khusra qanoon | Imran Junior

سیاسی۔۔چور۔۔

دوستو، کسی زمانے میں ایک گانا بہت ہٹ ہوا تھا۔۔ اس دنیا میں سب چورچور، کوئی چھوٹا چور کوئی بڑا چور ۔۔۔یہ گانا پڑوسی ملک کی فلم، بھائی بھائی سے تھا۔۔ اس کے سنگر اور میوزک ڈائریکٹر کا نام ہمیں اس وقت یاد نہیں آرہا۔۔ بہرحال یہ گانا اگر آپ غور سے سنیں تو موجودہ حالات پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔۔ مثل مشہور ہے کہ چور کبھی نہیں کہتا کہ وہ چور ہے یا اس نے چوری کی ہے۔۔لیکن موجودہ زمانے میں چور اب دوسروں کو چورکہنے لگے ہیں۔۔سرعام الزامات لگائے جاتے ہیں۔۔چورچور کا شور مچایاجاتا ہے لیکن کہیں کچھ ثابت نہیں ہوتا۔۔اس طرح ایک دن گزر جاتا ہے پھر اگلے روز وہی پرانا راگ الاپا جاتا ہے اور چور ، چور کی گردان جاری رہتی ہے۔۔ جدید تحقیق کے مطابق ۔۔جتنا شور سیاست دان ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں کرتے ہیں اتنا شور تو پرائمری کے بچے اپنی جماعتوں (کلاس روم) میں نہیں کرتے۔ ۔ جماعتوں کا ترجمہ کرنا اس لئے ضروری سمجھا کہ ان دنوں ملک کی سیاست پر ’’جماعتوں‘‘ کی لڑائی چل رہی ہے۔۔ ہم چونکہ غیرسیاسی کالم لکھتے ہیں اس لئے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم عام انسان کے مسائل پر لکھیں ، سیاسی چور بھی چونکہ عام انسان کو متاثر کرتا ہے اس کا سب کچھ لوٹ کر لے جاتا ہے، اس لئے کوشش کریں گے کہ اس پر کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرسکیں۔۔

قصہ تو پرانا ہے لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اس واقعہ کو ایک بار پھر پڑھیں گے تو ہماری طرح لطف اندوز ہوں گے۔۔ایک میراثی چوری کرنے کی نیت سے ایک گھر میں داخل ہوا۔۔صاحب خانہ گھر کے صحن میں لیٹا تھا۔ چور نے اپنی چادرزمین پر بچھائی اور خود کمرے سے سامان لینے چلا گیا۔ صاحب خانہ نے اس کی چادر اٹھا کر چھپا لی اور پھر سونے کا بہانہ کرنے لگا۔ چور آیا تو اس نے دیکھا، چادر ہی غائب ہے۔اس نے اپنی قمیض اتار کر بچھائی اور پھر اندر سے سامان لینے گیا۔ صاحب خانہ نے قمیض بھی اٹھا کر چھپا لی۔ چور باہر آیا تو قمیض بھی غائب پائی۔ اب کی بار اس نے بیش بہا حوصلہ کرتے ہوئے اپنی آخری ملکیت دھوتی بھی اتار کر بچھا دی اور ایک بار پھر اندر سامان لینے چلا گیا۔۔صاحب خانہ نے دھوتی بھی اٹھا لی۔ اب جب وہ باہر آیا تو دھوتی بھی غائب تھی۔ چور بنیان پہنے انتہائی مراثگی کی حالت میں پریشان کھڑا تھا کہ صاحب خانہ نے اٹھ کر چور چور کا شور مچا دیا۔۔۔ چور نے انتہائی بے چار گی سے تاریخی سوال کیا۔۔۔’’ او اجے وی میں ای چور آں ؟؟ ‘‘۔۔۔

ایک دفعہ ملا نصیر الدین بازار سے جا رہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے انہیں زور سے تھپڑ مارا۔ملا صاحب نے غصے سے پیچھے دیکھا، وہ شخص گھبرا کر بولا۔۔معاف کرنا میں سمجھا، میرا دوست ہے۔۔ملا صاحب نے کہا ۔ ۔نہیں، چلو عدالت چلتے ہیں۔ ۔جج صاحب کے سامنے اپنا مدعا پیش کیا۔جج نے اس شخص کا خوف دیکھ کر کہا ۔۔کیوں جناب! تم تھپڑ کی قیمت دو گے یا ملاصاحب آپ کو بھی تھپڑ لگائیں؟۔۔اس شخص نے کہا۔۔جناب! میں تھپڑ کی قیمت دوں گالیکن ابھی میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ میری بیوی کے پاس کچھ زیور ہیں، وہ میں لے آتا ہوں۔۔۔جج نے کہا ۔۔ٹھیک ہے، جلدی آؤ۔ ۔۔ملا صاحب انتظار کرتے کرتے تھک گئے لیکن وہ شخص نہیں آیا، ملا صاحب اٹھے اور ایک زور کا۔۔’’چھانپڑ‘‘ جج کو مارا اور کہا ۔۔اگر وہ زیور لائے تو تم لے لینا۔ ۔۔ایک ’’یوتھیئے‘‘ کی فیس بک وال پر یہ واقعہ تحریر تھا، ساتھ ہی ’’خلاصہ‘‘ میں وہ صاحب فرماتے ہیں۔۔معزز عدلیہ و نیب جتنی جلدی ہو سکے مجرموں سے زیور یا نقد مال و زر نکالو یہ روز روز کی تاریخیں ،ریفرنس، پیشیاں ،پروڈکشن آرڈر اور ضمانت قبل از گرفتاریاں ختم کرو ورنہ یہ نہ ہو کہ عوام بھی ملا نصیرالدین بننے پر مجبور ہو جائے۔۔۔

فی زمانہ دیکھا جائے تو چوروں کو بھی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ایک چور بتارہا تھا کہ ۔۔موبائل فونز کے نائٹ پیکچز نے تو ہمیں بھوکاماردیا ہے، جس گھر میں چوری کے لئے جاؤ،وہاں کوئی نہ کوئی عاشق جاگ رہا ہوتا ہے۔۔جانو ہولڈ کرولگتا ہے کوئی ہے۔۔بات تو ایک بہت پرانے لطیفے کی ہے کہ کسی سادہ لوح نے صبح آنکھ کھول کر دیکھا تو گھر میں پرانے ماڈل کی بے قدر وقیمت بیوی علاوہ کے سوا کچھ نہ تھا۔ صندوقوں‘ الماریوں کے تالے ٹاٹے ہوئے قیمتی اشیا غائب‘ بیرونی دروازے بند مگر پچلی دیوار میں اینٹیں نکلنے سے کھڑکی سی بنی ہوئی۔ روتے پیٹتے گاؤں کے سب سے عقلمند آدمی ’’لال بجھکڑ ‘‘کو بلایا گیا کہ سراغ لگائے۔ سب دم سادھے کمال متانت و یکسوئی سے اسے جھک کر بیٹھ کر اورالٹا سیدھا لیٹ کر جائزہ لیتا دیکھتے رہے کہ بس ابھی کوئی دم میں مجرم کا نام بتاتا ہے۔۔بالاخر لال بجھکڑ نے مسکراتے ہوئے بنظر غائرحاضرین کی طرف دیکھا اورمتانت سے کہا ۔۔’’ہونہ ہو یہ کام کسی چور کا ہے‘‘۔۔۔پولیس اہلکار نے چورکورنگے ہاتھوں پکڑ لیا مگر اس کے پاس ہتھکڑی نہیں تھی۔چوربولا۔۔آپ یہاں رکیں میں ہتھکڑی لاتا ہوں۔۔پولیس اہلکار غصے سے دھاڑا۔۔نہیں، پچھلی بار بھی تم ہتھکڑی لینے کے بہانے گئے اور بھاگ نکلے، اس بار میں ایسا ہونے نہیں دونگا، تم یہیں رکو، میں ہتھکڑی لاتاہوں۔۔وکیل نے اپنے کلائنٹ سے کہا، اب جب کہ میں نے تمہیں بری کرا دیا ہے تو مجھے بتاتے جاؤ کہ تم نے چوری کی تھی یا نہیں؟ چور نے وکیل کی بات سنی اور بڑی معصومیت سے بولا۔۔ جناب! عدالت میں آپ کی بحث سن کر مجھے یقین سا ہو گیا ہے کہ میں نے چوری نہیں کی۔۔۔ایک آدمی مسجد کا گھڑیال چوری کر رہا تھا۔ اچانک اسے پیچھے سے قدموں کی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا کہ ایک شخص جوتوں سمیت اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔اس نے غصے سے کہا ۔۔ شرم کرو ! مسجد میں جوتوں سمیت گھس آئے ہو۔ اگر میں مصروف نہ ہوتا تو تمہیں مسجد کی بے حرمتی کا مزہ ضرور چکھاتا۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔۔عام چور آپ کا مال‘ آپ کا پرس‘ آپ کی گھڑی اور آپ کا موبائل فون وغیرہ چھین لیتا ہے۔ سیاسی چور آپ کا مستقبل‘ آپ کے خواب‘ آپ کا عمل‘ آپ کی تعلیم‘ آپ کی صحت ‘ آپ کی قوت اورآپ کی مسکراہٹیں چھین لیتے ہیں۔ان دونوں میں ایک کمال کا بنیادی فرق ہوتا ہے،جو شاید آپ کے علم میں نہ ہو۔۔عام چور آپ کا انتخاب کرتا ہے جبکہ سیاست دانوں کا انتخاب آپ خود کرتے ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں