aik tabah saath | Imran Junior

سنانے کا موسم۔۔۔

سنانے کا موسم۔۔۔

علی عمران جونئیر

روزنامہ نئی بات، کراچی

09-Nov-2018

دوستو،لوجی آج پھر جمعہ ہے، ہم چونکہ ایک روز پہلے ہی کالم لکھ کر سپردبرقی ڈاک کردیتے ہیں اس لئے جمعہ کی مبارک ساعتوں،فیوض و برکات سے عین اسی وقت فیض یاب ہورہے ہوتے تھے جب اور جس طرح آپ ہورہے ہونگے۔۔تہذیب لکھنو کا واقعہ سن لیجئے، عین بعد نمازجمعہ دامادکے سامنے انڈوں کا سالن پیش کیاگیاتو حضرت داماد فرمانے لگے، جناب ان انڈوں کے والدین سے ملنے کا اشتیاق تھا؟؟، ارشاد ہوا، برخوردار،یہ بے چارے یتیم ہیں،انہی کے سر پر دشت شفقت رکھ دیجئے۔۔گھروں میں بیگمات کو اپنے گھروالوں کے حوالے سے لمبی لمبی ’’چھوڑنے‘‘ میں کچھ عجیب ہی لطف آتا ہے، ایک محترمہ اپنے شوہر سے فرمارہی تھیں، ہمارے گاؤں میں سب سے پہلے چوبیس گھنٹے بولنے والا ریڈیو میرے اباحضور لائے تھے۔۔شوہر نے سگریٹ کے دھوئیں کا چھلہ بناکر فضامیں بکھیرا اور مسکراتے ہوئے کہا، بیگم،بیگم،اپنی ماں کے بارے میں ایسا نہیں بولتے۔۔کچھ خواتین کبھی اپنے کام سے مطمئن نہیں ہوتیں، جیسے صاف ستھری پلیٹ اٹھائی،اسے پھر اپنے دوپٹے یا قمیض کے دامن سے ضرور صاف کریں گی، بچہ بالکل ریڈی ہے اسکول کی بس گھر کے باہر کھڑی ہارن بجارہی ہے، پھر بھی اسے روک کر ایک بار بالوں میں برش ضرور پھیریں گی۔۔اسی طرح کی ایک خاتون خانہ آدھے گھنٹے سے موبائل کے کیمرے کے لینز کو اپنے دوپٹے سے گھس رہی تھی۔۔ پھر سیلفی لیتی اور اس کے بعد دیکھ کر ڈلیٹ کر دیتی۔۔اس کا شوہر انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نظارہ چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔۔آخر جب اس سے نہیں رہا گیا تو اس نے بول ہی دیا، ایک بار اپنے منہ پر بھی کپڑا مار کر ٹرائی کر لو ،ہو سکتا ہے کام بن جائے۔۔اس کے بعد سے شوہر گھر سے فرار ہے۔۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب پاکستان میں جمعہ کو عام تعطیل ہواکرتی تھی، اردوکے پروفیسر صاحب گھر آئے،بیگم سے پوچھا، آج کیا پکایاہے؟ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان خاتون خانہ نے جواب دیا،خاک پکائی ہے۔۔پروفیسر صاحب بولے، خاک کو الٹا کریں تو کاخ بنتا ہے، فارسی میں کاخ کو محل کہتے ہیں، محل کو الٹا کریں تو لحم بنتاہے لحم کو عربی میں گوشت کہتے ہیں، اوہ اچھا،اچھا، یعنی ہماری بیگم صاحبہ نے آج گوشت پکایا ہے۔۔سامنے چونکہ پروفیسر صاحب کی زوجہ ماجدہ تھیں، اس لئے ترنت جواب دیا، اگر گوشت کو الٹا کریں تو ’’تشوگ‘‘ بنتا ہے اور تشوگ کو سنسکرت میں ’’سوٹے‘‘ کو کہتے ہیں، یہ کہہ کر بیگم اٹھی ہی تھی کہ شوہر اگلی بات سمجھ گئے، پھر جو ہوا وہ ایسا کچھ نہیں تھا کہ اردوادب کی تاریخ بنتا۔۔اس لئے مورخ نے اسے حذف کرنا ہی مناسب سمجھا۔۔کوئی زمانہ تھا جب فقیر کو روٹی پر سالن ڈال کر دیا کرتے تھے۔ اب اِس کا جدید نام ’’ پیزا‘‘ ہے۔۔۔دوسرے ممالک میں دوسری شادی پر مبارک دی جاتی ہے، جب کہ ہمارے یہاں دوسری شادی والا گلی سے بھی گزرے تو لوگ کہتے ہیں۔۔اِنے دو کیتیاں نے۔۔۔
ایک صاحب جمہوریت کو منہ بھربھر کر سنارہے تھے، لوگ کھڑے ہاں میں ہاں ملارہے تھے، ہم نے بھی جب ان کی باتیں سنیں تو اتفاق کئے بغیر نہ رہ سکے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں جمہوریت کے خلاف سازش ہیں۔۔وہ صاحب دانت بھینچ کر فرمارہے تھے۔۔پہلے لوگ کنویں کا میلاکچیلا پانی پی کر بھی سوسال سے زیادہ جیا کرتے تھے، اب یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ’’آر او‘‘ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خالص و شفاف پانی پی کر بھی چالیس سال کی عمر میں بوڑھے ہورہے ہیں۔۔ پہلے کے تیل میں کھاکربڑھاپے میں محنت ہوجاتی تھی اب ڈبل ، ٹرپل فلٹر تیل، اولیوآئل، کولیسٹرول فری اور پتہ نہیں کیاکیاقسم کے تیل کھاکر بھی جوانی میں ہانپ رہے ہوتے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے؟؟؟پہلے کوئی ڈلی والانمک کر بھی بیمار نہیں ہوتا تھا،اب جب کہ جمہوریت ہے تو آیوڈین والا نمک کھاکربھی لوبلڈپریشر اور ہائی بلڈپریشر کے ہزاروں مریض گھوم رہے ہیں۔۔پہلے نیم،ببول،کوئلے،نمک سے دانت چمکاتے تھے اور بڑھاپے تک اصلی دانتوں کے ساتھ خوراکیں کھاتے تھے، اب جمہوریت ہے تو ہر فلیور، ہرنسل،ہرطرح کا ٹوتھ پیسٹ جس پر دنیا کے سارے دندان سازوں کا اتفاق بھی ہوتا ہے، لیکن دانت ٹوتھ پیسٹ سے اتفاق نہیں کرتے،اور ان کا آپس کا اتفاق ایک ایک کرکے ختم ہوجاتا ہے۔۔پہلے نبض پکڑتے ہی کسی بھی بیماری کو پکڑ لیا جاتا تھا، اب جمہوریت ہے تو ہرطرح کی جدید مشینری کے باوجود مرض پکڑائی نہیں دیتا۔۔پہلے آٹھ، دس بچے پیدا کرنے والی مائیں بھی اسی نوے سال کی عمرتک اپنے کھیتوں میں کام کرتی تھیں، اب جمہوریت ہے تو پہلے مہینے سے ڈاکٹرز کی آبزرویشن میں ہونے، گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے والی نازک خواتین کے بچے پھر آپریشن سے ہورہے ہیں، کیا اسی دن کے لئے جمہوریت کو برداشت کیا تھا؟؟؟
ہمارے پیارے دوست نے ہمیں ای میل کی،جس میں لکھا ہے۔۔حاجی صاحب کے بڑے بیٹے کا بیان ہے کہ میرا یقین تو جمہوریت سے 1988 ہی میں اٹھ گیا تھا۔کہنے لگا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک جمعرات کو میں اور میرے باقی تینوں بہن بھائی، امی ابو کے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ ابا جان نے ہم سب سے پوچھا: بچو، کل تمھارے چچا کے گھر چلیں یا ماموں کے گھر۔ ہم سب بہن بھائیوں نے بہت شور مچاکر چچا کے گھر جانے کا کہا، ماسوائے امی کے جن کی رائے تھی کہ ماموں کے گھر جایا جائے۔ بات اکثریت کے مطالبے کی تھی اور رائے شماری سے طے پا گیا تھا کہ چچا کے گھر جانا ہے۔ امی کا موقف ہار گیا تھا۔ ابا جان نے بھی ہماری رائے کے احترام میں چچا کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ ہم سب بہن بھائی چچا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبائے جا سوئے۔ جمعہ کے دن صبح اٹھے تو امی کی ہنسی ہی نہیں تھم رہی تھی۔ ہنسی بمشکل دبائے انھوں نے ہمیں کہا کہ سب جلدی سے کپڑے بدلو، ہم لوگ تمھارے ماموں کے گھر جا رہے ہیں۔میں نے ابا جان کی طرف دیکھا جو خاموش اور توجہ سے اخبار پڑھنے کی ایکٹنگ فرما رہے تھے۔ میں غریب کا بال منہ تکتا رہ گیا۔ بس جی، میں نے تو اسی دن سے جان لیا ہے کہ جمہوریت، اکثریت کی رائے کا احترم اور ووٹ کو عزت دو وغیرہ تو ایک سے ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اصل فیصلے تو بند کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب غریب عوام مزے سے نیند میں ڈوبی ہوتی ہے۔ ۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ چلغوزے کی قیمت پوچھ کر حکومت کو مہنگائی پر دس باتیں سنا کر مونگ پھلی خریدنے کا موسم آگیا ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں