aik tabah saath | Imran Junior

خوش۔آم۔۔دید

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو، ہم چونکہ عوامی ہیں اسی لیے عوام کے لیے لکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ باتیں ہر گز نہ کریں جو ’’خواص‘‘ کے لیے مخصوص ہیں۔اس لیے سوچا کہ آج کچھ ایسی ’’عام‘‘ باتیں کی جائیں جو ’’آم‘‘ کی طرح ہیں اور بغیر کسی ’’سیزن‘‘ کے سال کے بارہ مہینے ہمارے آس پاس معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔۔آم پر یاد آیا کہ آموں کا سیزن آگیا ہے، سب سے پہلے تو آپ تمام لوگ آم کو ’’خوش آم دید‘‘ بولیں،کیوں کہ اب ملک بھر میں ’’قتل آم ‘‘ ہوگا۔۔ لوگ بہت شوق سے قتل آم میں شریک ہوں گے۔۔ گھر گھر دعوتیں ہوں گی، ایک دوسرے کو پیٹیاں بھیجی جائیں گی تاکہ قتل آم سے کوئی عام رہ نہ جائے۔۔ہاں، اگر کوئی ایک آدھ پیٹی ہماری طرف بھی بھیج دے گا تو ہم اسے بھی ’’خوش آم دید‘‘ کہیں گے۔۔تو چلیں پھر اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔۔ میرپورخاص میں جب ’آموںکا سالانہ میلہ‘ لگتا ہے تو کم وبیش ڈھائی سو اقسام کے آم نمائش کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔گزشتہ سال ایک ٹیلی وژن چینل پر نشر ہونے والی روداد سے علم ہوا کہ لندن میں ہونے والی ’’آم نمائش‘‘ میں پاکستان سے کوئی ساڑھے چھ سو (650)اقسام کے آم رکھے گئے ہیں۔میرپورخاص کے اسی آم۔میلے میں ’انمول‘ نامی ایک قسم کی نمائش کی گئی جو قدرتی طور پر ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید پایا گیا ہے۔ کیا شان ہے اس پروردگار کی!یعنی کہ میٹھا آم شوگر کے مریض کو نقصان بالکل نہیں پہنچاتا، لیکن ہر آم نہیں، یہ صرف ’’انمول‘‘ آم کی بات ہورہی ہے۔۔ملیح آباد، ہندوستان کے ایک بزرگ حاجی کلیم اللہ خان المعروف ’مینگومہاراجہ‘ نے آموں کے متعلق مسلسل تحقیق کرکے تین سو سے زائد اقسام کے آم اپنے چودہ ایکڑ پر محیط باغ میں لگائے ہیں۔ انھیں ہندوستانی حکومت نے ’پدم شری‘ اعزاز سے نوازا ہے۔ اُن کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے آم کی ایک ایسی قسم کاشت کی ہے جو سارا سال پھل دیتی ہے۔ مرزا صاحب کے دوستوں میں سے حکیم رضی الدین خاں کو آم نہیں بھاتے تھے، ایک دن وہ مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے، اتنے میں ایک کمہار اپنے گدھے لے کر گزرا، گلی میں آم کے چھلکے پڑے ہوئے تھے، گدھے نے انہیں سونگھا اور چھوڑ دیا، اس پر حکیم صاحب چہک کر بولے۔۔مرزا صاحب، دیکھیئے آم ایسی شے ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔مرزا نے جواب دیا۔۔بے شک گدھا آم نہیں کھاتا۔۔ مرزا آموں سے کبھی سیر طبیعت نہ ہوتے تھے۔ اہلِ شہر تحفتہً بھیجتے، مرزا خود بازار سے منگواتے، باہر سے دور دور کا آم بطور سوغات آتا تھا مگر مرزا کا جی نہ بھرتا۔ایک محفل میں مولانا فضل حق اور دیگر احباب بیٹھے آموں کی تعریف کر رہے تھے، جب سب لوگ اپنی اپنی رائے ہانک چکے تو مولانا فضل حق نے مرزا سے کہا کہ تم بھی اپنی رائے بیان کرو۔مرزا نے کہا۔ ۔۔بھئی میرے نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونی چاہئیں، میٹھا ہو اور بہت ہو۔۔اس پر سب حاضرین کھلکھلا کر ہنس پڑے۔۔۔بازار میں ایک پھل والا آواز لگا رہا تھا۔۔’’لنگڑے آم پچاس روپے کلو۔‘‘ایک چھوٹا بچہ ٹھیلے والے کے پاس آکر بڑی معصومیت سے پوچھنے لگا۔۔ ’’اورٹانگوں والے آم کتنے روپے کلو ہیں؟‘‘۔۔کہتے ہیں کہ ۔۔آموں کی ایک فصل علامہ اقبال پر بہت بھاری گزری۔ حکیم صاحب نے انھیں ہدایت کی کہ آموں سے پرہیز کیجیے، مگر جب دیکھا کہ مریض بہت مچل رہا ہے تو کہا کہ اچّھاآپ دن میں ایک آم کھا سکتے ہیں۔ تب علّامہ صاحب نے اپنے ملازم علی بخش کو ہدایت کی کہ بازار میں گھوم پھر کر دیکھو، جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہ خرید کر لایا کرو۔ پھلوں کا بادشاہ کہلائے جانے والا آم دنیا بھر میں سب سے زیادہ کھایا جانے والا پھل ہے لیکن کبھی آپ لوگوں نے پانچ پاونڈ وزنی آم دیکھا ہے؟کولمبیا میں کسانوں نے اپنے باغ میں دنیا کا سب سے وزنی آم اگانے کا ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کیا ہے۔4.25 کلوگرام یعنی 9.36 پاونڈ کا وزنی آم کو گینیز ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز بھی دیا گیا ہے۔اس سے قبل سب سے زیادہ وزنی آم فلپائن میں پایا گیا تھا جس کا وزن 3.43 کلوگرام تھا۔کسانوں کی جوڑی جرمن اوررائیناکے مطابق انہوں نے آم کو دیکھا اور نوٹس کیا کہ وہ تیزی سے بڑھتا اور پھولتا جا رہا ہے۔ درخت پر لگے دیگر آموں کی نسبت یہ آم کافی منفرد دکھائی دیا جس کا ہم نے بعد میں خصوصی خیال رکھا۔ انٹرنیٹ پر سرچ کرنے سے معلوم ہوا کہ ہمارا آم دنیا میں پیدا ہونے والا سب سے وزنی آم ہے۔پھر جب گنیز بک میں اس وزنی آم کا اندراج ہوگیا تو اسی خوشی میں شاندار پارٹی کا اہتمام کیاگیا جس میں وہی وزنی آم کاٹ کر سب کر کھلایا گیا۔۔ ایک سردار جی کو درخت پر چڑھتے دیکھ کر اُن کے دوست نے پوچھا ’سردار جی درخت پر کیوں چڑھ رہے ہو؟‘ سردار بولا امرود کھانے، دوست نے کہا ’کر دی نا سرداروں والی بات، یہ تو آم کا درخت ہے‘ سردار جی بولے کر دی نا بیوقوفوں والی بات، میں امرود ساتھ لے کر آیا ہوں۔۔ایک فقیر آم والے کی دکان پر گیا ور اس سے کہنے لگا کہ۔۔ اللہ کے نام پر ایک آم دے دو۔۔دکان دار نے ایک خراب سا آم فقیر کو دے دیا۔۔پھر فقیر نے دس روپے کو نوٹ نکالا اور بولا کہ اس کا بھی آم دے دو دکان دار نے ایک اچھا سا آم اٹھا کر اسے دے دیا۔۔فقیر نے دکاندار سے اچھا والا آم لے کر آسمان کی جانب نگاہیں کیں اور شکوے بھرے انداز میں گویا ہوا۔۔۔ ’’اللہ میاں! دیکھ لے اس شخص نے تجھے کیا دیا ہے اور مجھے کیا دیا ہے۔‘‘۔۔باباجی سے جب ہم نے سوال کیا کہ ۔۔باباجی، یہ آم لیٹ کسے کہتے ہیں؟باباجی نے مسکرا کر ہمیں دیکھا پھر چائے کے کپ کو لبوں سے لگاکر زوردار ’’چسکی‘‘ لی، بڑے اسٹائل سے کپ ٹیبل پر رکھا اور کہنے لگے۔۔جو آم دیر سے پکتا ہے اسے آم لیٹ کہتے ہیں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بچپن میں ماں کہتی تھی۔۔تجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔جوانی میں بیوی کہتی رہی۔۔آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔ بڑھاپے میں اولاد کہتی ہے۔۔آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔ انسانوں کے لیے سمجھنے کی عمر کون سی ہوتی ہے؟ ہماری تو اب تک سمجھ نہیں آتا۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں