pakistan ke pehla chothi fail editor

تحقیقاتی رپورٹنگ اور جاوید چودھری

تحریر: میاں غفار احمد۔۔

اٹھارہ  جولائی 2019ء بروز جمعرات پاکستان کے منفرد اسلوب کے داستان گو اور نصیحتوں کے حوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھنے والے جاوید چودھری کا خود ساختہ تحقیقاتی کالم نظر سے گزرا۔ تحقیقاتی رپورٹنگ تو ویسے ہی اپنی موت آپ مر چکی ہے اور رہی سہی کسر جاوید چودھری نے نکال د ی جب جاوید چودھری متنازع قسم کے سورس پر تکیہ کریں گے اور لکھتے ہوئے قلم کی حرمت کے مطابق کسی دوسرے فریق کا مئوقف نہیں لیں گے تو پھر صحافت کے یہ ” روشن مینار“ آنے والی نسلوں کو کیا رہنمائی دیں گے؟ ”زیرو پوائنٹ“ نامی کالم کے دوسرے حصے میں جاوید چودھری صاحب نے الزامات کی بوچھاڑ کردی مگر حیران کن طور پر انہیں یہ بھی علم نہیں کہ جج ارشد ملک میرے دفتر کس تاریخ کو آئے؟ اس کالم میں دی گئی معلومات کے مطابق احتساب عدالت نمبر 2 کے جج محمد ارشد ملک 6 اپریل 2019ء کو جاتی امراء میں میاں نوازشریف سے ملاقات کرتے ہیں اور اس ملاقات کیلئے فروری کے مہینے سے ناصر بٹ اور خرم یوسف نامی دو افراد سے رابطے میں ہوتے ہیں۔ ملتان میں بننے والی کسی ویڈیو کا ذکر ہوتا ہے جو غالباً جاوید چودھری دیکھ چکے ہیں کہ انہیں فلم میں لوگوں کی مدہوشی نظر آئی ہے اور یہ بھولے بادشاہ فرما رہے ہیں کہ ویڈیو میں نظر آنے والے یہ لوگ کیمرہ مین کی موجودگی سے بھی بے پروا ہو چکے ہیں۔ گویا جاوید چودھری کو یہ بھی علم نہیں کہ کیمرہ اور کیمرہ مین کا دور 2 دہائیاں پہلے ہی ختم ہو چکا تھا اور اگر انہوں نے بنگلہ بدھو شیخ مجیب الرحمان کی گرفتاری کے ایام کی کہانی پڑھی ہو جوکہ 1970ء کی تھی تو انہیں پتہ ہوگا کہ ایک کرسی میں لگے ہوئے کیمرے سے پورے کمرے کی ویڈیو اور وائس ریکارڈنگ ہوتی تھی اب تو بات بہت ہی آگے جا چکی ہے۔

کالم نگار فرماتے ہیں کہ ناصر جنجوعہ اور خرم یوسف (شریف فیملی اور ارشد ملک کے مشترکہ دوست) نے لاہور کے فائیو سٹار ہوٹل میں 5 کروڑ روپے اور ایک جیپ کے عوض ویڈیو خریدی اور رقم نوازشریف کے ایک عزیز نے ادا کی۔ یہاں انتہائی قابل احترام کالم نویس کی توجہ کیلئے عرض ہے اور ویڈیو سے بھی ثابت ہے کہ جس گاڑی کا وہ ذکر کر رہے ہیں اسی گاڑی پر جج موصوف جناب ارشد ملک نواز شریف سے ملاقات کے دو ماہ 23 دن بعد 29 جون 2019ء بروز ہفتہ سہ پہر3 بجکر 10 منٹ پر میرے دفتر تشریف لاتے ہیں۔ گویا گاڑی بھی پہلے ہی سے انہےں مل چکی تھی اور سودا بھی ہو چکا تھا پھر یہ بھی کالم نگار فرماتے ہیں کہ یہ سودا پیپلزپارٹی کی ایک شخصیت نے کروایا جو جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے۔ موصوف نہ تو اس کا نام لکھتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کا نام لکھتے ہوئے قلم کانپتے ہیں ۔ میرے دفتر میں ویڈیو سے عیاں ہے کہ موصوف اُسی گاڑی پر آئے جو کافی دنوں سے ملتان ہی میں گھوم رہی تھی اور اس گاڑی کو میاں طارق کا بیٹا چلا رہا تھا۔ جج صاحب فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے۔ عقبی سیٹ پر میاں طارق ۔

پاکستان کے منفرد کالم نگار کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ جب پیپلزپارٹی کی یہ شخصیت اسلام آباد میں قومی سطح کے ایک عہدے پر تعینات تھی تو ان کے پرائیویٹ سیکرٹری میاں طارق ہی تھے جو کہ اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں ان کے قیام و طعام کے انتظامات کرتے تھے اور کالم نگار کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ وہ اس کالم کو لکھتے ہوئے جس شکیل انجم نامی سورس کا نام لے کر بات کہہ رہے ہیں وہ سورس بھی اسی فلیٹ میں جا کر رہتا رہا ہے. کالم نگار کے یہ بھی علم میں ہونا چاہیے کہ میاں طارق کی فوارہ چوک کے قریب جس پلازہ میں دکان ہے اس پلازے کے عین اوپر ان کے کس سورس کی راتیں کس حالت میں گزرتی ہیں؟ وہاں کس کے سگے بھائی کا دفتر ہے؟ یہ تمام اداروں کے پاس مکمل تفصیلات ہیں. اوپر سے کالم نگار کے ہاتھ بھی لمبے ہیں، وہ یہ تفصیل با آسانی لے سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد سے چل کر ملتان اور میرے دفتر آنے کی جج ارشد ملک کو کیوں ضرورت پیش آئی؟ جون کے آخری عشرے میں میاں طارق مجھ سے ملتے ہیں جسے الفاظ کے اس جادوگر کالم نگار جاوید چودھری نے ”سوداگر ایڈیٹر “ قرار دیا ہے` اس کے دفتر آتے ہیں اور پریشانی کے عالم میں پوچھتے ہیں کہ آپ کے دفتر میں کوئی خاتون آئی ہے؟ اور آپ کے کرائم رپورٹر کو کوئی ویڈیو دے کر گئی ہے اور اس خاتون کا بائیو ڈیٹا آپ کے کرائم رپورٹر کے پاس ہے جو اس نے آپ کے حوالے کر دیا ہے۔ عجیب کنفیوژن تھی! لاعلمی کے اظہار کے بعد بھی میاں طارق مطمئن نہ ہوئے۔ تسلی نہ ہونے پر میاں طارق نے کہا کہ میں آپ کو وہ ویڈیو دکھاتا ہوں` آپ میری تسلی کر دیں کہ یہ ویڈیو آپ کے پاس نہ ہے جب انہوں نے موبائل آن کیا تو اس میں سوائے غلاظت کے اور کوئی چیز نہیں تھی اور دو ہی لوگ غلاظت میں مصروف تھے جن کو میں نہیں پہچانتا تھا۔ میاں طارق کا نہ جانے کیوں یہ اصرار تھا کہ ویڈیو میں موجود خاتون آپ کے دفتر آئی ہے اور آپ کو ریکارڈ دے گئی ہے۔ 2، 3 روز بعد 27 جون بروز جمعرات میاں طارق میرے دفتر آتے ہیں اور ہاتھ جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ میرے ساتھ اسلام آباد چلیں میں 4 گھنٹے میں آپ کو لینڈ کروزر پر لے جاﺅں گا، جج صاحب سے ملوانا ہے۔ میں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ میں کسی کے پاس نہیں جاﺅ ں گا اور نہ ہی میرے پاس کوئی مواد ہے جس نے ملنا ہے وہ میرے دفتر آ کر ملے۔ 29 جون کو میرے دفتر میں پہلی اور آخری مرتبہ جج ارشد ملک مجھ سے ملے۔ وہ ایک مہذب آدمی ہیں` انہوں نے انتہائی شرافت اور تمیز کے دائرے میں رہ کر اشارتاً کہا کہ ہم سرکاری ملازمین کے پاس ہوتی تو عزت ہی ہے۔ خیال کیجیئے گا اگر میرے بارے ایسی کوئی چیز ہے تو شائع نہ کیجیئے گا۔ انہیں میں نے واضح الفاظ میں کہا کہ میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں اور اگر کوئی ملی بھی تو ہم خبر شائع نہیں کریں گے یہ ہمارے اخلاقی تقاضے ہیں۔ جج ارشد ملک انتہائی مطمئن ہوئے` انہوں نے کھل کر نوازشریف کے کیس پر گفتگو بھی کی اور بتایا کہ نوازشریف کی دنیا بھر میں 328 جائیدادیں نیب نے ڈھونڈ نکالی ہیں اور انہوں نے والیم 10 کا بھی ذکر کیا جس کا میں نے اپنی اگلے ہی بدھ کو شائع ہونے والی سیاسی ڈائری میں بھی حوالہ دیا تھا۔ جج صاحب مطمئن ہو کر 20، 25 منٹ بعد میاں طارق ہی کی گاڑی میں لاہور چلے گئے۔

اب صورتحال یوں ہے کہ 29 جون سے پہلے 6 اپریل کو نوازشریف سے ملاقاتیں بقول جاوید چودھری ہو رہی ہیں پھر مئی میں سعودی عرب میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور جون کے پہلے ہفتے میں مدینہ منورہ میں شریف خاندان سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور اوپر سے اس کالم میں مضحکہ خیز دعویٰ یہ کہ اس ڈیل میں اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے اہم کردار ادا کیا۔ موصوف یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ملتان میں ان کے صحافی دوست نے تھوڑے سے وقت میں سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر بھیج دی اور وہ مذکورہ صحافی کے ذرائع پروہ حیران رہ گئے۔ موصوف کو یہ بھی علم نہیں کہ مذکورہ سی سی ٹی وی فوٹیج ازخود میں نے تحقیقاتی اداروں کو فراہم کی تھیں کہ ایجنسیاں مریم نواز کی پریس کانفرنس کے فوری بعد تحقیقات شروع کر چکی تھیں اور ان تحقیقات میں میں نے حتیٰ المقدور معاونت ابتدا میں ہی کر دی تھی۔ جناب جاوید چودھری صاحب کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ذرا تحقیقات کرلیں کہ ملتان کے کون سے رپورٹر لندن جا کر الطاف حسین سے متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں اور الطاف حسین کیلئے جنوبی پنجاب میں باقاعدہ کارکن کے طور پر کام کرتے رہے ہیں؟ ملتان کے نواحی قصبے سے تعلق رکھنے والے ایم کیو ایم کے اہم ترین رکن کے ہمراہ جنوبی پنجاب کے تنظیمی دورے بھی کرتے رہے ہیں۔ موصوف کالم نگار کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے سورس شکیل انجم کے پاس صحافت میں آنے سے پہلے اثاثے کیا تھے؟ اور بعد میں کیا ہیں؟ کہ وہ 4 سے 5 کروڑ روپے کی کوٹھی میں کےسے رہائش پذیر ہیں۔

یہ بھی معلوم کرلیں کہ ان کا یہ سورس لندن میں جا کر کہاں ٹھہرتا رہا ہے؟ کراچی کا کون سا سابق وزیر ان کا میزبان ہوتا تھا؟ کتنی مرتبہ لندن کے دورے ہوئے اور الطاف حسین سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟ محترم کالم نگار یہ بھی معلوم کرلیں کہ بھارت میں کرکٹ میچ کا بدنام بکی لال چند جو بھارت چھوڑ کردبئی میں مقیم ہے پاکستان کیسے آیا؟ ملتان کے علاقے طارق روڈ کے کس گھر میں اسے کس سہولت کار نے ٹھہرایا؟ موصوف کالم نگار یہ بھی معلوم کرلیں کہ 2010ء کے سیلاب کے بعد جو باہر سے امدادی رقوم آئی تھیں اس سے کس نے ایک دیرینہ دوست کے ساتھ ملکر ایک یورپی ملک کہ جہاں ایک معروف کالم نگار سفیر بھی رہ چکے ہیں ہوٹل خرید رکھا ہے اور یہ ہوٹل سیلاب کے امدادی فنڈز سے خریدا گیا تھا پھر دبئی میں جائیداد کا بھی معلوم کرلیں اوریہ بھی معلوم کرلیں کہ ان کے سورس نے کس ٹی وی اینکر کے ذریعے لاہور کے کس چینل کے ڈائریکٹر نیوز سے سفارش کروائی تھی کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کریں تاکہ روزنامہ ”خبریں“ کی مہم سے بند ہونے والے جعلی شراب کے دھندے کو کھلوایا جاسکے اور اگر جاوید چودھری نے اپنے اس سورس سے یہ معلومات رات کے وقت لی تھیں تو بات اور بھی مشکوک ہو جاتی ہے کہ مذکورہ سورس رات کو گاڑی سمیت گندے نالے میں بھی گر جاتے ہیں۔ پس موصوف کالم نگار آخر میں ملتان کے بدنام شراب فروش کا ویڈیو بیان منگوا کر سن لیں کہ اس نے کیا کیا اعتراف کئے ہیں اور ان کے سرپرست کیا موصوف کالم نگار کے ہی سورس تو نہیں؟ تحقیقاتی اداروں سے یہ بھی معلومات لے لیں کہ کس چینل کی ڈی ایس این جی وین کے ذریعے جنوبی پنجاب میں شراب کی سپلائی ہوتی رہی ہے۔ ویڈیو میں شراب فروش کی جانب سے اعترافی بیان موجود ہے۔

اور چلتے چلتے نبی پاک کی حدیث مبارک سنائے دیتا ہوں۔ الفاظ میں ردوبدل ہو سکتا ہے مگر مفہوم میں نہیں۔ ”ہر مرد کے تین باپ ہیں۔ پہلا وہ جس نے پیدا کیا، دوسرا وہ جس نے بیٹی دی اور تیسرا باپ استاد کو قرار دیا گیا ہے“۔ آپ کے سورس کے حوالے میں عرض کروں کہ میرا اس حدیث کی روشنی میں تیسرا درجہ ہے۔ بس کبھی کبھی آم کے درخت کو پھل کے بجائے کانٹے بھی لگ جاتے ہیں۔ مجھے متعدد بار یہ کانٹے چبھ چکے ہیں۔ آپ آئندہ احتیاط کیجئے گا۔ شیخ سعدی کا فرمان ہے کہ ”بارش ایک جیسی برستی ہے مگر سانپ کے منہ میں زہر اور سیپ کے منہ میں موتی بناتی ہے“۔ اور پھر استاد تو ایک ہی طرح سے سب کو پڑھاتا، سکھاتا ہے۔

جناب! جاوید چودھری صاحب آپ کا بطور مسلمان اس بات پر یقین ہے کہ اس کائنات کے ذرے ذرے حتیٰ کہ ڈی این اے سے لے کر بڑی سے بڑی چیز خواہ وہ کے ٹو پہاڑ ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ ہی کی بنائی ہوئی ہے مگر ایک چیز اللہ تعالیٰ نے نہیں بنائی اور آپ تو صاحب علم ہیں یقینا جانتے ہوں گے کہ وہ چیز کیا ہے اگر نہیں جانتے تو میں بتائے دیتا ہوں کہ جناب تو وہ” راہ فرار“ ہے کہ اس کی کائنات سے کوئی نکل نہیں سکتا پھر 50 ہزار سالوں پر مشتمل یوم الحشر میں جب 18 جولائی 2019ء کے دن کی باری آئے گی تو وہ ایک دن جوکہ دنیاوی اعتبار سے 18ماہ کا بنتا ہے تو کسی نہ کسی موقع پر ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے۔ “سوداگر ایڈیٹر” نے تیاری کرلی ہے آپ بھی کرلیں۔ اجازت لینے سے قبل آپ کو یاد کراتا چلوں جب آپ نے صحافت شروع کی تھی اور آپ چار دوستوں کے ساتھ لاہور میں ایک کرا ےے کے چوبارے پر رہتے تھے میں تب بھی لاہور میں 2 کنال کی کوٹھی میں رہتا تھا۔ مجھے بھی تحقیقاتی رپورٹنگ میں اللہ تعالیٰ نے ملکہ دیا ہے، باقی تحقیقات پھر سہی، فی الحال خداحافظ، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔(بشکریہ  روزنامہ خبریں)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں