ik wari fir | Imran Junior

بڈھا ہوگا۔۔

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو، کچھ عرصے پہلے پڑوسی ملک کے معروف سپراسٹار امیتابھ بچن کی فلم ’’بڈھا ہوگا تیرا باپ‘‘ دیکھی ، جو ایک ٹوٹل فلاپ فلم تھی، لیکن فلم کے ہیرو یا امیتابھ بچن صاحب اس وقت تپ جاتے تھے جب انہیں کوئی بوڑھا کہتا تھا، بوڑھاپا اور موت ایسی حقیقتیں ہیں جنہیں جھٹلانا ممکن نہیں۔۔بوڑھاپے کے برے اثرات سے کیسے بچاسکتا ہے؟ نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔۔امراضِ قلب اور دماغی کمزوری کے مرض کے درمیان تحقیق میں ایک ان دیکھا پہلو سامنے آیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر نوجوانی میں مسرور اور خوش رہا جائے تو ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں ذہنی صلاحیت (کوگنیشن) کی تنزلی کو روکا جاسکتا ہے۔لیکن اس کا الٹا عمل بھی ہوسکتا ہے کہ نوعمری میں لاحق ڈپریشن بڑھاپے میں اکتسابی صلاحیت کی کمزوری اور ڈیمنشیا کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ تحقیق یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کے سائنسدانوں نے کی ہے جس کی تفصیلات الزائیمر ڈیزیز نامی جرنل میں 28 ستمبر کو شائع ہوئی ہے۔سائنسدانوں نے اختراعاتی طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس میں 20 سے 89 برس تک کے 15 ہزار افراد میں ڈپریشن والے لوگوں میں امراض کی پیشگوئی اور اس کا ممکنہ نتیجہ نوٹ کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ کہ جو افراد نوجوانی میں ڈپریشن کے شکار تھے ان میں سے 6 ہزار بوڑھے افراد ملے اور ان میں دیگر کے مقابلے میں دماغی و اکتسابی زوال کا خطرہ 73 فیصد تک دیکھا گیا۔اس تحقیق میں ماہرین نے غذا، طرزِ زندگی، عمر، جنس، قومیت، تعلیم، باڈی ماس انڈیکش، ذیابیطس اور تمباکونوشی وغیرہ کو بھی شامل کیا۔ سائنسداں وِلا برینووز اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دماغی تناؤ کی صورت میں ’گلوکوکورٹیکوکوئیڈز‘ نامی ہارمون خارج ہوتے ہیں جو براہِ راست دماغ کے ایک اہم گوشے ’ہیپوکیمپس‘ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہیپوکیمپس میں ہماری سوچ بنتی ہے، فکر کی تنظیم ہوتی ہے اور یادیں منظم ہونے لگتی ہیں۔تحقیق سے انکشاف ہوا کہ اس کا اثر خواتین پر زیادہ ہوتا ہے یعنی ان کی یاسیت بڑھاپے میں انہیں زیادہ متاثر کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ اس پوری تحقیق میں گیارہ برس تک سال میں دومرتبہ تمام شرکا سے رابطہ کیا گیا اور ان سے سوالنامے بھروائے گئے۔تمام شرکا کو ڈپریشن کے مشہور ٹیسٹ سی ای ایس ڈی 10 سے گزارا گیا جس میں عموماً دس سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اس سے ڈپریشن کی علامات یعنی کم، درمیانی اور شدید درجات کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق کی ابتدا میں نوجوانوں میں 13 فیصد، درمیانی عمر کے افراد میں 26 فیصد اور بوڑھوں میں 34 فیصد تک کسی نہ کسی درجے کا ڈپریشن موجود تھا۔ ان میں سے 1277 افراد ایسے نکلے جو کسی نہ کسی درجے کے دماغی زوال کے شکار تھے۔مطالعے کے تحقیق جو فرد جتنا زیادہ ڈپریشن میں جائے گا اس کا فکری اور دماغی انحطاط اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگرآج ڈپریشن کو کم کیا جائے تو اس سے بڑھاپے میں ڈیمنشیا کو روکا جاسکتا ہے۔ موبائل فون اب عذاب جان بن چکا ہے، جلد ہی آپ لوگوں کی اس سے جان چھوٹنے والی ہے۔۔نوکیا کے سی ای او پیکا لنڈمارک نے پیشگوئی کی ہے کہ اس دہائی کے آخر تک 6 جی موبائل نیٹ ورک فعال ہوجائے گا اور اسمارٹ فون کی مقبولیت کم ہوجائے گی۔ورلڈ اکنامک فورم میں ایک پینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2030 کے قریب 6 جی ٹیکنالوجی کمرشل مارکیٹ کا حصہ بن جائے گی۔سی ای او نوکیا سے سوال کیا گیا تھا کہ دنیا اسمارٹ فونز سے ہٹ کر اسمارٹ عینکوں اور دیگر ڈیوائسز پر کب منتقل ہوگی؟جواب میں پیکا نے کہا کہ ’’6 جی ٹیکنالوجی آنے سے پہلے ہی ایسا ہوجائے گا، اُس وقت اسمارٹ فونز اتنے زیادہ عام نہیں رہیں گے، زیادہ تر ڈیوائسز ہمارے جسم میں ہی نصب ہوجائیں گی‘‘۔نوکیا سی ای او نے یہ نہیں واضح کیا کہ وہ کن ڈیوائسز کی بات کر رہے ہیں لیکن ٹیسلا سمیت کچھ کمپنیز ’’برین کمپیوٹر انٹرفیس‘‘ ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہیں۔اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئی بھی کام کرنے کے لیے انسانی ذہن کے سگنلز ایک ڈیوائس پر منتقل ہوں گے اور مشین وہ کام کردے گی۔یاد رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے رواں سال فروری میں 5 جی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے لیے پالیسی تیار کی تھی۔چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ریٹائرڈ) عامر عظیم باجوہ نے کہا تھا کہ ملک میں 5 جی ٹیکنالوجی اپریل 2023 تک لانچ کر دی جائے گی۔ بچوں کی پڑھائی سے متعلق والدین اکثر پریشان رہتے ہیں، اب سائنسدانوں نے آسان سا فارمولہ بتادیا ہے کہ بچے کیسے پاس ہوسکتے ہیں۔۔؟اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں باقاعدہ ورزش کا عادی بنایا جائے۔تندرست جسم اور تندرست دماغ کے مصداق یہ بات درست ہے کہ ورزش دماغ کو قوی کرتی ہے، یادداشت بہتر بناتی ہے اور اس سے استدلالی قوت بھی بڑھتی ہے۔ بچوں میں اس کے فوائد ریاضی، زبان سیکھنے اور دیگر علوم یں بہتری کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔یونیورسٹی آف جنیوا کے سائنسدانوں نے اس ضمن میں 200 کے قریب بچوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرکے ان کا سروے کیا ہے۔ ان کا مقصد تھا کہ جسمانی سرگرمی اور تعلیمی صلاحیت کے درمیان تعلق کو سمجھا جائے۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ورزش، کھیل کود اور جسمانی ورزش بچے کی دماغی صلاحیت کو بہتر بناسکتی ہے۔اس ضمن میں جنیوا صوبے میں 8 سے 12 سال تک کے 193 بچوں کو شٹل رننگ ٹیسٹ سے گزارا تھا۔ اس میں بچوں کو ایک لائن سے دوسرے لائن میں 20 میٹر دوڑنا تھا اور پلٹ کر قدرے تیزی سے اسی مقام پر لوٹنا تھا۔ اس ٹیسٹ کو ماہرین نے کارڈیو ویسکیولر جانچ کا طریقہ قرار دیا ہے۔ماہرین نے تین طرح سے دماغی افعال کا جائزہ لیا۔ اس میں اول انہبیشن ہے جس میں غیر ضروری افعال اور خیالات سے پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ دوسرا شعبہ دماغی لچک کا ہے جس میں ہم ایک وقت میں کئی کام (ملٹی ٹاسکنگ) کرکے دماغی لچک اور نئی باتیں سیکھنے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تیسری صلاحیت عملی حافظہ (ورکنگ میموری) ہے۔ اس میں ہم کوئی بات یادداشت میں محفوظ رکھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ورزش کرنے والے بچوں کو سیڑھیوں کے زینے چڑھنے اور انہیں حروف تہجی اور اعداد یعنی ون اے، ٹو بی کی تربیت دی گئی۔ یوں حروف اور اعداد کو ایک ترتیب میں یاد رکھنے اور دوہرانے کا کہا گیا۔اس کے علاوہ جو بچوں جسمانی مشقت سے گزرے وہ اس ٹیسٹ میں بہتر رہے۔ دوم انہوں نے ورزش نہ کرنے والے بچوں کے مقابلے میں ریاضی اور فرانسیسی زبان سیکھنے میں بہتر کارکردگی دکھائی جس میں فرق واضح تھا۔سائنسدانوں نے کہا ہے کہ بچوں کی دماغی ترقی کے لیے لازمی ہے کہ انہیں باقاعدہ ورزش اور مشقت کرائی جائے۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ مسلمان، مسلمان کو ڈس رہا ہے اور باہر بیٹھا کافر ہنس رہا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

ارشدشریف تصاویر لیک، پیمرا سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں