تاک شوز کی ” لت”۔۔

بلاگ  : خرم علی عمران

 کیا بات ہے صاحب اپنے تاک شوز کی،ایک سے بڑھ کر ایک خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں یہ، جسے ان کی لت پڑ جائے اسے تو پھر اسوقت جب یہ نشر ہوتے ہیں تو پھر تو،ہالی وڈ،بالی وڈ،لولی وڈ اور نہ جانے کون کون سی وڈ کی سنسنی خیز اور جولانی طبع ابھارنے والی رنگ برنگی فلموں میں بھی کچھ  زیادہ مزہ نہیں آتا، ٹی وی ڈراموں کی تو خیر اوقات ہی کوئی نہیں ہمارے تاک شوز کے سامنے، آخر کمی کیا ہے ہمارے تاک شوز میں جو اس وقت جب وہ پردہ ٹی وی پر جلوہ گر ہوں تو، ہم انہیں چھوڑ کر ادھر ادھر کی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے میں وقت ضائع کریں۔ ہر مزہ تو موجود ہے یہاں، دنیا کے عظیم اداکار جن کے سامنے پانی بھرتے نظر آئیں ایسے نابغہ روزگار قسم کے سیاسی اداکار، خوبرو اور ویل ڈریسڈ خواتین و حضرات اینکرز،جن کی وجاہت و جمال کے سامنے سارے ہیرو اور ہیروئن پھیکے پڑ جائیں،وہ تو کچھ سنسر کی پابندیاں اور پیمرا کی ہدایات ہیں ورنہ ڈریسنگ کے معاملے میں تو ہمارے ذہین،حسین،رنگین میزبانان خواتین و حضرات (الا ماشااللہ) مارلن برانڈو اور مالن منرو کو بھی چٹکی بجاتے ہی مات کردیں،

بی جمالو اک مشہور کردار پڑھا تھا کتابوں میں اور شنید ہے کہ پی ٹی وی نے اپنے سنہری زمانے میں اس نام سے ایک ڈرامہ سیریل بھی بنائی تھی جو ہم تو خیر نہ دیکھ سکے مگر شاید ہم سے کچھ بڑے ایج گروپ کے لوگوں کو یاد ہو، خاصیت اس کردار کی لوگوں میں لڑائی کرا دینا ہے، اس کی مجسم تصویر ان گناہ گار آنکھوں کو تاک شو کے میزبانان کی شکل میں دیکھنا نصیب ہوئی، اس خوبی سے  اور معصومانہ طریقے سے اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے لڑائی کراتے ہیں کہ لڑنے والے بھی کہیں اگلے دن جاکر سمجھ پاتے ہیں کہ ہم لڑے تو کیوں لڑے، سلام ہے ان مہا رتیوں کی مہارت برائے لڑائی کروانے پر، مثلا جیسا کہ ابھی دو دن پہلے ہی ایک چینل میں دیکھا گیا تماشہ ء تھپڑول، اور بھئی کیا ریٹنگ آئی ہے اس پروگرام کی واہ واہ۔، اور تا دم تحریر اسکی وڈیو سوشل میڈیا پر کم از کم لاکھوں مرتبہ دیکھی جاچکی ہوگی۔

خیر اس طرح تو ہوتا ہی رہتا ہے اس طرح کے کاموں میں، چند مزید خوبیاں بھی بیان اور تحسین کے لائق ہیں، جس قسم کی سیاسی بصیرت، دان شوری،یہ ایسے ہی لکھا ہے کیوں کہ میں دانشوری کی توہین نہیں لکھ سکتا، ملکی و بین الااقوامی معاملات پر اتنی گہری نظر کے بلیغ مظاہرے کہ گہرائی بھی شرمندہ ہو جائے، اور ایسے قطعی انداز میں کی گئی پیش گوئیاں جو مستند نجومیوں کو بھی شرمندہ کر دیں، ہمارے تاک شوز میں دکھائی جاتی ہیں وہ کہیں اور ملنا مشکل ہی نہیں قریب بہ محال ہیں۔ ہمارے سیاسی اداکار اپنے کردار میں ڈوبے ہوئے ملک و قوم اور عوام کلانعام کی محبت میں سنہرے خواب دکھانے میں مگن،  اورمیزبانان، پرامٹ اور ہیڈ فون سے موصول شدہ مجازی ذہانت اور دان شوری کے مظاہرے کے ساتھ  ساتھ ریٹنگ بڑھانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں، اور ہم جیسے ٹی وی کے سامنے بت بنے ہوئے لاکھوں مداح ، واہ ۔کیا بات ہے جی ہمارے تاک شوز کی، یہ نعمت کہیں اور نہیں ملے گی قدر کرو کہیں چھن ہی نہ جائے،

اچھا اب مقطع میں ایک اسپیشل پروڈکٹ جو ہمیں رمضان شریف میں ہی نظر آتی ہے، ہک ہا،رمضان کی پرنور راتوں کی نورانیت میں اضافہ کرتے ہوئے رات کے شو جنہیں مختلف چینلز مختلف عنوانات سے اپنے اپنے چینلز سے دینی حمیت اور اشاعت دین کے جذبے سے سرشار ہوکر پیش کرتے ہیں،اس فعل کو عمومی طور پر رمضان ٹرانمشن کہا جاتا ہے، گزشتہ رمضان سے کچھ پہلے کا ذکر ہے کہ ایک اسکرپٹ کے بارے میں جاننے کے لئے میرا ایک  بڑے اور مشہور بلکہ یہ کہا جائے کہ پاکستان کے نمبر ون چینل کی  ایک کونٹینٹ ہیڈ سے بڑی مشکل سے پانچ منٹ کا وقت لے کر قبل از رمضان  استفسار برائے اسکرپٹ کے سلسلے میں ملنا ہوا تو یقین کریں کہ میں تو انہیں دیکھ کر دھک سے رہ گیا،کہاں وہ عام دنوں میں نک سک سے بنی سنوری اپنے شعبے کے اعتبار سے تمام ہتھیاروں سے لیس نظر انے والی حسین و پر وقار خاتون ۔۔اور کہاں یہ چہرے پراڑتی ہوائیاں ، واضح نظر آتی جھائیاں،آنکھوں کے گرد حلقے، میک اپ  جیسا اہم ترین ٹول بھی ندارد،میں نے  توحیران ہوکر بے ساختہ پوچھ لیا کہ محترمہ! خدانخواستہ کہیں بیمار تو نہیں ہیں اپ، اپنے سیل فون پر تیز تیز بات کرتے ہوئے یہ سن کر ٹھٹکیں اور خشگمیں نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے فرمایا،آپ کو معلوم نہیں رمضان آنے والا ہے،پورے مہینے کی ٹرانسمشن تیار کرنا ہے کوئی مذاق ہے کیا! اور غصے میں مجھے کام کئے بغیر یہ کہہ کربھگا دیا کہ آپ عید کے بعد آئیے گا، سچی میں تو انکی اپنے پروفیشن اور رمضان سے محبت اور لگاؤ دیکھ کر آبدیدہ سا ہو گیا،کیا پروفیشنل ازم ہے واہ بھئی،ٹرانسمشن زبردست ہونی چاہیئے تاکہ خوب اشتہارات ملیں، روزے رکھنا نا رکھنا ذاتی معاملہ ہے، آپ کون ہوتے ہیں بولنے والے! تو جناب،اس رمضان ٹرانسمشن کی بھی اپنی ہی الگ خوبیاں ہیں، جو سارا سال ہمیں کھجلہ اور پھینی کی طرح صرف رمضان میں ہی ملتی ہیں،ارادہ تو ان نشریات پر بھی کچھ خامہ فرسائی کا تھا مگر بلاگ بہت طویل ہوجائے گا،بس جاتے جاتے آخری بات اس حوالے سے کہ حسین خوبرو،دلکش اور مستند اداکار و اداکاراؤں کے ساتھ مولوی نما حضرات کا حسین کومبینیشن اور پھر اچھی اچھی پیاری پیاری دینی باتیں، رمضان کی نورانی راتوں میں ایک ٹکٹ میں کئی مزے، اور مکس گیدرنگ کے پروگراموں میں تحفوں کے لگے بازار الگ ، واہ جی واہ، یعنی رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی ۔۔اک الگ ہی لطف ہے صاحب۔۔ کیا کہنے۔۔(خرم علی عمران۔۔)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں