تحریر: عمیرعلی انجم
آج سے تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل جب میں نے شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کا فیصلہ کیا تو میرے ذہن میں اس کے حوالے سے بہت مثالی تصورات تھے ۔۔میں سمجھتا تھا کہ معاشرے کی بہتری اور مظلوموں کی آواز بننے کے لیے اس سے بہتر کوئی شعبہ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔میرے سامنے شعبہ صحافت سے وابستہ ایسی شخصیات موجود تھیں کہ جن کے بارے میں بلا شک و شبہ کہاجاسکتا تھا کہ ”دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں ” حقیقت کا ادراک مجھے اس وقت ہوا جب میں خود اس سمندر میں کودا ۔۔۔ہاں میں یہ بات ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آج سے 15سال قبل صورت حال اس قدر خراب نہ تھی جو اس وقت ہے ۔قحط الرجال کا یہ دور مجھ سے ”آئیڈیلسٹ” کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ۔مجھے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے ہر وہ ناکارہ فرد جو کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل نہ کرسکا اس نے صحافت کا لبادہ اوڑھ کر اس پیغمبری پیشے کو تختہ مشق بنالیا ہے ۔آج کل صحافیوں کے حقوق اور میڈیا بحران کے نام پر جو تماشہ ہمارے ہر دلعزیز رہنماؤں نے لگارکھا ہے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ مجھے بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا کرتا جارہا ہے ۔ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک طرف کراچی میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے وہاں سے چینلز کے مائیک ہٹائے جارہے تھے تو عین اسی وقت ایک قومی روزنامہ کے کراچی اسٹیشن سے نیوز ایڈیٹر سمیت ایک درجن سے زائد اخباری کارکنوں کو جبری طور پر نوکری سے نکالا جارہا تھا ۔عالی جاہ ! اس وقت شیخ رشید کی پریس کانفرنس کے بائیکاٹ کے زیادہ اس بات کی ضرورت تھی کہ آپ اس اخبار کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھتے اور کہتے کہ ”نہیں بس اب بہت ہوگیا ۔۔بھوک نا منظور ۔۔بے روزگاری نا منظور” اور اس وقت تک وہاں سے نہیں جاتے جب تک یہ ایک درجن افراد اپنی نوکریوں پر بحال نہیں ہوجاتے ۔۔اگر ایسا ہوتا تویہ خاکسار آپ کو وہاں آکر ”سلیوٹ” اور آپ کی رہبری پر ایمان لے آتا ۔مجھ سے میرے بیروزگار ساتھی سوال کرتے ہیں کہ جناب !اس ”عظیم” تحریک کے نتیجے میں یہ رہنما اب تک کتنے صحافیوں کی نوکریاں بحال کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور بحال کرانا تو دور کی بات ہے اگر یہ لوگ صحافیوں کومزید بے روزگار کرنے کے سلسلے کو روکنے میں ہی کامیاب ہوجائیں تو بات سمجھ آتی ہے کہ ان کی تحریک میں کوئی ”دم” ہے ۔۔ مجھے تو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے شیروں کی رہنمائی کسی ”گیدڑ” کو سونپ رکھی ہے اور نتائج وہی ہیں جو کسی ”گیدڑ” کی قیادت کے ہوسکتے ہیں ۔۔اصل میں مجھے مسئلہ رہزنوں سے ہے ہی نہیں ۔۔۔۔اگر کوئی لٹیرا ہے تو اس کا کام ہی یہی ہے ۔اس نے آپ کو لوٹ لینا ہے ۔۔۔میرا گلہ تو رہبروں سے ہے ۔۔اس نے آپ کی حفاظت کے لیے اب تک کیا ،کیاہے ؟؟؟وقت بہت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے ۔۔۔مجھے اپنے بے روزگار ساتھیوں سے نظریں ملاتے ہوئے اب شرمندگی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔میں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہوں کہ ان سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دوں ۔۔۔۔شاید اس کے بعد ہمارے عظیم رہنماؤں کو کوئی حیا اور شرم آجائے ۔۔۔میں صحافیوں کے عظیم تر مفاد میں اپنے ”عالی مرتبت” رہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ آئیں مجھ چھوٹے سے صحافی کی پیروی کریں اور اپنے اداروں سے استعفیٰ دینے کا اعلان کریں اور جب تک آپ کے بیروزگار ساتھی نوکریوں پر بحال نہ ہوجائیں آپ بھی اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیں ۔میرا استعفیٰ تیار ہے ۔۔مجھے آپ کا انتظار ہے ۔۔کیا آپ میرا ساتھ دیں گے ؟؟ (عمیر علی انجم)۔۔
(عمران جونیئرڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔