؟؟

تحریر : عمیر علی انجم

سب سے پہلے تو ان سب احباب کا شکریہ جنہوں نے کل میری تحریر پڑھ کر مجھ سے رابطہ کیا اور اپنی محبتوں کا اظہار کیا ۔۔میں خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں ۔۔کوئی میری کل کی تحریر کو نوحہ قرار دے رہاہے تو کسی کے خیال میں وہ صحافیوں کے دلوں کا حال تھا ۔۔جن کا غم مشترک ہے وہ تو اس تحریر کی تہہ تک جاپہنچے لیکن جنہیں اس تحریر اثر لینا چاہیے تھا وہ بے حسی کی چادر تانے اب تک گہری نیند میں ہیں ۔۔مجھے کسی نے بتایا کہ میرے کل کے ”نوحہ” کے بعد کچھ نام نہاد رہنماؤں نے انگڑائی لی اور ہمیشہ کی طرح پہلے سے تیار کردہ ایک پریس ریلیز جاری کردیا گیا ۔۔یہ نسخہ ان تنظیموں کو نجانے کس حکیم نے سکھایا ہے ۔۔وہ اسے ہر مرض کا علاج سمجھتے ہیں ۔۔بھلا ایک پریس ریلیز سے کیا کسی صحافی کی نوکری بحال ہوسکتی ہے ؟؟؟ ۔۔اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم فرمائے ۔۔۔ادھر راولپنڈی سے ایک ایسی خبر سننے کو ملی ہے کہ کلیجہ منہ کو آگیا ہے ۔۔محمد ناصر نامی جیو کا ایک کیمرہ مین جو سرطان ایسے موذی مرض میں مبتلا ہے ،اس کو بھی” میڈیا ۔۔رہنما”گٹھ جوڑ نے نہیں چھوڑا ۔۔وہ بیچارہ اس بیماری کی حالت میں نکال دیا گیا ۔۔گھر کا واحد کفیل جب مریض بھی ہو اور نوکری بھی نہ ہو تو آپ جان ہی سکتے ہیں کہ اس کا کیاحال ہوا ہوگا ۔۔اس کی اہلیہ اپنے سرکے تاج کو لے کر سڑک پر بیٹھ گئی ۔۔اس پر نہ میڈیا مالکان کو رحم آیا اور نہ ہی نام نہاد عظیم رہنماؤں کو ۔۔بس راولپنڈی پریس کلب کے شکیل قرار نے انفرادی طور پر اس کو سہارا دیا اور وہ آج مو ت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔۔

آپ خود اندازہ کرلیں کہ یہ ” مالکان ۔۔۔رہنما” گٹھ جوڑ ہمیں کہاں لے آیا ہے ۔۔پہلے تو بس یہ محاورہ ہی سنا تھا کہ فلاں شخص سڑکوں پر آگیا ہے ۔۔ اب جیتی جاگتے آنکھوں سے اپنے صحافی بھائیوں کو سڑکوں پر آتا دیکھ رہے ہیں ۔۔دل ہے کہ خون کے آنسو رو رہا ہے ۔۔میرے جتنے بیروز گار صحافی ہیں وہ بھی کرب کے اسی مرحلے میں جہاں پر میں ہوں ۔۔لیکن میرے عظیم رہنما نشاط کے مرحلے بتدریج طے کررہے ہیں ۔۔کل جس طرح میرے ساتھیوں نے ان رہنماؤں سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے ،اسے دیکھ کر مجھے خوف آرہا ہے ۔۔مجھے غداروں کا انجام یاد آرہا ہے ۔۔

”پریس ریلیزسرکار ”کے ہاتھوں سے اب معاملات نکل چکے ہیں کیونکہ معاملات کبھی ان کے ہاتھوں میں تھے ہی نہیں ۔۔یہ میڈیا مالکان کے بغل بچے ہیں جو ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں ۔۔مجھے کل یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ صحافیوں کی اکثریت نے ان سے منہ موڑلیا ہے ۔۔وہ اب سنجیدہ قسم کے اقدامات چاہتے ہیں ۔۔ان کی آنکھوں کے تیور بتارہے ہیں وہ ہر اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں اور میڈیا مالکان کے ایجنٹوں سے نجات چاہتے ہیں ۔۔

میں عمیر علی انجم جس کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے ۔۔اپنے بھائیوں کے ساتھ ہر اقدام کرنے کے لیے تیار ہوں ۔۔میرے لیے اس وقت اصل ہیرو وہ بے روزگار صحافی ہیں جو کریم چلاکر ،کسی دکان پر نوکری کرکے اور ،کسی سیٹھ کا منشی بن کر رزق حلال کمانے کی تگ و دو کررہے ہیں ۔۔ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں ،جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔۔یہ میرے محسن ہیں ۔۔میں اپنے بے روزگار ساتھیوں کے لیے ایک شام منعقدکررہا ہوں ۔۔جس میں ہم سب اپنے دکھ ایک دوسرے سے بیان کریں گے ۔۔میں دوسرے مرحلے میں کراچی پریس کلب سے ”روٹی مارچ” کرنے کا اعلان کرتا ہوں ،جس میں میرے تمام بے روزگار ساتھی گلے میں روٹیاں ڈال کر میڈیا مالکان اور” بیوروکریٹ صحافیوں”کی بے حسی کو عیاں کریں گے ، تیسرے اور آخری مرحلے میں ،کراچی پریس کلب پر تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ جاؤں گا اوریہ بھوک ہڑتال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارے عظیم رہنمااپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرکے میڈیا مالکان کا گریبان نہیں پکڑیں گے ۔کیا آپ اس جدوجہد میں میرا ساتھ دیں گے؟؟(عمیر علی انجم)۔۔۔

(عمیر علی انجم کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں