تحریر: کے ایم خالد
وہ جولائی کی حبس ذدہ صبح اسکول کی اسمبلی میں آج پھر قومی ترانہ پڑھتے ہوئےاپنی سوئی ”پاک سرزمین کا نظام “پر پھنسا بیٹھا تھا ہیڈ ماسٹر سمیت پورا اسکول ترانے کے احترام میں الرٹ کھڑا تھا جھنڈے کو سیلوٹ کرنے والا اسکاوٹ اسے بار بار ٹہوکا دے رہا تھا لیکن وہ آنکھیں بند کئے ”پاک سر زمین کا نظام “ گائے جا رہا ہے تھا کافی دیر انتطار کے بعد ہیڈ ماسٹر نے پی ٹی ماسٹر کو اشارہ کیا جنہوں نے اسے جا کر جھنجھوڑا تب کہیں جا کر اس نے اگلا مصرعہ پکڑا ”قوت ،اخوت عوام “طالب علموں سمیت سارے اساتذہ یہ دعا کر رہے تھے کہ وہ ترانہ سوئی پھنسائے بغیر پڑھ دے ورنہ پورا ترانہ پڑھے بغیر اس نے اسمبلی کا ڈائس نہیں چھوڑنا تھا۔
اسے بچپن سے ہی صحافی بننے کا بہت شوق تھا اس کی پریکٹس وہ اکثر اپنی ساتھی طالب علموں کو کہانیاں سنا کر کیا کرتا تھا اس کی یہ بے ربط کہانیاں انڈین فلموں کے سوپ ڈراموں کی طرح اتنی طویل ہوتی تھی کہ ایک کہانی اس نے پانچویں میں شروع کی تھی اور آٹھویں تک وہی چل رہی تھی یہ الگ بات تھی کہ اب اسے بھی پتہ نہیں تھا کہ کہانی کہاں سے شروع ہوئی تھی بس اسے کہانی کا عنوان ہی یاد تھا ۔آٹھویں میں اس کی ایک سبزیوں کی وین کو آنے والے حادثے کی رپورٹنگ کو ”بزم ادب “میں بہت پسند کیا جارہا تھا ساتھی طالب علم ہنستے ہوئے اسے بار بار آلو کو لگنے والی رگڑوں ،بینگن کو کی جانے والی سفید پٹیوں اور تربوز کا سر پھٹنے کی رپورٹنگ سن رہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی پذیرائی وہ ضرور صحافی بنے گا ۔ ایک اخبار کی عارضی ملازمت میں اسے ایک حادثے کی رپورٹنگ کرنے کے لئے بھیجا گیا اس نے اپنی رپورٹ میں زخمیوں کی تعداد بیس اور ہلاکتوں کی تعداد پچیس بتائی ،خبر اسی طرح چھپ گئی دوسرے دن کے اخبارات اس کی ہلاکتوں اور زخمیوں بتائی جانی والی تعداد کی نفی کر رہے تھے ایڈیٹر کے پوچھنے پر اس نے عجیب سی توضیح پیش کی اس نے کہا ”جن کو ایدھی والوں نے اٹھایا ان کو گن کر میں نے میت کے خانے میں لکھ دیا اور جو 1122کی ایمبولینس والے لے گئے وہ میں نے زخمیوں میں شمار کئے “اس جواب پر ایڈیٹر نے دروازے کی طرف اس کا منہ کرکے شاباش کے طور پر اس کی پیٹھ” ٹھونکی “تھی۔
اس نے صحافت کی اعلی ترین خدمات کے لئے بہت سی زبانیں بھی سیکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا اس کی خواہش تھی کہ وہ انٹرنیشنل صحافی بن جائے پرنٹ میڈیا میں کامیابی کے ”جھنڈے گاڑنے “کے بعد اس کا اگلا ٹارگٹ الیکٹرونک میڈیا تھا اس کی ” سی وی “ کے احترام میں چینل نے اسے آزمائشی نشریات میں ایک لائیو ایونٹ چاند رات کی کوریج دینے کا فیصلہ کیا تھا وہ مائیک ہاتھ میں پکڑے بہت خوش نظر آ رہا تھا اس نے ساری زبانیں ذہن میں اکھٹی کر لیں تھیں یہی موقع تھا اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا وہ بڑے اعتماد کے ساتھ کیمرہ مین کو ساتھ لئے پھر رہا تھا کیمرہ مین نے اسے لائیو کا اشارہ دیا تھا بس رپورٹنگ شروع ہوئی اسے جتنی زبانیں یاد تھیں اس نے ان سب میں پہلے تو پاکستانی قوم کو چاند کی مبارک باد دی اس کے کان میں ڈی ایس این جی وین سے بار بار ” لائن “ پر آنے کا کہا جا رہا تھا اور اس نے اپنی انگلی سے کیمرہ مین کو اشارہ کیا کہ بس ایک زبان رہ گئی ہے اتنے میں ڈی ایس این جی وین سے نکل غصے سے ایک شخص نے کہا ”بس کریں جی ہمیں کنٹرول روم کٹ کر چکا ہے “۔
ایک چینل کا مالک اس کی ’‘سی وی “ غورسے دیکھ رہا تھا مالک شائد امپریس ہو چکا تھا اس نے کہا ” میڈیا میں بہت سے منہ زور دریا بہہ رہے ہیں اس میں ایک ہمارا ایک کمزور سا انڈس بھی ہے کبھی اس کے بہاؤ میں رکاوٹ نہ بنئے گا “ ۔اور اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہ جیسے بہت کچھ سمجھ گیا ہے اپنا سر ہلا دیا ۔اسے ایک اسٹیشن پر عید پر چلائی جانے والی ٹرین سے آنے والے مسافروں کی کوریج کرنی تھی چونکہ ٹرین بھی تیار کھڑی تھی اور کیمرہ بھی تیار تھا لیکن مسافر اس کے کام بڑی رکاوٹ بن رہے تھے اس کے کوسنے ،گالیاں ریکارڈ ہوتی رہیں وہ چینل پر تو نہ چل سکیں لیکن سوشل میڈیا اس ریکارڈ کو ہاتھوں ہاتھ لیا
اسی ایک ریکارڈنگ کی بدولت جو ایک فلم کا حصہ بن چکی ہے اس کی پہچان بنی وہ خوش ہے کہ اس کا صحافتی کئیرئیر جو داؤ پر لگا ہو تھا اس کا ”داؤ “ لگا گیا ہے رات اس نے تارے گنتے ہوئے ایک تارے پر ہاتھ رکھے اپنے بیٹے سے کہا ” اوئے اس تارے پر ہاتھ رکھ اور میری بات سن “۔بیٹے نے اس کے بتائے ہوئے تارے پر ہاتھ رکھا اور کہا ”ابا ۔۔! کتنے تارے اب تک گن چکے ہیں “۔”ایک لاکھ پچپن ہزار پانچ سو بائیس ،میری یہ رپورٹ جیو گرافک چینل پر تہلکہ مچا دے گی جیو گرافک والوں کو پتہ ہی نہیں میں ان کے لئے کام کر رہا ہوں “۔” ابا اپنا تارہ پکڑیں ،میرا بازو درد کرنے لگا ہے “ ۔” اوہ اچھا پوچھنا یہ تھا کیا خیال ہے اس سلیمان خان پر کیس نہ ٹھوک دیں جیسے امجد صابری نے ٹھوکا تھا اس نے بغیر اجازت میرا نام اور میرا کام استعمال کیا ہے کروڑ دو کروڑ تو دے ہی دے گا “ ۔ابا تمہیں پتہ ہے انڈیا کہاں ہے “ ۔”ادھر پاکستان میں ہی کہیں ہوگا“ اس نے دنیا کا جغرافیہ نظروں کے سامنے لاتے ہوئے کہا۔ابا تیرا اسکوٹر پنکچر ہے اور صبح تونے بی بی سی کو انٹرویو بھی دینا ہے تیری جیب میں صرف پچاس روپے ہیں اگر دو پنکچر نکل آئے تو۔۔۔؟ ،تو انڈیا میں کیس ٹھوکنے کی بات کر رہا ہے ،یہ اپنا تارہ پکڑ ورنہ تیری جیو گرافک والی رپورٹ بھی خراب ہو جائے گی “ اس کے بیٹے نے تارہ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا ۔اس نے تارہ پکڑ فارسی زبان میں گنتی شروع کر دی ایک لاکھ پچپن ہزار پانچ سو تیئس“ ۔”ابا ،یہ فارسی میں کیوں گن رہا ہے ۔؟“۔” یہ ستارے ایران والی سائیڈ کے ہیں اس لئے فارسی میں گن رہا ہوں “۔اس نے اپنی انگلی اگلے ستارے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔(کے ایم خالد)
(نامور مزاح نگار کے ایم خالد کی ہماری ویب کےلئے خصوصی تحریر۔۔ جس میں سینئر صحافی چاندنواب کا ہلکے پھلکے انداز میں خاکہ دیا گیا ہے۔۔ چاند نواب بھی ہمارے سینئر اور قابل احترام ہے،امید کرتے ہیں کہ وہ اس مزاحیہ تحریر کو دل پہ نہیں لیں گے، ویسے بھی وہ خوش مزاج اور یارباش انسان ہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔