sohail ahmed ne aftab iqbal ko khari khari sunadi

سہیل وڑائچ کا پاکستان

تحریر: اسدشہزاد۔۔

تمام اختلافات سے ہٹ کر کہ اس وقت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں جس طرح پاکستان کے بارے میں پاکستان کے اداروں کی ساکھ اور پاکستان کے ویژن کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور یہ وہ لمحہئ فکریہ ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا اور اگر کوئی بات کرتا ہے تو وہ سہیل وڑائچ ہے۔ جس کی سوچ ایک کٹر پاکستانی ہونے کے ناطے اس حد تک ہے کہ جب وہ موجودہ حالات پر بات کرتا ہے تو ناصرف فکرمند بلکہ بہت سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ سہیل وڑائچ ہماری صحافت کی تاریخ کی وہ مثال ہے جس کی صحافت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے اپنی تقدیر خود لکھی، جس نے ہمیشہ اپنی قلم کو، اپنے لفظ کو، اپنی تحریر کو اور اپنی آواز کو بلند رکھا۔ اختلافات اپنی جگہ سہی اس نے پاکستان کے ہر ایشو پر، ہر محاذ پر ہمیشہ کھل کر اظہار خیال کیا۔ میری ذاتی رائے میں سہیل وڑائچ کا شمار پاکستان کے ان چند بڑے صحافیوں میں سے ہوتا ہے جو حق اور سچ کی جنگ لڑنا جانتے ہیں اور انہوں نے نامساعد حالات میں بھی پاکستان کی تصویر کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ یہ انداز ہے سہیل وڑائچ کا۔۔۔۔۔۔

میرے نزدیک سہیل وڑائچ کا غیرجانبدار ہونا ہی اس کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ اپنے کہے بیانئے سے کبھی ہٹتا نہیں، جھکتا نہیں اور اس کا جھکاؤ نہ کسی سیاسی جماعت اور اس کی لیڈرشپ اور نہ کسی ادارے کی طرف ہوتا ہے بلکہ وہ ہمیشہ پاکستان ہی کی آواز بولتا ہے۔ گزشتہ دنوں سوزو واٹر گروپ کے چیئرمین سہیل لاشاری کے ساتھ سہیل وڑائچ کے گھر پر ایک طویل نشست ہوئی۔ گفتگو کے آغاز پر جب سہیل لاشاری نے پاکستان کی صورتحال پر سہیل وڑائچ سے یہ سوال کیا کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ تو سہیل وڑائچ بولے! مجھے زیادہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب آج سوشل میڈیا پر ہر بندہ پاکستان کے بارے میں غلط رائے کا اظہار اور غلط بیانی کرتے ہوئے یہاں پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو گالیاں تک دی جاتی ہیں اور خاص کر اوورسیز پاکستانیوں نے پاکستان کے امیج کو بہت خراب کیا بلکہ وہ اس کے بارے میں انہوں نے جو بیانیہ اور جو سوچ اپنا رکھی ہے وہ ہمیں بہت ہی خطرناک صورتحال کی طرف لے جا رہی ہے لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ اس سوچ کو ختم کیا جائے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میں یہ بات ماننے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوں کہ پاکستان نے ترقی نہیں کی، 76سالوں میں اس نے بہت ترقی کی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد سے اب تک ہم اپنی بقاء کی ہی جنگ لڑتے آ رہے ہیں۔ اس بقاء کی جنگ کے دوران ہی میں تو ہم نے ترقی کی ہے۔ انہوں نے مغلیہ دور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ شہنشاہ اکبر کو کشمیر آنے کے لئے ایک ماہ لگ جاتا تھا، کہاروں کا زمانہ تھا، آمدورفت کے ذرائع نہیں تھے۔ اس وقت کو آج کے حالات سے ملاتا ہوں تو پھر ترقی تو ہوئی ہے۔ سن 47ء اور 48ء قائداعظمؒ کو صرف ایک سال قیادت کا موقع ملا اور پھر موت کے بے رحم پنجے  نے ان کی لیڈرشپ کو ہم سے محروم کر دیا۔ جہاں تک پاکستان کے خلاف سیاسی سازشوں کا تعلق ہے تو دور غلام محمد سے سکندر مرزا تک، سکندر مرزا سے ایوب خان تک، ایوب خان سے جنرل یحییٰ تک، جنرل یحییٰ سے جنرل ضیاء تک، جنرل ضیاء سے جنرل مشرف تک کے ادوار میں بڑی سازشیں ہوئیں، بڑی حکومتیں گرائی گئیں لیکن پاکستان کی ترقی کا سفر جاری و ساری رہا۔ اسی بقاء کی جنگ میں انہی لوگوں میں سے ایک ایسا لیڈر اٹھتا ہے جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا جس نے ایک ویژن کے تحت پاکستانی قوم کو جگایا تو آج یہ کہنا کہ پاکستان نے ترقی نہیں کی، جبکہ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ سکھر بیراج جو کہ آزادی سے پہلے بنا تھا اس کے بعد ہم نے منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے، موٹروے سے لے کر پلوں تک، پلوں سے لے کر صوبوں میں ترقی کے جو کام ہوئے وہ بھی پاکستان کی کامیابی کے زمرے میں آتے ہیں۔ تو پھر کیوں غلط بیانیوں کو ہوا دی جا رہی ہے کہ ہم نے ترقی نہیں کی۔سہیل وڑائچ کا یہ مؤقف بھی تھا کہ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ اس کا ترقیاتی کاموں کی طرف نہ ڈلیور کرنا تھا۔ اس کی حکومت نے نہ کوئی عوام کو ویژن دیا، سوائے اس کے کہ نئی نسل میں ایک ایسی ذہن سازی کی گئی جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں جو آج سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہے، ان لوگوں کا یہ کہنا کہ موجودہ الیکشن میں عمران خان کو ووٹ پڑا ہے تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ ووٹ عمران کو نہیں، بلکہ نفرت کو ملا ہے۔ اس نفرت کو جس کا بیج عمران خان نے خود بویا تھا۔ موجودہ نئی حکومت کے بارے میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ یہ حکومت اس لئے آئی ہے کہ ہمارے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی اور مجھے تو اگلے انتخابات میں بھی خدشہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا کے بیانئے کو ختم نہ کیا گیا اور ہر ایرے غیرے کو پاکستان کی مخالفت سے نہ روکا گیا تو ووٹ پھر اسی بیانئے کو ملے گا اور پھر ہو سکتا ہے کہ اگلے الیکشن سے اگلے الیکشن تک کوئی ایک نئی قیادت درمیان سے اٹھے گی جوکہ پاکستان کو درست سمت کی طرف لے کر جانے کا فیصلہ کرے گی۔

اور آخری بات۔۔سہیل وڑائچ کی فکر انگیز سوچ موجودہ حالات پر ان کی مثبت رائے سے وہ لوگ ہی اتفاق کریں گے جو صرف پاکستان اور پاکستان کی اہمیت کو جانتے ہیں۔۔(بشکریہ نئی بات)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں