aik sahafi ki aap beeti | Qadir Ghouri

ایک صحافی کی آپ بیتی

تحریر: قادر غوری۔۔

پہلا منظر

2008 وزیراعظم سیکرٹیریٹ

لوگ لائن میں لگ کر کھانا لے رہے ہیں ایک لڑکا جو اسلام آباد میں نیا تھا اور پہلی بار وزیراعظم سیکرٹریٹ میں میڈیا کوریج پر آیا تھا لائن سے ہٹ کر کھانا لینے کی کوشش کررہا تھا ۔۔ایک صاحب نے اسے ٹوکا ” تمیز نہیں ہے؟؟وہ لڑکا بولا چاچا لگتا ہے وزیراعظم آفس پہلی بار آئے ہو اور کھانا پلیٹ میں بھر کر آگے بڑھ گیا۔۔

دوسرا منظر

وقت گزرتا گیا وہ لڑکا سیکھتا گیا، اس کی طبیعت میں سنجیدگی، ٹہراؤ آنے لگا اب اُس کے لیے کوئی بڑا آدمی نہیں اور نہ کوئی چھوٹا انسان ہے اُس نے لوگوں سے متاثر ہونا چھوڑ دیا تھا۔وہ انسان کی عزت اُس کی حثیت دیکھ کر نہیں بل کہ اُس کے کردار کے مطابق عزت دیتا تھا۔کوئی صحافی، اینکرز، کیمرامین، ممبر پارلیمنٹ، سینیٹر یا منسٹر ایسا نہیں تھا جو اُس سے واقف نہ ہو۔منسٹرز، ایم این اے حکومت و اپوزیشن اراکین میں یکساں شہرت رکھتا تھا۔اسے کھانے پر بلایا جانے لگا، اس کی مس کال پر فوری طور پر ریٹرن کال کی جاتی تھی۔کتنے ہی منسٹر، اینکرز کو اُس نے ٹی وی پر بولنا سکھایا تھا۔

تیسرا منظر

وزیراعظم ہاؤس میں علماء کا وفد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے لیے موجود ہے،افطار کے بعد کھانے کی تیاری ہے ایسے میں ایک پروڈیوسر کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس کے سیکورٹی گارڈ نے بدتمیزی کی اور اُس کا موبائل لے لیا ۔یہ دیکھ کر تمام میڈیا ورکرز نے کھانا چھوڑ دیا اور باہر آ گئے ۔وہ لڑکا آگے آگے تھا۔ایک صاحب آئے کہا پی ایم ہم پر ناراض ہوں گے آپ لوگ کھانے کے لیے آجائیں۔ورکرز نے اُس لڑکے کی طرف اشارہ کیا کہ اُس سے بات کریں ۔مگر وہ لڑکا نہیں مانا بولا وزیراعظم کی کوریج ہوگئی ہم وزیراعظم ہاوس میں کھانے کے شوقین نہیں ہیں آپ جائیں ۔میڈیا ورکرز کو منانے کا یہ عمل تین مختلف لوگوں نے باری باری دوہرایا مگر ہر بار وہ لڑکا اندر جانے اے انکار کردیتا آخر میں ایک بزرگ آئے بولے بیٹھا تم لوگوں کا غصہ جائز ہے مگر یہ بھی دیکھو وزیراعظم تمہیں بلارہے ہیں انکار نہیں کرتے چل کر کھانا کھاو اور جو بات ہے پی ایم سے کہنا۔وہ لڑکا اٹھا اور تمام ورکرز بھی ساتھ اٹھے وہ لوگ وزیراعظم کے پاس پہنچے وزیراعظم نے اُس لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور نام لے کر کہا میں نے گارڈ کو ڈانٹا ہے اور اُن کی طرف سے میں سوری کہتا ہوں۔وہ لڑکا بولا نہیں سر آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں مگر وزیراعظم ہاؤس کی سیکورٹی کو سخت کریں کہ گارڈ بعد میں خواتین و حضرات سے موبائل نہ چھینتے پھیریں۔انہیں کہیں گیٹ پر روکیں نہ کہ اندر آکر مہمانوں کے سامنے بے عزت کیا جائے۔

چوتھا منظر

جاتی امراء میں سابق وزیراعظم نوازشریف صاحب کا انٹرویو ریکارڈ ہوچکا تھا۔غیر رسمی گفتگو جاری تھی۔کمرے میں نوازشریف کے علاوہ چار اور لوگ موجود تھے، جس میں ایک وہ لڑکا بھی تھا۔سندھ میں مسلم لیگ نون کے مُستقبل کے حوالے سے گفتگو جاری تھی۔اُس لڑکے کو زور کا پیشاب لگا ہوا تھا، کمرے میں کوئی ملازم موجود نہیں تھا،لڑکے سے برداشت نہیں ہوا تو اُس نے میاں صاحب سے ہی کہہ دیا سر مجھے واش روم جانا ہے۔میاں صاحب نے اشارے سے کہاں وہ سامنے ہے ۔اس سے پہلے کہ وہ لڑکا واش روم میں داخل ہوتا میاں صاحب نے اُسے نام لے کر کہا ٹھہرو اور پھر خود اپنی جگہ سے اٹھے اور واش میں میں جاکر نہیں معلوم ادھر اُدھر کیا چیک کیا اور پھر باہر آکر بولے آپ جائیں۔بقول اُس لڑکے کے کہ مجھے نہیں معلوم میاں صاحب نے ایسا کیوں کیا تھا مگر اُن کی سادگی اور اکیلے میں ہم سے ہونے والی گفتگو کا انداز دیکھ کر اُن کی عزت آج تک دل میں ہے۔

پانچواں منظر

پنجاب ہاؤس میں اہم پریس کانفرنس ہونے جارہی تھی۔آج نواز لیگ زرداری حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کرنے جارہی تھی۔پریس کانفرنس کے بعد ریفریشمینٹ کا انتظام تھا لوگ لائن میں لگے باری باری اپنی پلیٹ میں سموسے، کباب وغیرہ بڑے سلیقے سے چمٹے سے اٹھا کر رکھ رہے تھے۔وہ لڑکا بھی پلیٹ ہاتھ میں لیے لائن میں کھڑا تھا ۔جب اُس کی باری آئی تو وہ چمٹے سے سموسہ اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھنے لگا اتنے میں اُسے سموسے والے ڈش میں اوپر سے ایک ہاتھ آتا اور سموسہ پکڑتا دیکھائی دیا۔اُس لڑکے نے ایک دم اوپر دیکھا تو اُسے نوازشریف صاحب کا چہرہ دیکھائی دیا دونوں کی آنکھیں چار ہوئی تو نوازشریف نے وہیں سموسہ واپس چھوڑ دیا لڑکے نے اپنی پلیٹ نوازشریف کے ہاتھ میں پکڑا دی اور دوبارہ جاکر لائن میں کھڑا ہوگیا ۔

چھٹامنظر

وہ لڑکا اب سیکھ چکا تھا کہ کس سے کس طرح بات کرنی ہے۔لوگ اُس کے گرویدہ ہونے لگے تھے۔ہر طبقے، ہر مکتبہ فکر اور ہر محفل میں اُسے بہتر مقام ملنے لگا تھا۔بڑے بڑے عہدوں اور این جی اوز والے اس کی ایک کال کے منتظر رہتے اور دوڑے چلے آتے تھے۔سیاست دان اُسے ڈپلومیٹ کے لقب دیتے،کئی خواتین لیڈرز اُسے بیٹا یا بھائی کہتی تھیں، پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی، ق لیگ، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور متحدہ کی اعلی قیادت سے ڈاریکٹ رابطے میں رہنے لگا۔اس کی شامیں اکثر باہر گزرنے لگیں۔۔چوھدری شجاعت کے انٹرویو سے فارغ ہوئے تو ان کا خادم خاص ہاتھوں میں نوٹوں کی دستی لے آیا بولا یہ چوھدری صاحب نے دیے ہیں وہ لڑکا بولا کیوں دیے ہیں واپس کردیں۔خادم خاص بولا چوھدری صاحب ناراض ہوں گے۔لڑکے نے نوٹ پکڑے اور چوھدری شجاعت کو واپس کرتے ہوئے پوچھا یہ پیسے کس لیے؟بولے سب ملکر ناشتہ کرلینا ۔لڑکے نے کہا ہمارا ناشتہ دو سو روپے میں مست ہوجاتا ہے یہ لاکھ روپے واپس رکھ لیں اور کام بتائیں۔۔بولے انٹرویو ایڈیٹ نہیں کرنا ۔لڑکے نے کہا نہیں ہوگا۔دراصل چوھدری صاحب کے کئی الفاظ سمجھ نہیں آتے تھے تو اکثر چینل والے وہ حصے ایڈیٹ کردیا کرتے تھے۔

ساتواں منظر

عمران خان کا انٹرویو ختم ہونے کے بعد اسٹوڈیو کے باہر غیر رسمی بات چیت ہورہی تھی،جس میں عمران خان، عارف علوی، اینکر ذولفقار گرامانی وہ لڑکا اور شفقت محمود محمود شامل تھے۔مینار پاکستان والا جلسہ ہوچکا تھا اب عمران خان حیدرآباد سندھ جلسہ کرنے جارہے تھے۔عمران خان پُرانے اور غریب پارٹی ورکرز کو نکال کر نئے اور امیر لوگوں کو پارٹی میں اعلی عہدے دے رہے تھے۔نکالے جانے والوں میں ایک اُس لڑکے کا دوست بھی تھا ۔لڑکے نے باتوں باتوں میں عمران خان سے کہا کہ آپ کی نئی پالیسی آپ کو نقصان دے گی آپ اپنے 22 سالہ ساتھیوں کو نکال کر نئے لوگ لارہے ہیں فلاں شخص کو بھی نکال دیا جب کہ وہ آپ کے ساتھ پہلے دن سے مخلص تھا۔عمران خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا بولے تمارا مطلب ہے کہ میں اُن لوگوں کو عہدے دوں جن میں اہلیت نہیں ہے۔بات زیادہ بڑھتی اس سے پہلے وہ لوگ آگے بڑھ گئے۔وہ لڑکا آج اہلیت والی بات یاد کرکے ہسنتا ہے اگر اہلیت پر عہدے ملتے تو آج عمران خان وزیراعظم نہیں ہوتا۔۔وہ لڑکا اپنی محنت، ایمانداری، اخلاق اور خاندانی تربیت کے بل پر بہت کامیاب نظر آنے لگا ہر اُس جگہ پہلے سے موجود ہوتا جہاں پہنچنے کے لیے لوگ کئی ماہ کوشش کرنے پر وقت لیا کرتے تھے۔ہزاروں ٹاک شوز ارینج کرچکا تھا، سیکڑوں لوگوں کو پہلی بار ٹی وی پر موقع دے چکا تھا،سیکٹروں پُرانے لوگوں کے انٹرویو اور کھانے کی دعوت کرچکا تھا۔کتنے ہی ارب پتی سیاست دان راستے میں گاڑی روک کر اُس کا انتظار کرتے اور وہ اپنی موٹر سائیکل اُن کی بڑی گاڑی کے آگے لاک کرکے اُن کی بڑی اور مہنگی گاڑی میں سوار ہوجاتا۔کم آمدنی میں بھی اُس کا دسترخوان وسیع تھا اور کامیاب ترین افراد کا دسترخوان اُس کے لیے بیچھا رہتا تھا۔جنرل، کرنل برگیڈئیر، میجر، سیاست دان، جج، وکلا لیفٹ، رائٹ اور این جی اوز کے لوگ، لبرل، سوشلسٹ، شاعر ادیب دانشور اینکرز، صحافی، کالم نویس ، تجزیہ نگار اگر ایک ایک کا نام لکھنے بیٹھوں تو پاکستان کا کوئی وزیر مشیر، مشہور اور کامیاب انسان بچے نہیں۔سب اُس کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔

آٹھواں منظر

الیکٹرونک میڈیا کے بعد وہ لڑکا سوشل میڈیا پر بھی مشہور ہونے لگا ہزاروں فالورز اور فرینڈز اُس کی تحریروں کا انتظار کرنے لگے۔سوشل میڈیا پر نئے نئے ٹرینڈ متعارف کرواتا، اُس نے کئی کامیاب مہم چلائیں، بے شمار ملکی اور غیر ملکی دوستوں سے سوشل میڈیا سے نکل کر ملاقات اور دوستیاں ہوئیں۔ سوشل میڈیا سے ملے دوستوں نے اُس کا ساتھ ہر اچھے بُرے وقت میں دیا، اُس کے الفاظوں کی کاٹ دیکھ کر کئی دوست اُسے احتیاط کرنے کا مشور بھی دیتے تھے۔دوست رشتیدار یہ بھی مشورہ دیتے کہ اتنے بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے ان سے کوئی کام بھی لیا کرو۔وہ کہتا جس دن کام کہا یہ فون اٹھانا بند کردیں گے۔پھر ہنستے ہوئے کہتا نہیں یار دل نہیں مانتا کہ کسی سے لالچ کی بنیاد پر دوستی کی جائے۔جب یہ لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں میں انہیں قریب رکھتا ہوں جیسے ہی حکومت بناتے ہیں میں ان کے نمبرز ڈیلیٹ کردیا ہوں۔میں کتنا عجیب ہوں ورنہ لوگ خوشحالی میں لوگوں کے قریب جاتے ہیں اور بدحالی میں دور ہوجاتے ہیں۔ یعنی چمکتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔

نواں منظر

کورونا کا دور آگیا۔۔چینل مالکان نے ورکرز فارغ کرنا شروع کردیے اُسے بھی ایسے وقت میں فارغ کیا گیا جب سخت لاک ڈاؤن تھا، نا کہیں نوکری مل رہی تھی اور نہ کہیں مزدوری تھی سب کچھ بند تھا گھر میں راشن کا ایک دانہ نہیں تھا اور چینل آخری تنخواہ کھا چکا تھا نوبت فاقوں کی تھی۔چینل مالکان نے گویا اُسے خودکشی کا جواز فراہم کردیا تھا مگرایسے حالات میں بھی وہ لڑکا کھڑا رہا،  اُس کے کسی دوست یا رشتیدار تک کو خبر نہیں ہونے دی کہ کیا حالات چل رہے ہیں۔اُسے سوال کرنا نہیں آتا تھا، وہ خوداری نام کی بیماری میں مبتلا تھا۔دو دو دن کھائے بنا گزر جاتے مگر اُس نے ہمت نہیں ہاری وہ کسی بھی کام کے لیے فوراً تیار ہوجاتا۔لاک ڈاؤن کھلنے لگا حالات کمانے والے آگئے۔۔وہ سیکورٹی گارڈ کی نوکری کرنے لگا کچھ عرصے بعد دوستوں نے قرض اکھٹا کرکے اُسے پُرانے ماڈل کی مہران دلوادی جس کا قرض ابھی بھی باقی ہے۔ٹیکسی چلا کر گھر بھی چلائے اور قرض بھی اتارے۔اچانک اُسے کنٹریکٹ پر فوٹو بنانے کی نوکری ملی۔

دسواں منظر

پارلیمینٹ کی کمیٹی کی میٹنگ ہے، میٹنگ ایک بڑے ادارے میں ہونی تھی، جس میں ایم این اے اور سینیٹرز ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ایڈوائزر سے ادارے کی کار کردگی اور دیگر معاملات پر سوال کریں گے۔میڈیا بھی موجود ہے ان کے درمیان وہ لڑکا بھی موجود ہے جیسے آنے والے ممبر آف پارلیمینٹ ایک ہی سوال پوچھ کر گرم جوشی سے مل رہے ہیں کہ ارے بھائی کہاں ہو آج کل کافی دن سے منظر سے غایب ہو کوئی رابطہ نہیں اور یہاں کیسے؟وہ لڑکا کہ کہتا ہے کوریج پر آیا ہوں۔۔وہ لڑکا جھوٹ بولتا ہے حالانکہ وہ اسی ادارے میں فوٹو گرافر کے لیے نیا نیا اپائنٹ کیا گیا ہے جسے وہاں موجود ریٹائر مگر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کئی سالوں سے کنٹریکٹ پر موجود پُرانے فوٹو گرافر کی چھوٹی ذہنیت، چالاکیوں اور نفرت کا سامنا ہے۔پُرانا فوٹو گرافر ادارے کے ہر ڈائریکٹر کے قریب ہے، نیا فوٹو گرافر جانتا ہے کہ پُرانا شخص چاہتا ہے کہ تادم مرگ ادارے میں گھسا رہے لہذا وہ نئے فوٹو گرافر کو کسی بھی کام اور خاص طور پر آفیشل کیمرے کے قریب نہیں آنے دیتا۔۔نیا فوٹو گرافر ایک کہانی لکھتا ہے اور کردار طے کرتا ہے ۔۔۔کہانی کے مطابق اُسے کوئی ایسا کام کرنا تھا کہ پُرانا فوٹو گرافر فوری طور پر اعلی حکام سے شکایت کرے ۔دراصل وہ پُرانے فوٹوگرافر کی فطرت سمجھنا چاہتا تھا۔نیا فوٹو گرافر اپنا ذاتی کیمرہ اٹھا کر کمیٹی میٹنگ کی دو چار فوٹو کلک کردیتا ہے۔دوسرا وہ میٹنگ کے بعد لنچ کے وقت آفسرز کینٹین میں کمیٹی ممبران اور ادارے کے اعلی آفسرز کے ساتھ کھانے پر بھی چلا جاتا ہے۔تین بجےاُس فوٹو گرافر لڑکے کو ڈپٹی ڈائریکٹر کی کال آتی ” آپ کی ٹرانسفر ہوگئی ہے اپنی پوزیشن پر جاکر رپورٹ کریں۔۔ابھی تک وہ ہی ہورہا تھا جو کہانی کار فوٹوگرافر نے لکھا تھا۔وہ لڑکا فوراً وہاں سے چلا جاتا ہے۔

گیارہواں منظر

دوسرے دن لڑکے کو ڈائریکٹر جنرل کے پی اے کی کال آتی ہے، ڈی جی نے بلایا ہے وہ اس کال کا انتظار ایک دن پہلے سے کررہا تھا۔کمرے کے باہر پُرانا فوٹو گرافر پہلے سے موجود ہے کمرے کے اندر پُرانے فوٹو گرافر کا پکا دوست ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر جنرل دونوں موجود ہیں۔۔دونوں فوٹو گرافر کمرے میں جاتے ہیں۔۔ڈی جی نئے فوٹو گرافر سے ؟کیا مسلہ ہے؟

نیا فوٹو گرافر : سر کوئی نہیں

ڈی جی پُرانے سے: کیا مسلہ ہے؟

پُرانا فوٹو گرافر سر اس نے اپنے کیمرے سے کمیٹی میٹنگ میں تصاویر بنائی میں نے اسے کہا ای ڈی نے مجھے منع کیا ہے مگر یہ پھر بھی کیمرا میٹنگ روم میں لے گیا اور تصاویر بنانے لگا۔

ڈی جی : کیا تم نے ایسا کیا ہے؟

جی سر میں نے دو تین فوٹوز بنائیں اور باہر آگیا تھوڑی دیر بعد یہ باہر آئے اور مجھے کہا ڈک جی کی آنکھوں پر فلیش لگ رہی ہے انہوں نے منع کیا ہے تم اب فوٹوز نا بنانا اس کے بعد میں نے کیمرہ رکھ دیا تھا۔ڈپٹی پُرانے فوٹو گرافر کی حمایت میں چیخا تمہیں کس نے کہا تھا اپنا کیمرہ لاؤ فوٹو بناؤ ، میڈیا موجود تھا کوئی فوٹو لیک ہوجاتی تو بلا بلا بلا

ڈی جی : کہاں ہیں وہ تصاویر؟

نئے فوٹو گرافر نے موبائل آگے کردیا سر اس میں ہیں مگر ڈی جی نے نظر انداز کرتے ہوئے اُسے کہا یہ تمہیں آخری وارننگ ہے تم پُرانے فوٹو گرافر کی اسٹپنی بن کر رہو گے اس کے بنا پوچھے کچھ نہیں کرو گے۔پُرانا فوٹو گرافر ایک دم سیدھا ہوگیا کیوں کہ اس کی خواہش تھی کہ نیا فوٹو گرافر اس کے آپس پاس بھی نہ رہے اور وہ سو دو سو سال تک اس سرکاری ادارے میں چند ڈرایکٹرز کی ملی بھگت سے گھسا رہے مگر ڈی جی نے اس کی سوچ کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ایک اور بات بتاؤں جو پہلے سے طے ہو وہ ایجنڈہ ہوتا ہے مگر جو ایجنڈے کے علاوہ ہو وہ پروپگنڈہ ہوتا ہے یہ بات کہانی کار جانتا تھا نیا تو وہ اس ادارے میں تھا مگر گذشتہ پندرہ سال سے میڈیا میں رہا تھا۔کہانی کے مطابق پروپگنڈہ شروع ہونا تھا۔

پُرانا فوٹو گرافر : سر یہ آفیسرز میس میں کھانا کھانے چلا گیا تھا ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ ڈپٹی نے لقمہ دیا ہاں بھئی کیوں گئے تھے وہاں بڑے آفیسرز منسٹرز موجود تھے۔

ڈی جی : کیا تم وہاں کھانا کھانے گئے تھے؟

نیا فوٹو گرافر : جی سر میں نے وہاں پارٹیشن کے پیچھے ڈرائیورز، اسٹاف ممبرز کے ساتھ بیٹھ کر کھایا تھا۔ بطور سرکاری نچلے درجے کا ملازم اتنی میری اوقات نہیں کہ ڈائریکٹرز اور ایم این ایز کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤں۔

ویسے بھی میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا پوزیشن ہےانہوں نے بے رخی سے کہا مجھے نہیں پتا میں تو اپنے گھر کا کھانا کھاؤں گا ۔

میں میس میں چلا گیا انہوں نے روکا بھی نہیں۔

ڈی جی کو یہ شکایت بھی نظر انداز کرتا دیکھ کر پُرانے فوٹو گرافر نے ایک اور پتہ پھینکا ۔

سر اس نے ویڈیو بھی بنائی تھی۔

نیا فوٹو گرافر بولا نہیں سر ویڈیو نہیں بنائی بناتا تو بتادیتا ۔

ڈی جی : یار ہمیں پریشان نہ کرو جاؤ اب شکایت نہیں آنی چاہیے۔

نیا فوٹو گرافر تینوں کو کمرے میں چھوڑ کر خوشی خوشی کمرے سے باہر آگیا وہ جانتا تھا دونوں دوست تنہائی میں ڈی جی سے اور بہت سی باتیں کریں گے۔

میں نے اُس لڑکے سے کہا تم نے اپنے ہی خلاف شکایت کروائی یہ بات سمجھ نہیں آئی؟

وہ لڑکا بولا میں اُس بزرگ فوٹو گرافر کو باپ جتنی عزت دے رہا تھا لہذا میں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ میں جس کو تنی عزت دے رہا ہوں وہ اس قابل بھی ہے یا نہیں ۔وہ کم ظرف اور گھٹیا سوچ کا مالک نکلا، ہم نے جوانی میں جھوٹ نہیں بولا وہ قبر کے سرہانے جھوٹ بول رہا تھا اس سے میری نظر میں وہ بُری طرح گر چکا ہے۔جو شخص وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے ساتھ بیٹھ کر کھا پی چکا ہو اُسے چند آفیسرز کے ساتھ کھانا کھانے کا بھلا کیا شوق ہوگا۔میں نے پھر پوچھا تم حکومت کے جس وزیر مشیر سے چاہو کال کرواسکتے ہو جس دوست سے چاہو پیسے لے سکتے ہو تمہیں کون انکار کرے گا پھر اتنی بے عزتی کیوں برداشت کرتے ہو۔۔لڑکا ہنستے ہوئے بولا میں کسی کو کام کہنے سے پاپڑ بیچنا زیادہ آسان لگتا ہے۔مزدوری سے نکلنے والا پسینہ، کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی شرم کے پسینے سے افضل ہے۔۔پھر مجھے کہنے لگا غوری صاحب آپ میری زندگی کے صرف دس مناظر سے آگاہ ہیں اگر پوری زندگی کا سفر سنادیا تو شاید پاگل ہوجائیں گے۔یہ صبر، تحمل، مزاجی، برداشت، خوداری اور مردم شناسی کتابوں سے نہیں آتی اس کے لیے آگ کے دریا عبور کرنے ہوتے ہیں، بدترین تجربات سے گزرنا ہوتا ہے، لوگوں رویے جانچنے ہوتے ہیں۔پھر کہیں جاکر آپ سامنے والے کی کیفیت کو سمجھ کر فیصلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔کہنے لگا اب مجھے کوئی بات بُری نہیں لگتی کوئی انسان چھوٹا نہیں لگتا، بحث نہیں کرتا وقت بچانے کے لیے فوراً مان جاتا ہوں۔خود کو کمتر سمجھتا ہوں، خود پر بھی بھروسہ نہیں کرتا لوگوں کا مجھ پر اعتماد دیکھ کر حیران ہوتا ہوں۔جب میں نے ڈی جی سے کہا میری اتنی اوقات نہیں کہ آفیسرز اور ایم این ایز کے ساتھ کھانا کھاؤ اُس وقت بھی میں سچ بول رہا تھا۔کیوں کہ زندگی کا وہ دور ختم ہوگیا میں حال میں جینے والا شخص ہوں۔

جس نے نہ کبھی ماضی کو رویا نہ مستقبل کے لیے اپنے حال کو کھویا۔۔کل آسمان پر تھا تب بھی خوش تھا آج زمین پر ہوں اب بھی مطمئن ہوں۔۔کسی کو سکھ درد تکلیف نہیں دیتا، کسی سے حسد یا بغض نہیں رکھتا۔لیکن ساتھ میں پرانے فوٹو گرافر کو بھی ننگا کرچکا تھا ۔آج بھی سیکٹروں امیر، غریب اعلی نسل کے لوگ بے لوث میرے ساتھ کھڑے ہیں جنہیں میرے نئے کام اور غربت سے شرم آتی ہے وہ چھوڑ گئے اُن کا جانا بنتا تھا ۔لیکن ایک محسن ایسا بھی ہے جس کی کسی بات کا میں انکار نہیں کرتا وہ بے روزگاری اور بُرے حالات میں جب بھی میں ڈپریشن کی انتہا پر گیا وہ خاموشی سے میرے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے ڈال دیتا، مجھے نہیں معلوم اسے کیسے معلوم ہوجاتا تھا کہ کھانے کو کچھ نہیں اور مجھے ضرورت ہے۔وہ آج بھی اپنے دوستوں کے درمیان مجھے برابر کی عزت دیتا ہے۔گھر میں ہونے والے ہر دعوت میں دوستوں کی طرح مدعو کرتا ہے، فیملی ممبر کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔اُس کی نظر میں امیری غریبی معنی نہیں رکھتی انسان کا کردار معنی رکھتا ہے۔ایسے شخص سے خداؤں والی محبت ہوجاتی ہے پھر ان کی نسلوں کی بھی خدمت کرنے کا دل کرتا ہے۔لو تم بھی پاپڑ کھاؤ اور دوسروں کو بھی پاپڑ کھانے کا مشورہ دو تاکہ آپ کا بھائی زندگی کی نئے منظر نامے میں داخل ہوجائے ۔(قادر غوری)۔۔

koi insan nahi | Javed Chaudhary
koi insan nahi | Javed Chaudhary
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں